تبادلۂ خیال:معاویہ بن ابو سفیان
صارف:Regalchowk کے دو قطعوں پر اعتراض کے بعد (دیکھیں تاریخہ)، ان کے لیے مسنتند حوالہ دینا ضروری ہو گیا۔ اگر یہ وقعات تاریخ دانوں کے مطابق متنازعہ ہیں تو اس کا بھی ذکر ہونا چاہیے۔ --Urdutext 23:16, 28 جولائی 2008 (UTC)
- اس مضمون کے تعارفی قطعے کے بہتر بنا کر اسے ایک اچھا مقالہ بنایا جاسکتا ہے۔ اگر اس پر کچھ محنت کر لی جائے تو یہ امیدوار برائے منتخب مقالہ بھی بن سکتا ہے فہد احمد 05:36, 10 ستمبر 2009 (UTC)
’باید دانست کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما یکے از اصحاب آنحضرت بود او صاحب فضیلت جلیلہ و زمرۂ صحابہ رضی اﷲ عنہم زنہار در حق اور سوءِ ظن نکنی و در ورطۂ سب او نہ افوتی تا مرتکب حرام نشوی‘‘۔ (ازالۃ الخفاء، فصل پنجم) ترجمہ: ’’جاننا چاہیے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما ایک شخص تھے، اصحابِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں سے اور زمرۂ صحابہ رضی اﷲ عنہم میں بڑے صاحب فضلیت تھے، تم کبھی ان کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور ان کی بدگوئی میں مبتلا نہ ہونا ورنہ تم حرام کے مرتکب ہو گے‘‘۔
It ha been an informative article But... at places Language is not at par with the Status and Alocance of Companions of Holy Prophet
Hazrat Muavia or any Companion can not Blaimed for anything of his time because we are not the Judge for them so let it be Judged by Him...
His Islam Dates back to 6th Hijra at the time of Baa't e Rizwan and the Mue Mubarak (the author has reffered to) was probably of that time
I very humbly submit that the piece of writing itself get off balanced... when at 99 places Hazrat Muavia is seen as a Great Leader and a True Gentleman of Grace But... suddenly at the 100th place his all Goods are unevenly negated without histohistoric evidence and strong Analytics
Tabri has done a great deal of work yet his critics have brought fault lines in his Master piece
His credits can't be Discredited because he has served and guided the Ummah for 40-41 years
I love Hazrat Ali and Ahl-e-Baa't much more than I love Hazrat Muavia But my love to my Prophet demands Unconditional Respect to his Beloved Companions
May Allah Give us Hidayah to realize that Why Holy Prophet spoke of his Companions as Guiding Stars
Jazak Allah
کاتب وحی
ترمیم@Arif80s: ابوسفیان نے فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا تھا، تو صحابہ ان سے نفرت کرتے تھے اور نہ ساتھ بیٹھتے تھے تو ابوسفیان نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے گزارش کی تھی کہ صحابہ میرے ساتھ یہ کر رہے ہیں اگر آپ میرے بیٹے کو اپنا کاتب رکھ لیں تو شاید ان کے دل سے نفرت دور ہو جائے گی۔ (صحيح مسلم، ج 4 ص 1945، ح2501 ، کتاب فضائل صحابہ، 40 باب من فضائل ابی سفیان بن حرب، تحقيق: محمد فواد عبد الباقی، ناشر: دار احیار التراث العربی - بیروت) اور جب انہوں نے اسلام قبول کیا تھا تو ٩٩ فیصد قرآن نازل ہو چکا تھا۔ آپ نے سنی حوالے دیے ہیں جو معتبر نہیں نیز ہمیں حدیث کی روشنی میں بات کرنی چاہیے۔ بہت سے سنی بزرگ علما یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ معاویہ فقط معمولی خطوطِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لکھتا تھا۔ ”زيد بن ثابت كاتب وحی تھے اور معاویہ عرب کو خط لکھتا تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے“ ((1) الذہبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ابو عبد اللہ، سير اعلام النبلاء، ج 3، ص 123، تحقیق : شعیب الارناؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر: مؤسسہ الرسالہ - بیروت ، الطبعہ: التاسعہ، 1413ھ — (2) العسقلانی ، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل الشافعی ، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج 6، ص 153، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجيل - بیروت ، الطبعہ : الاولى ، 1412ھ - 1992ء — (3) ابن ابی الحدید المعتزلی ، ابو حامد عز الدین بن ہبہ اللہ ، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 201 - 202 ، تحقیق: محمد عبد الکریم النمری، ناشر : دار الکتب العلمیہ - بیروت/لبنان ، الطبعہ: الاولى ، 1418ھ - 1998ء۔)— بخاری سعید تبادلہ خیال 04:58، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @Obaid Raza، Tahir mq، محمد شعیب، اور Hindustanilanguage: رائے دیجیے۔— بخاری سعید تبادلہ خیال 06:02، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @BukhariSaeed: مضمون میں امیر معاویہ بن ابو سفیان کے حوالے سے کاتبِ وحی ہونے کی عبارت پہلے سے موجود تھی، میں نے کسی صارف کے حوالہ درکار سانچے کے جواب میں دو کتب کے حوالے دئیے ہیں۔ حوالے معتبر ہیں یا نہیں یہ طے کرنا علماء کرام کا کام ہے، میرا یا آپ کا نہیں۔ مزید براں کوئی بھی صارف ان حوالوں کو رد کر سکتا ہے، اگر ایسا کیا گیا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔محمد عارف سومرو (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 06:33، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- عارف بھائی، میرا اختلاف اس بات پر ہے کہ آپ ان کے کاتب وحی ہونے کے حق میں حوالے شامل کر رہے ہیں، میں نے علامہ ذہبی کا حوالہ دیا ہے جس کو آپ نے شامل بھی نہیں کیا اور اسی میں مزید حوالے ایڈ کر دیے۔ ذہبی اور کچھ جید سنی علما نے معاویہ کو معمولی ”کاتب“ کہا ہے، وہ خط لکھا کرتے تھے۔ براہ مہربانی کاتب وحی کے آگے یہ بھی لکھا جائے کہ یہ متنازع ہے۔— بخاری سعید تبادلہ خیال 07:15، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @BukhariSaeed: جناب بخاری سعید صاحب طبری، ابن خلدون، اور سیوطی نے حضرت معاویہ کو صاف الفاظ میں کاتبِ وہی کہا ہے۔ کیا ہم انہیں رد کر سکتے ہیں؟ میں نے حضرت معاویہ کے کاتبِ وحہ کے حق مین حوالہ دئیے ہیں، کوئی بھی صارف امیر معاویہ کے کاتبِ وحی کے رد میں حوالہ جات شامل کر سکتا ہے۔ محمد عارف سومرو (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:48، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @Arif80s: عارف بھائی، عارضی طور پر متنازع کا سانچہ لگا چکا ہوں۔ کچھ دن دیکھتے ہیں۔ اگر رد میں حوالہ جات ہوں تو وہ بھی شامل کرتے ہیں۔ ورنہ اس سانچے کو ویسے ہی ہٹا دیتے ہیں۔ --مزمل الدین (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:53، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @Hindustanilanguage: بہتر بھی یہی ہے۔ اب فیصلہ منتظمین اور صارفین پر چھوڑتے ہیں۔ امید ہے کہ حوالہ جات کی صحت اور جاچ پڑتال کے بعد جو بھی فیصلہ ہو گا وہ اردو ویکی کے لیے خوش آئند ہوگا اور وہ ہم من و عن تسلیم کریں گے۔ محمد عارف سومرو (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 08:00، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- شاید عارف بھائی میری بات کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ دونوں موقف لکھے جانے چاہییں: ”کاتب وحی“ اور ”کاتب خطوط نبوی“۔ تحقیق کے مطابق وہ کاتب وحی نہیں تھے۔— بخاری سعید تبادلہ خیال 08:42، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @BukhariSaeed: بخاری سعید صاحب، میں سمجھ چکا ہوں، حضرت معاویہ کاتب وحی بھی اور کاتب خطوط نبوی بھی۔ موضوع بحث صرف کاتب وحی ہے۔ میں کاتب وحی کے حق میں حوالے دے چکا۔ اب آپ یا کوئی اور رد میں حوالہ دے سکتا ہے۔ محمد عارف سومرو (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:18، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- شاید عارف بھائی میری بات کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ دونوں موقف لکھے جانے چاہییں: ”کاتب وحی“ اور ”کاتب خطوط نبوی“۔ تحقیق کے مطابق وہ کاتب وحی نہیں تھے۔— بخاری سعید تبادلہ خیال 08:42، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @Hindustanilanguage: بہتر بھی یہی ہے۔ اب فیصلہ منتظمین اور صارفین پر چھوڑتے ہیں۔ امید ہے کہ حوالہ جات کی صحت اور جاچ پڑتال کے بعد جو بھی فیصلہ ہو گا وہ اردو ویکی کے لیے خوش آئند ہوگا اور وہ ہم من و عن تسلیم کریں گے۔ محمد عارف سومرو (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 08:00، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @Arif80s: عارف بھائی، عارضی طور پر متنازع کا سانچہ لگا چکا ہوں۔ کچھ دن دیکھتے ہیں۔ اگر رد میں حوالہ جات ہوں تو وہ بھی شامل کرتے ہیں۔ ورنہ اس سانچے کو ویسے ہی ہٹا دیتے ہیں۔ --مزمل الدین (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:53، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @BukhariSaeed: جناب بخاری سعید صاحب طبری، ابن خلدون، اور سیوطی نے حضرت معاویہ کو صاف الفاظ میں کاتبِ وہی کہا ہے۔ کیا ہم انہیں رد کر سکتے ہیں؟ میں نے حضرت معاویہ کے کاتبِ وحہ کے حق مین حوالہ دئیے ہیں، کوئی بھی صارف امیر معاویہ کے کاتبِ وحی کے رد میں حوالہ جات شامل کر سکتا ہے۔ محمد عارف سومرو (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:48، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- عارف بھائی، میرا اختلاف اس بات پر ہے کہ آپ ان کے کاتب وحی ہونے کے حق میں حوالے شامل کر رہے ہیں، میں نے علامہ ذہبی کا حوالہ دیا ہے جس کو آپ نے شامل بھی نہیں کیا اور اسی میں مزید حوالے ایڈ کر دیے۔ ذہبی اور کچھ جید سنی علما نے معاویہ کو معمولی ”کاتب“ کہا ہے، وہ خط لکھا کرتے تھے۔ براہ مہربانی کاتب وحی کے آگے یہ بھی لکھا جائے کہ یہ متنازع ہے۔— بخاری سعید تبادلہ خیال 07:15، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @BukhariSaeed: مضمون میں امیر معاویہ بن ابو سفیان کے حوالے سے کاتبِ وحی ہونے کی عبارت پہلے سے موجود تھی، میں نے کسی صارف کے حوالہ درکار سانچے کے جواب میں دو کتب کے حوالے دئیے ہیں۔ حوالے معتبر ہیں یا نہیں یہ طے کرنا علماء کرام کا کام ہے، میرا یا آپ کا نہیں۔ مزید براں کوئی بھی صارف ان حوالوں کو رد کر سکتا ہے، اگر ایسا کیا گیا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔محمد عارف سومرو (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 06:33، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- یہ مضمون اہل سنت کے بعض مکاتب کے مطابق ہے شافعی مالکی اور حنبلی نیز اہل تشیع کا نقطہ نظر بیان نہیں کیا گیاہے۔--علی نقی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 14:52، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- آپ اس میں اہل تشیع کی بھی رائے شامل فرمایئے۔ @Arif80s: اگلے کچھ دنوں میں اس موضوع پر شاید اور بحث ہوگی۔ اس کو ہمیں غیر جذباتی انداز میں، جس میں مکاتب فکر کے خیالات کو جگہ دی جائے، کوئی حکمت عملی تیار کرنا ہو گا۔ نیز سنی اور شیعہ نقطہ نظر ایک دوسرے کے بالکل الٹ ہو سکتے ہیں۔ --مزمل الدین (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:40، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- متصلًا عرض کردوں کہ ایک آئی پی نے دروناچاریہ پر ایک سطری مضمون لکھا تھا۔ میں نے کم وقت میں اس میں اضافے کی کوشش کی، جس میں اس تاریخی / مذہبی شخصیت کے دو اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی، ایک اس کا طریقہ تدریس، دوسرا اس زمانے میں سماج طبقاتی تفریق۔ مضمون کا حوالہ جات سے خالی ہونا اگرچیکہ اپنے سقیم ہونے کا گواہ ہے، تاہم مثبت و منفی پہلو کے بیان سے متوازن شخصیت نگاری کی کوشش کی گئی ہے۔--مزمل الدین (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:47، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- @Hindustanilanguage:، @Syedalinaqinaqvi: محترم بھائی یہ مضمون میرا نہیں اور خاکسار اسلام سے متعلق اور خاص کر فقہی مسائل، صحابہ کرام اور جن پر تاریخ اسلام میں اختلاف ہو، ایسے موضوعات پر نہیں لکھتا۔ اس لیے دوستوں سے معذرت کہ میں اس مضمون میں دیگر مسالک کا نقطہ نظر پیش نہیں کر سکتا۔ اس مضمون میں کسی صارف نے حوالہ درکار کا ٹیگ لگایا تھا اس کے جواب میں نے کچھ حوالہ جات دے دئیے اور بس۔ ویسے علی نقی صاحب امیر معاویہ کے کاتبِ وحی ہونے پر دو رائے نہیں، کیا آپ طبری، ابن خلدون اور سیوطی کو رد کر سکتے ہیں؟ دوسری بات کہ کسی محترم دوست نے فقہ حنفیہ کے علاوہ کسی دیگر مسالک کا جو نقطہ نظر پیش کرنا ہےوہ بلا جھجک پیش کر سکتا ہے۔ لیکن درخواست ہے کہ طبری، ابن خلدون اور سیوطی کے حوالہ جات موجود رہنے چاہییں تاکہ موازنہ کرنے میں آسانی ہو۔ میں محترم مزمل صاحب کی اس رائے سے متفق ہوں کہ ہمیں غیر جذباتی انداز میں، جس میں مکاتب فکر کے خیالات کو جگہ دی جائے، کوئی حکمت عملی تیار کرنا ہو گا۔ محمد عارف سومرو (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 04:29، 10 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- متصلًا عرض کردوں کہ ایک آئی پی نے دروناچاریہ پر ایک سطری مضمون لکھا تھا۔ میں نے کم وقت میں اس میں اضافے کی کوشش کی، جس میں اس تاریخی / مذہبی شخصیت کے دو اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی، ایک اس کا طریقہ تدریس، دوسرا اس زمانے میں سماج طبقاتی تفریق۔ مضمون کا حوالہ جات سے خالی ہونا اگرچیکہ اپنے سقیم ہونے کا گواہ ہے، تاہم مثبت و منفی پہلو کے بیان سے متوازن شخصیت نگاری کی کوشش کی گئی ہے۔--مزمل الدین (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:47، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- آپ اس میں اہل تشیع کی بھی رائے شامل فرمایئے۔ @Arif80s: اگلے کچھ دنوں میں اس موضوع پر شاید اور بحث ہوگی۔ اس کو ہمیں غیر جذباتی انداز میں، جس میں مکاتب فکر کے خیالات کو جگہ دی جائے، کوئی حکمت عملی تیار کرنا ہو گا۔ نیز سنی اور شیعہ نقطہ نظر ایک دوسرے کے بالکل الٹ ہو سکتے ہیں۔ --مزمل الدین (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:40، 9 اکتوبر 2018ء (م ع و)
معاویہ نبی کریم صلعم کی نگاہ میں. کتاب البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 133 ذکر معاویہ معاویہ کو جب میرے منبر پر دیکھو تو اسکو قتل کر دینا. معاویہ حضرت عمر کی نظر میں. اسی کتاب البدایہ والنہایہ کے صفحہ 125 پر جناب عمر بن خطاب نے معاویہ کو دیکھ کر کافر بادشاھ کا لقب دیا. معاویہ حضرت عثمان کی نظر میں. کتاب تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 198 ذکر عثمان حضرت عثمان نے معاویہ کو صاف کہا کہ تو چاھتا ہے کہ عثمان قتل کر دیا جائے اور بعد میں تو میرے قتل کا رونا روئے.
معاویہ حضرت علی ع کی نگاہ میں. تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 308 معاویہ سے دور رہو کیونکہ وہ شیطان ہے.
معاویہ امی عائشہ کی نگاہ میں. البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 131 ذکر معاویہ. امی عائشہ نے معاویہ کا دعوی خلافت پر فرمایا. چار سو سال تک مصر پر فرعون نے بھی حکومت کی تھی.
