• السلام علیکم حضور! کیا معاملہ ہے صاحب، آپ بے تکے اندراجات فرما رہے ہیں۔ مسئلہ فیثا غورث میں ابوطالب کا کیا کام؟ اگر آپ کی یہی حرکات برقرار رہیں تو آپ پر پابندی لگانا لازم ہو جائے گا۔ --سمرقندی 14:22, 4 مئی 2011 (UTC)
  • اٹھائے گئے کسی اعتراض پر جواب دیئے بغیر اپنی حرکات کو جاری نہیں رکھا جاسکتا، اردو سمجھ آتی ہے؟ --سمرقندی 14:26, 4 مئی 2011 (UTC)

سکوت امیرالمومنین کے اسباب ترمیم

سکوت امیرالمومنین کے اسباب مقدمہ ’’یاابن الام ان القوم استضعفوانی و کادوا ان یقتلوننی‘‘(١)

سقیفہ کے گھٹا ٹوپ اندھیرے اور ظلمت کدے سے ابھرتی ہوئی کسی مظلوم اور بے بس کی یہ وہ دلخراش آواز ہے جو آج بھی کانوں سے بار بار ٹکراتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ میں اس شخص کی آواز ہوں جو تاریخ کا وہ مظلوم انسان ہے جو اپنے بازوؤں میں طاقت و توانائی رکھنے کے باوجود بے بس و ناتواں تھا

جی ہاں! یہ اسی ہارون وقت، علی مرتضی (ع)کی آواز ہے جس کو جب بیعت کیلۓ کشاں کشاں برہنہ تلواروں کے ساۓ میں لے جایا جانے لگا تو اس نے موسئ وقت، مرسل اعظم کی قبر اطہر سے لپٹ کر فریاد کی کہ’’اے میرے مانجاۓ میں کیا کرتا قوم نے مجھے حقیر سمجھا اور (میرا کہنا نہ مانا بلکہ) قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں‘‘۔ (٢)وہ علی کہ جس کی بہادری اور شجاعت کا یہ عالم تھا کہ صرف اس کے نام سے بڑے باڑے ساونتوں کی پنڈلیاں کانپ جایا کرتی تھیں، جس نے نبوت کا بازو بن کر کفار قریش کی دھمکیوں سے بے خوف و خطر رہ کر اسلام کو آفاقی بنایا ہو، یہود و نصاریٰ کا قلع قمع کیا، جس نے اسلام کے دامن کو فتوحات سے مالامال کیا ہو، جسے ’’حرب و ضرب سے دھمکایا اور ڈرایا نہ جاسکا ہو‘‘(٣) جسے موت کا خوف ہی نہ ہو اور موت کا قصیدہ پڑھتے ہوۓ کہے کہ ’’خدا کی قسم! ابوطالب کا بیٹا موت سے اتنا مانوس ہے کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے ہوتا ہے‘‘(٤)جسے اعدا اور دشمنوں کی کثرت مرعوب نہ کرسکے اور کہے کہ ’’خدا کی قسم! اگر تمام عرب ایکا کرکے مجھ سے بھڑنا چاہیں تو میدان چھوڑ کر پیٹھ نہ دکھائوں گا اور موقع پاتے ہی ان کی گردنیں دبوچ لینے کےلۓ آگے بڑھوں گا۔‘‘(٥)

اس علی کوکیاہوگیاتھا کہ پیغمبر صلح وامن کے بعدیکلخت خاموش ہوگیا، عزلت و گوشہ نشینی کو اپنا طرز زندگی بنالیا، اجتماعات میں شرکت کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے گلے میں رسی کا پھندا ڈالا جاتا ہے تو خاموش رہتا ہے۔ ناموس کی بے حرمتی کی جاتی ہے،گھر آگ اور لکڑیوں کی نذر کردیاجاتا ہے مگر پھر بھی زباں پہ مہر سکوت!اپنی عزیزترین شریکۂ حیات کی شہادت کے بعد جب وہ علی معاشرے کی ایذارسانیوں سے تنگ آجاتا ہے تو کنویں میں سر ڈال کر اپنا درد دل بیان کرتا ہے۔

جو حق کے متعلق اس طرح بیان کرے کہ ’’مجھے اپنی زندگی کی قسم! میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رورعایت اور سستی نہیں کروں گا‘‘۔(٦) اس علی نے کیسے اپنے حق سے چشم پوشی کرلی؟!!

کیا وجہ تھی کہ علی جیسا بہادر اور سورما کہ جس کی بہادری سپہر شجاعت پر کمندیں ڈالتی ہو، جسکی قہر آگیں ذوالفقار چلتی ہو تو موت ہی موت رقصاں نظر آتی ہو؛ وہ علی کیسے خاموشی کو اپنا شیوہ بناۓ نظارئہ خلق کرتا رہا؟!!

اس مسئلے کو لیکر ہم اسی بارگاہ ذی شرف میں چلتے ہیں کہ جس نے لوگوں کی مشکلات کا حل اتنی امانتداری کے ساتھ بتایا کہ اغیار بھی کہہ اٹھے

’’لولا علی لہلک عمر‘‘(٧)

اس مسئلے کو ہم اسی کی زبان صداقت سے نکلے ہوۓ جواہرپاروں سے حل کرنے کی کوشش کریں گے کہ جو’’نہج البلاغہ‘‘ کی صورت میں ہمارے درمیان ایک عظیم سرمایہ اور کتاب خدا کے بعد سب سے گرانبہا کتاب ہے۔

پہلے اتمام حجت... یہ ایک عقلی قانون اور کلیہ ہے۔ جب بھی کسی ذی شعور کے خلاف کوئی عمل انجام پاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا عکس العمل یہ ہوتا ہے کہ وہ مد مقابل کے لۓ توجیہ اور فرار کے سارے راستوں کو بند کردیتا ہے کہ جسے ہم ’’اتمام حجت‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد پھر وہ اپنی کارروائی شروع کرتا ہے۔

بالکل یہی طرز احتجاج امیرالمومنین کا تھا۔ لہٰذا امام نے مصلحت اس میں جانی کہ صرف خاموش رہنا غاصبان خلافت کے ناروا اور نازیبا افعال کو صداقت بخشنے کے مترادف ہوگا اس لۓ ایسے موقع پر مطلقاً خاموش رہ جانا ناقابل تلافی سکوت ہوگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری خاموشی ان کی حقانیت کا شاخسانہ بن جاۓ۔ لہٰذا مہر سکوت توڑا اور مختلف مواقع پہ واشگاف لفظوں میں اپنی اختلاف راۓ اور اپنے اعتراضات و احتجاجات کو بیان کیا۔ (٨) لہٰذا کبھی صحیح حقدار خلافت کو پہچنواتے ہیں اور فرماتے ہیں :’’حق ولایت کی خصوصیات انہی کے لۓ ہیں اور انہی کے بارے میں پیغمبر کی وصیت اور انہی کے لۓ(نبی کی ) وراثت ہے۔ ‘‘(٩)

تو کبھی واضح طور پر اپنے حق کے غاصب کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم! فرزند ابوقحافہ نے پیراہن خلافت پہن لیا ہے حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے۔‘‘ (10)

دنیا کا عظیم ترین مفکر اس فکر میں غرق تھا کہ میں اگر یونہی خاموش رہ گیا تو دنیا اسے حقیقت بنا دے گی۔ اس لۓ مطلق سکوت اختیار کرنا جرم ہوگا لہٰذا مولا نے موقع ملتے ہی اپنا عندیہ بیان کردیا۔ پورا پورا خطبۂ شقشقیہ اسی دکھ کی تو درد بھری فریاد ہے چنانچہ شوریٰ کے سلسلے میں برملا فرماتے ہیں :’’تم جلد ہی دیکھ لو گے کہ اس دن کے بعد سے خلافت کے لۓ تلواریں سونت لی جائں گی...یہاں تک کہ کچھ لوگ گمراہ لوگوں کے پیشوا بن کے کھڑے ہوں گے اور کچھ جاہلوں کے پیروکار ہوجائں گے۔‘‘ (١١)

کبھی تند لہجے کا سہارا لے کر بیان فرماتے ہیں کہ ’’بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا ہے‘‘ (12) ------ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، غیض و غضب اس اوج پہ پہنچ جاتا ہے کہ امامت کی تیوریوں پر بل پڑ جاتا ہے اور فرماتے ہیں کہ ’’ بنی امیہ مجھے محمد کا ورثہ تھوڑا تھوڑا کرکے دیتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر میں زندہ رہا تو انہیں اس طرح جھاڑ پھینکوں گا جس طرح قصابی خاک آلود گوشت کے ٹکڑے سے مٹی جھاڑ دیتا ہے۔‘‘ (13)