معاویہ محمد بن ابوبکر کی نگاہ میں. کتاب مروج الذھب جلد 3 صفحہ 20 انت لعین ابن لعین. کہ تو لعین بیٹا لعین کا ہے.
معاویہ عبداللہ ابن عمر بن خطاب کی نظر میں. کتاب شرح ابن ابی الحدید جلد1 صفحہ 322 اے معاویہ تو فتح مکہ کے بعد آزاد کردہ ہے.
معاویہ خود اپنی نگاہ میں. کتاب البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 118 ذکر معاویہ جب معاویہ کو لقوہ ہوگیا تو مروان کو معاویہ نے کہا کہ عذاب خدا جلدی آگیا ہے. میں نے علی ابن ابوطالب کو اس کے حق سے ہٹایا.
-39.41.235.131 05:29، 10 اکتوبر 2018ء (م ع و)
- حوالے درست ہیں مگر محترم اگر اپنی پہچان بتا دیں تو مہربانی ہوگی۔— بخاری سعید تبادلہ خیال 11:36، 14 اکتوبر 2018ء (م ع و)
معاویہ کا حضرت علی علیہ السلام پر لعن طعن کرنا معتبر ترین حوالوں سے ثابت ہے۔ جس کا انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ اختصار کے ساتھ چند موارد کا ذکر کرتے ہیں: بنی امیہ کا ہر فرد امير المؤمنين علی (ع) پر لعنت کیا کرتا تھا:
حافظ ابن عساكر نے کتاب تاريخ مدينہ دمشق میں لکھا ہے کہ:
حدثنا خالد بن يزيد عن معاوية قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر فقال كثير عزة:
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تقنع سجية مجرم
وقلت فصدقت الذي قلت بالذي فعلت فأضحى راضيا كل مسلم .
خالد ابن زيد نے معاويہ سے نقل کیا ہے کہ: جب بھی بنی امیہ کا کوئی فرد بھی اپنی جگہ سے اوپر اٹھتا تو علی پر لعنت کرتا تھا، عمر ابن عبد العزیز نے علی پر لعنت نہیں کی، لہذا کثیر العزۃ شاعر نے ایسے اسکی تعریف کی ہے:
تم حاکم بن گئے لیکن تم نے علی پر سبّ و شتم نہ کی اور تم ڈرے بھی نہیں، تم نیک انسان ہو اور تم نے مجرموں کی راہ کی پیروی نہیں کی اور تم نے جو کہا سچ کہا اور اس پر عمل کیا، پس ہر مسلمان اس کام سے راضی تھا۔[1]
ابو نعيم اصفہانی نے کتاب حلية الأولياء میں لکھا ہے کہ:
ثنا خالد بن يزيد عن جعونة قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر بن عبد العزيز فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تتبع سجية مجرم[2]
علی (ع) پر سبّ و شتم عمر ابن عبد العزیز کے زمانے تک جاری رہی:
محمد ابن سعد نے کتاب الطبقات الكبری اور ذہبی نے کتاب سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے:
أخبرنا علي بن محمد عن لوط بن يحيى الغامدي قال كان الولاة من بني أمية قبل عمر بن عبد العزيز يشتمون عليا رحمه الله فلما ولي عمر أمسك عن ذلك .
عمر ابن عبد العزیز کے زمانے سے پہلے بنی امیہ کے حکمران علی پر سبّ و شتم کرتے تھے، جب عمر حاکم بنا تو اس نے یہ کام انجام نہیں دیا۔[3] اور ذہبی نے بھی بنی مروان کے حکمرانوں کے بارے میں لکھا ہے:
في آل مروان نصب ظاهر سوى عمر بن عبد العزيز … .
عمر ابن عبد العزیز کے علاوہ آل مروان علی کے دشمن تھے۔[4]
كان خلفاء بني أمية يسبون علياً رضي الله عنه من سنة إِحدى وأربعين وهي السنة التي خلع الحسن فيها نفسه من الخلافة إلى أول سنة تسع وتسعين آخر أيام سليمان بن عبد الملك فلما ولي عمر أبطل ذلك وكتب إِلى نوابه بإبطاله … .