ہر طریقے سے ہدایت کا گھیرا تنگ کرنے اور اتمام حجت کے بعد بھی دھمکیاں، احتجاجات، اعتراضات اور تہدیدات بارآور نہ ہوسکیں تب مولا نے دیکھا کہ یہ قوم ’’صم بکم عمی فہم لا یعقلون‘‘ (14)کی مجسم مصداق ہے۔ اسے صراط مستقیم پہ نہیں لایا جاسکتا۔ تب مولا نے سکوت، عزلت اور گوشہ نشینی کو اپنایا ہے۔

.... پھرسکوت جب مولاۓ کائنات اپنے تئیں اتمام حجت کرچکے تب کنارہ کشی اختیار کی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولا نے ہر چیز سے ہاتھ کھینچ لیا تھا بلکہ صرف اس خلافت اور جانشینی سے چشم پوشی کی تھی جو ان کا مسلم حق تھا۔(15) ورنہ اگر اسلام کو ضرورت پڑی ہے تو مولا نے کسی بھی کمک اور اعانت سے دریغ نہیں کیا ۔ چنانچہ اس سلسلے میں آپ کے وہ سیاسی اور حکومتی مشورے ملاحظہ کۓ جاسکتے ہیں جو آپ نے اپنے مخالفین کو دئے تھے لیکن وہ کیا علل و اسباب تھے جنکی وجہ سے مولاۓ کائنات نے 25/سال سکوت (بہ معنای عدم قیام) اختیار کر رکھا تھا۔ ملاحظہ فرمائں:

سکوت کے اسباب

١- وصیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 

مختلف علل و اسباب کے ساتھ ساتھ ایک اہم علت کہ جس نے امیرالمومنین کو قیام سے باز رکھا وہ ’’وصیت پیغمبر ‘‘ ہے جس کے متعلق خود صراحت سے فرماتے ہیں :’’مجھے قیام سے نہ بزدلی نے روکا ہے اور نہ موت کی ناپسندیدگی نے بلکہ اگر کسی چیز نے روکے رکھا تو وہ میرے بھائی (نبی خدا ) سے کیا ہوا عہد و پیمان تھا کہ جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر ساتھی ملیں تو قیام کرنا ورنہ ہاتھ روکے رکھنا‘‘۔(16) ایک اور جگہ پیغمبر اکرم ، مولاۓ کائنات کو خطاب کرکے فرماتے ہیں :’’اے علی !( اپنے بعد) میں تمہیں صبر کی تلقین کرتا ہوں‘‘۔ (17)

انہی وصیتوں کی طرف اشارہ کرکے مولاۓ کائنات فرماتے ہیں :’’میں نے اپنے حالات پر نظر کی تو دیکھا میرے لۓ ہرقسم کی بیعت سے اطاعت رسول مقدم تھی اور ان سے کۓ ہوۓ عہد و پیمان جو میری گردن میں تھے‘‘۔ (18)

یہی وصیتیں تھیں کہ جن میں مرسل اعظم(ص) نے فرمایا تھا کہ تمہارا سکوت اور تمہارا قیام دونوں اسلام کے لۓ ہونا چاہۓ۔ اگر حالات سازگار ہوں تو تلوار اٹھانا ورنہ اس اسلام کے حق میں خاموشی اختیار کرلینا، یہی بہتر ہے۔ (19)

٢- یاوروں اور حامیوں کی قلت اگر ہم تاریخ کے صفحات الٹ پلٹ کر دیکھیں تو یہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اکثر انبیاء و اولیاۓ الٰہی یاور و مددگار کم ہونے کی وجہ سے قیام نہیں کرتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے یہ مقولہ زبان زد عام و خاص ہے کہ جیسا کہ ’’الفرار مما لا یطاق من سنن المرسلین‘‘۔ (20)جناب نوح نے آواز دی :’’رب انی مغلوب فانتصر‘‘ (21) (بار الٰہا! { میں ان لوگوں کے مقابلے میں} کمزور ہوں اب تو ہی {ان سے } بدلہ لینا)۔

یہی نہیں اگر قرآن میں ہم ژرف نگری سے کام لیں تو ایسے بہت سے موارد ملیں گے کہ جہاں انبیاء و اوصیاۓ الٰہی نے یاور و مددگار کی کمی کی وجہ سے قیام نہیں کیا اور سب سے بڑھ کر خاتم المرسلین 13/سال مکہ میں رہے مگر صرف یاور و مددگار نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے کوئی قیام نہیں کیا اور خاموش رہے بلکہ جب معاشرے کی اذیتوں سے تنگ آگۓ تو ہجرت فرما لی۔ (٢٢)

مولاۓ کائنات نے بھی اسی سنت کو اپنا شیوہ بنایا تھا کہ قیام کرنا اسی وقت معقول اور بارآور ہوگا جب انسان اپنے ہدف اور مطمع نظر کی دستیابی میں کامیاب ہوسکے ورنہ قیام لایعنی ہوگا۔ اسی لۓ فرماتے ہیں کہ ’’کامیاب وہ ہے جو اٹھے تو پرو بال کے ساتھ اٹھے اور نہیں تو (اقتدار کی کرسی) دوسروں کے لۓ چھوڑ بیٹھے‘‘۔ (٢٣)

اسی لۓ جب مولاۓ کائنات سے اشعث بن قیس نے سوال کیا کہ آپ نے اپنا حق لینے میں تلوار کا سہارا کیوں نہیں لیا؟ تو فرمایا:’’ اے اشعث! دیکھو میرے سامنے چھہ انبیاء کے نمونے موجود ہیں؛ جناب نوح، لوط، ابراہیم، موسیٰ، ہارون اور پیغمبر اکرم صلوات اللہ علیہم اجمعین (24) کہ جنہوں نے صرف اسی لۓ قوم کی سرکشی اور طغیانیوں کے خلاف قیام نہیں کیا تھا کہ ان کے پاس ساتھیوں اور ناصروں کی کمی تھی ورنہ ہم بندگان خدا کو موت سے کوئی باک نہیں ہے کہ ہم موت کے خوف سے قیام سے گریز کریں بلکہ وجہ یہی تھی کہ میرے ساتھیوں کی تعداد کھانے میں نمک اور آنکھ میں سرمے کے برابر تھی۔ ‘‘(25)

اسی لۓ جب امام اتمام حجت کی غرض سے رات کی تاریکی میں انصار و مہاجرین کے گھر جاتے اور طلب کمک کرتے تو کوئ مدد کے لۓ حاضر نہیں ہوتا۔ معاویہ کے بقول ٤ یا ٥ سے زیادہ لوگ مدد کیلۓ آمادہ نہیں ہوۓ۔ (26) اب ایسے ناسازگار حالات میں مولا قیام کرتے تو کیسے کرتے!!!

یہ سچ ہے کہ موت سے کوئی باک نہیں ہے مگر دوسری طرف ہدف اور نتیجہ بھی تو منظور نظر تھا ورنہ خود فرماتے ہیں کہ ’’اگر مجھے 40 باوفا ساتھی مل جاتے تو میں حصول خلافت کے لۓ تلوار اٹھا لیتا‘‘(27) ’’مگر افسوس کہ آج میرے پاس جعفر و حمزہ جیسے یاور و مددگار نہیں ہیں‘‘۔(28)

میں قیام کرتا بھی تو کیسے کرتا ’’میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو مجھے اپنے اہلبیت کے علاوہ کوئ اپنا معین و مددگار نظر نہ آیا‘‘ (29)

’’ایسے میں کرتا تو کیا کرتا اگر قیام کرتا تو خطرہ تھا کہ مبادا اتنے کم افراد سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاۓ اس لۓ ’’میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے بخل کیا‘‘۔(30)

٣۔ پاکیزہ نسلوں کا خیال یہ الٰہی قانون ہے کہ ’’لوتزیّلوا لعذّبنا الذین کفروا منھم عذاباً الیماً ‘‘(31) اگر وہ (ایماندار کفار سے) الگ ہوجاتے تو ان میں جو لوگ کافر تھے ہم انہیں دردناک عذاب کی ضرور سزا دیتے یعنی وہ مومنین جو کافر آبائو اجداد کی صلب میں قرار دئے گۓ ہیں جب تک وہ مومنین کفار کی صلب سے نکل نہ جائں تب تک عذاب الٰہی رکا رہتا ہے اسی لۓ امام صادق فرماتے ہیں : ’’مومنین کی صلب میں جو کفار قرار دئے گۓ ہیں اور اسی طرح کفار کی صلب میں جو مومنین قرار دئے گۓ (یہ مومنین) اگر کفار سے الگ ہوجائں تب خدا کافرین پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘۔ (32)

یہ خدا کی حکمت ہے کہ یہاں موقع دیا جاتا ہے اور انتظار کیا جاتا ہے کہ عذاب جب نازل ہوتو اس کی زد میں صرف کفار اور منافقین ہی آئں اسی لۓ امام صادق سے جب سوال ہوا کہ امیرالمومنین نے قیام کیوں نہیں کیوں کیا۔ تو فرمایا :’’اس وقت خداوند متعال نے مومنوں کی صورت میں کچھ امانتیں کفار و منافقین کی صلبوں میں قرار دی تھیں کہ جب تک وہ امانتیں (مومنین) ان کی صلبوں سے خارج نہیں ہوجاتیں تب تک وہ بھلا کیسے تلوار اٹھاتے۔‘‘ (٣٣)

لہٰذا وہ علی جو حکمت و نظام الٰہی کا پالن ہار تھا بھلا کیسے حکمت و منشاۓ الٰہی کے برخلاف قدم اٹھاتا۔

٤۔ شیرازہ بکھرنے نہ پاۓ ’’میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا... یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلاۓ سرگین اور چارہ لے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بندو اٹھ کھڑے ہوۓ جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل ربیع کا چارہ چرتا ہے۔‘‘ (34)

اس اعتراف کے باوجود اس عظیم انسان کے سامنے وہ کون سی شئ تھی کہ جسکی وجہ سے مصحف ناطق خاموشی سے نظارہ خلق کرتا رہا جبکہ وہ خود احکام الٰہی کی انجام دہی اور بجاآوری میں اتنا پابند تھا کہ اس کے یہاں تھوڑی سی بھی چوک ناقابل تلافی ہوا کرتی تھی کہ ’’خدا کی قسم! میں مظلوم کا اس کے ظالم سے بدلہ لوں گا اور ظالم کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے سرچشمۂ حق تک کھینچ کر لے جائونگا اگر چہ اسے یہ ناگوار کیوں نہ گزرے‘‘۔ (35)

شریعت اسلامی اور حقوق عباد کی اتنی پابندی کرنے والا آخر خاموش کیوں تھا؟ وجہ کیا تھی؟ جی ہاں! وجہ صرف مسلمانوں کا اتحاد اور ان کی شیرازہ بندی تھی۔ مسلمانوں کی طاقت اور قدرت جو نئ نئ ساری دنیا پر عیاں ہوئی تھی وہ اسی اتحاد اور وحدت کلمہ کا نتیجہ تھی اور مسلمانوں نے بعد میں اسی وحد ت کلمہ کی بدولت حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ (36)

یہی وہ سب سے اہم علت تھی کہ جس کی وجہ سے فاتح خیبر و خندق نے سکوت اختیار کررکھا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں :’’...میں نے دیکھا کہ صبر کرنا اس عظیم مصیبت پر مسلمانوں میں اختلاف ڈالنے سے بہتر ہے‘‘۔ (37)

مولا کے عہد خلافت میں جب طلحہ و زبیر نے بیعت توڑدی اور داخلی فتنہ پردازی میں پڑگۓ تو آپ نے پیغمبر اکرم بعد اپنے موقف اور ان لوگوں کے موقف کے درمیان متعدد بار موازنہ کیا اور فرمایا:’’میں نے مسلمانوں کے اتحاد کے لۓ اپنے حق سے چشم پوشی کی ہے تاکہ اتحاد باقی رہے لیکن ان لوگوں نے پہلے خوشی سے بیعت کی اور بعد میں اپنی بیعت توڑ دی اور ان لوگوں نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھرنے کی پرواہ نہ کی۔‘‘ (38)

علی کی نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اگر میں قیام کرتا ہوں تو مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جائیگا اور ان کی وہ بندھی ہوئی مٹھی کھل جائیگی کہ جسکی وجہ سے اسلام آفاقی بنا تھا ’’ورنہ اگر خدا کی قسم! مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا خطرہ نہ ہوتا ...تو ہماری یہ حالت نہ ہوتی‘‘۔ (39)