خلفائے بنی امیہ سن 41 ہجری سے، کہ اس سال حسن ابن علی (ع) خلافت سے عزل ہوئے تھے، سن 99 ہجری تک، کہ سلیمان ابن عبد الملک کی حکومت کے آخری ایام اور عمر ابن عبد العزیز کی حکومت کے آغاز تک، علی پر سبّ و لعن کیا کرتے تھے۔[5]
آلوسی مفسر مشہور اہل سنت نے آيت «إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ … » سورہ نحل آیت 90، کی تفسیر میں لکھا ہے:
أقامها عمر بن عبد العزيز حين آلت الخلافة إليه مقام ما كانو بنو أمية غضب الله تعالى عليهم يجعلونه في أواخر خطبهم من سب علي كرم الله تعالى وجهه ولعن كل من بغضه وسبه وكان ذلك من أعظم مآثره رضي الله تعالى عنه .
عمر ابن عبد العزیز جب خلیفہ بنا تو اس نے احسان و نیکی کو علی پر سبّ و لعن کی جگہ قرار دیا اور زندہ کیا، بنی امیہ کہ خداوند کا غضب ان پر نازل ہو، عمر ابن عبد العزیز کے زمانے تک نماز جمعہ کے خطبوں کے آخر میں علی پر سبّ و لعن کیا کرتے تھے کہ یہ کام عمر ابن عبد العزیز کے لیے ایک افتخار شمار ہوتا ہے۔[6]
ابن خلدون نے اپنی تاريخ کی کتاب میں واضح کہا ہے کہ:
وكان بنو أمية يسبون عليا فكتب عمر إلى الآفاق بترك ذلك .
بنی امیہ علی کو گالیاں دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ عمر ابن عبد العزیز نے تمام ممالک کو خط لکھا اور اس کام کے ترک کرنے کا حکم دیا۔[7]
شيخ محمد ابن علی المعروف ابن العمرانی نے کتاب الإنباء في تاريخ الخلفاء میں لکھا ہے:
وكان بني امية كلهم يلعنون عليا ـ صلوات الله عليه وسلامه ـ علي المنبر ، فمذ ولي عمر بن عبد العزيز قطع تلك اللعنة .
تمام کے تمام بنی امیہ منبروں پر سر عام علی پر لعنت کیا کرتے تھے، جب عمر ابن عبد العزیز کو حکومت ملی تو اس نے اس کام کے ترک کرنے کا حکم دیا۔[8]
شہاب الدين احمد ابن عبد الوہاب نويری نے کتاب نهاية الأرب في فنون الأدب میں بيعت عمر ابن عبد العزيز کی فصل میں لکھا ہے کہ:
وكان من أول ما ابتدأ به عمر بن عبد العزيز أن ترك سب علي بن أبي طالب رضي الله عنه على المنابر، وكان يسب في أيام بني أمية إلى أن ولي عمر فترك ذلك .
پہلا کام کہ جو عمر ابن عبد العزیز نے انجام دیا، یہ تھا کہ اس نے منبروں پر علی ابن ابی طالب پر ہونے والی سبّ و شتم کو ختم کروایا، بنی امیہ کے زمانے میں علی کو گالیاں دی جاتی تھیں، مگر جب عمر ابن عبد العزیز خلیفہ بنا تو اس نے اس کام کو ختم کروا دیا۔[9]
حافظ جلال الدين سيوطی نے کتاب تاريخ الخلفاء کہا ہے: كان بنو أمية يسبون علي بن أبي طالب في الخطبة فلما ولي عمر ابن عبد العزيز أبطله وكتب إلى نوابه بإبطاله. بنی امیہ نماز کے خطبات میں علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیا کرتے تھے، لیکن جب عمر ابن عبد العزیز کو خلافت ملی تو اس نے اس کام کے ترک کرنے کا حکم صادر کیا۔[10]
ابن اثير نے تاريخ کی کتاب میں لکھا ہے: كان بنو أمية يسبون أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام إلى أن ولي عمر بن عبد العزيز فترك ذلك وكتب إلى العمال في الآفاق بتركه. بنی امیہ نماز کے خطبات میں علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیا کرتے تھے، لیکن جب عمر ابن عبد العزیز کو خلافت ملی تو اس نے سرکاری سطح پر اس کام کے ترک کرنے کا حکم صادر کیا۔[11] خير الدين زركلی نے كتاب الأعلام میں عمر ابن عبد العزیز کے حالات میں لکھا ہے: وولي الخلافة بعهد من سليمان سنة 99 ه ، فبويع في مسجد دمشق . وسكن الناس في أيامه ، فمنع سب علي بن أبي طالب ( وكان من تقدمه من الأمويين يسبونه على المنابر ).
عمر ابن عبد العزیز کو سلیمان کے بعد سن 99 ہجری میں خلافت ملی، لوگوں نے مسجد دمشق میں اسکی بیعت کی، لوگ اسکے دور خلافت میں آرام و سکون میں رہے، اس نے علی پر بنی امیہ کے حکمرانوں کی طرف سے ہونے والی سبّ و شتم کو منع کروایا۔[12]
A Humble Submission
ترمیمIt ha been an informative article But... at places Language is not at par with the Status and Alocance of Companions of Holy Prophet
Hazrat Muavia or any Companion can not Blaimed for anything of his time because we are not the Judge for them so let it be Judged by Him...
His Islam Dates back to 6th Hijra at the time of Baa't e Rizwan and the Mue Mubarak (the author has reffered to) was probably of that time
I very humbly submit that the piece of writing itself get off balanced... when at 99 places Hazrat Muavia is seen as a Great Leader and a True Gentleman of Grace But... suddenly at the 100th place his all Goods are unevenly negated without histohistoric evidence and strong Analytics
Tabri has done a great deal of work yet his critics have brought fault lines in his Master piece
His credits can't be Discredited because he has served and guided the Ummah for 40-41 years
I love Hazrat Ali and Ahl-e-Baa't much more than I love Hazrat Muavia But my love to my Prophet demands Unconditional Respect to his Beloved Companions
May Allah Give us Hidayah to realize that Why Holy Prophet spoke of his Companions as Guiding Stars
Jazak Allah Zeeshan Noor Siddiqui (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 13:11، 18 جنوری 2021ء (م ع و)
قاتلین حضرت عمار بن یاسر
ترمیمسیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بھی بہتر آدمی یعنی سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ (بحوالہ مسند احمد، حدیث 11953)
محمد بن عمروبن حزم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو سیدنا عمر و بن حزم رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں بتلایاکہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں، جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: عمار قتل ہوگئے تو پھر کیا ہوا؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا ہے کہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم اپنے پیشاب میں پھسلو، کیا ہم نے اس کو قتل کیاہے؟ اسے تو علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے مروایا ہے، وہ لوگ انہیں لے آئے اور لا کر ہمارے نیزوں یا تلواروں کے درمیان لا کھڑا کیا۔ (بحوالہ مسند احمد، حدیث 12347)
معاویہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ اور بغاوت 39.62.22.86 23:36، 1 اگست 2023ء (م ع و)
- ↑ تاريخ مدينه دمشق ، ج50 ، ص96.
- ↑ حلية الأولياء ، ابو نعيم ، ج5 ، ص356 ، ط الثانيه ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1423 هـ .
- ↑ الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج5 ، ص393 و سير اعلام النبلاء ، ج5 ، ص147 .
- ↑ سير اعلام النبلاء ، ج 5 ، ص113 .
- ↑ تاريخ أبي الفداء ، فصل في ذكر إبطال عمر بن عبد العزيز سب علي بن أبي طالب علي المنابر ، ج1 ، ص287 .
- ↑ روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، آلوسي ، ج7 ، ص456 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1422 هـ .
- ↑ تاريخ ابن خلدون ، ج3 ، ص75 .
- ↑ الإنباء في تاريخ الخلفاء ، ابن العمراني ، ص51 ، ط الأولي ، دار الآفاق العربية ، مصر ، 1419 هـ .
- ↑ نهاية الأرب في فنون الأدب ، النويري ، ج21 ، ص216 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1424 هـ .
- ↑ تاريخ الخلفاء ، السيوطي ، ص194 ، ط الأولي ، مصر ، دار الفجر للتراث ، 1420 هـ .
- ↑ الكامل في التاريخ ، حوادث سال 99 هـ ، ج5 ، ص42 .
- ↑ الأعلام ، خير الدين الزركلي ، ج 5 ، ص50 .