اسی لۓ مولا نے ہر ممکنہ کوشش کی کہ امت میں وحدت کلمہ برقرار رہے۔ امت بکھرنے نہ پاۓ، چاہے اپنے حق سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔ لہٰذا آپ نے خون کے گھونٹ پی پی کر اپنے غاصبین خلافت کی مدد کی صرف اس وجہ سے کہ مسلمانوں میں اتحاد اور ایکا برقرار رہے۔ تبھی تو فرماتے ہیں :

’’اب میں ڈرا کہ اگر کوئ رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوۓ اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لۓ اس سے بڑھکر مصیبت ہوگی جتنی یہ مصیبت کہ تمہاری یہ حکومت میرے ہاتھ سے چلی جاۓ۔‘‘ (40)

اور یہی نہیں بلکہ ایسا صابر انسان، اتحاد مسلمین کو اتنا اہم اور ضروری سمجھتا ہے کہ وصیت کرتا ہے کہ اے لوگو! فتنہ و فساد کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کر اپنے کو نکال لے جائو۔ تفرقہ و انتشار کی راہوں سے اپنا رخ موڑ لو۔ (41) کیونکہ ’’سلامة الدین احب الینا من غیرہ‘‘(42) مجھے اسلام کی بقاء و دوام دوسری تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ومحبوب ہے۔

٥- امت مرتد نہ ہوجاۓ بعض آیات قرآنی اس بات کی ترجمانی کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرم اپنی امت کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے اور آپ کو یہ بات بار بار پریشان کرتی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امت میرے بعد میرے دین سے منحرف ہوجاۓ کیونکہ آپ اپنی زندگی میں بارہا یہ دیکھ چکے تھے کہ امت کو جہاں موقع ملتا تھا وہ جادئہ مستقیم سے پہلو تہی کرنے لگتی تھی چنانچہ جنگ احد میں دیکھ چکے تھے کہ جب کسی نے آپکی شہادت کی خبر اڑائی تو سب ادھر ادھر بھاگنے لگے اور منافقوں کے رئس عبداللہ بن ابیّ کے ذریعہ ابوسفیان سے امان نامہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔(43) اور خدا کے بارے میں ان لوگوں کا ایسا عقیدہ ہوگیا تھا کہ توبہ بھلی! چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :’’اور ایک گروہ جن کو اس وقت بھاگنے کی شرم سے جان کے لالے پڑے تھے خدا کے ساتھ (خواہ مخواہ) زمانۂ جاہلیت کی ایسی بدگمانیاں کرنے لگے (اور) کہنے لگے بھلا یہ امر (فتح) کچھ بھی ہمارے اختیار میں ہے‘‘۔ (٤٤)

یہی وہ اہم مسئلہ تھا جو بار بار پیغمبر اکرم کو کھاۓ جارہا تھا کہ مبادا امت میرے بعد ارتداد کا شکار ہوجاۓ۔ اسی لۓ جب مرسل اعظم کی شہادت کی خبر منتشر ہوئی تو وہ قبائل جو نۓ نۓ مسلمان ہوۓ تھے وہ دین اسلام سے منحرف ہوگۓ اور پرچم ارتداد بلند کرکے مالیات دےنے سے بھی انکار کردیا۔ (45)

ایسے نامساعد حالات میں مولا قیام کرتے تو کیسے کرتے جبکہ ان کا ہدف حصول سطوت و سلطنت نہیں بلکہ بقاء و دوام اسلام تھا لہٰذا مولا نے یہ دیکھا کہ اگر میں قیام کرتا ہوں تو لوگ مرتد ہوجائں گے کیونکہ لوگ ابھی نۓ نۓ مسلمان ہوۓ تھے اس لۓ تھوڑی سی بھی کوتاہی بساط اسلام سمیٹ دیگی۔(46)

چنانچہ صادق آل محمد سے جب کسی نے سوال کیا کہ امیرالمومنین نے کیوں قیام نہیں کیا تو فرمایا کہ :’’خوف تھا کہ کہیں لوگ کفر کی طرف پلٹ نہ جائیں‘‘۔ (47)

یا ایک اور مقام پہ فرماتے ہیں کہ ’’امیرالمومنین کو خوف یہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم مرتد ہوجاۓ اور مرسل اعظم کی شہادت (اذان سے) مٹ جاۓ‘‘۔ (48)

اسی ارتداد کا خوف مولاۓ کائنات کو بھی پریشان کررہا تھا جیسا کہ فرماتے ہیں کہ ’’اس بات کا خوف اگر نہیں ہوتا کہ لوگ کفر و بت پرستی کی طرف پھر سے پلٹ جائں گے تو ہماری یہ حالت نہ ہوتی‘‘۔ (49) یعنی پھر ایسی صورت میں یہ معاشرہ ’’مدینہ فاضلہ‘‘ کا عالیترین نمونہ ہوتا۔

اسی لۓ جب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا نے مولاۓ کائنات سے گلہ و شکوہ کیا کہ کیوں قیام نہیں کرتے؟ (اتنے میں مؤذن کی صدا بلند ہوگئ ’’اشہد ان محمداً رسول اللہ ‘‘) مولا نے پوچھا کہ اے بنت رسول! کیا آپ کو یہ گوارا ہے کہ آپ کے بابا کا نام دنیا سے مٹ جاۓ ۔ انہوں نے جواب دیا:’’ نہیں !‘‘ تو مولا نے کہاکہ اسی لۓ قیام نہیں کررہا ہوں۔ (50)

یہ وہ اہم مسئلہ تھا جو قیام امیرالمومنین میں سد راہ بن جاتا تھا اور آپ کے سامنے وہ بھیانک منظر آجاتا تھا کہ اگر میں نے قیام کردیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام پھر سے وہیں جاپہنچے جہاں سے مرسل اعظم نے شروع کیا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں :’’مگر ایک دم میرے سامنے یہ منظر آیا کہ لوگ فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لۓ دوڑے۔ ان حالات میں میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر حضرت محمدکے دین کو مٹا ڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔‘‘ (51)

٦- دشمنان خارجی کا خطرہ ظاہر سی بات ہے کہ جب مولاۓ کائنات قیام کرتے تو مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی۔ اب چاہے اس قیام میں مولا کے چاہنے والے شہید ہوتے یا ان کے مخالفین قتل ہوتے لیکن اس طرح مسلمانوں کی باہمی طاقت و قدرت کمزور ہوتی۔

دوسری طرف ہمیشہ دشمنان خارجی (بالخصوص ایران و روم) کے حملے کا خطرہ رہتا تھا اور اگر آپسی اختلاف اور مڈبھیڑ ہوتی تو ظاہر سی بات ہے کہ پھر دشمنان خارجی سے مقابلے میں کھڑے ہونے کی قدرت اور طاقت نہ رہتی۔ جبکہ مرکز اسلام کو ہمیشہ ایران اور روم کی جانب سے خطرہ رہا کرتا تھا بالخصوص اس صورت میں جبکہ اس وقت تک رومیوں سے ٣/بار مسلمانوں کا مقابلہ ہوچکا تھا۔ یہ ایک ایسا عظیم خطرہ تھا کہ جس سے پیغمبر اکرم آخر وقت تک فکرمند تھے۔ اسی لۓ آپ نے سپاہ ’’اسامہ بن زید‘‘ کو اس احتمالی خطرے کی روک تھام کے لۓ روانہ کیا تھا۔(52)

ایسی صورتحال میں اگر امیرالمومنین قیام کرتے تو کسی بھی صورت میں یہ قیام مطلوب نہیں ہوتا کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ جب مرکز اسلام کا داخلی محاذ کمزور ہوتا تو کسی بھی صورت میں خارجی محاذ کے دفاع کے لۓ ان کے پاس قدرت نہ ہوتی۔ شاید یہ بھی ایک اور اہم وجہ رہی ہو کہ جس کی وجہ سے مولاۓ کائنات نے قیام نہ کیا ہو۔ چنانچہ جن جنگوں کا خطرہ تھا وہ ہوکر رہیں کہ جس کے متعلق خلیفۂ دوم نے مولاۓ کائنات سے مشورے بھی لۓ جو اب بھی نہج البلاغہ میں خطبوں کی صورت میں موجود ہیں کہ جنکی تفصیل کے لۓ خطبات نمبر 132/ اور 144/ ملاحظہ کۓ جاسکتے ہیں۔

نتیجہ ’’اگر بولتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ دنیوی سلطنت پر مرمٹے ہیں اور چپ رہتا ہوں تو کہتے ہیں کہ موت سے ڈر گۓ ہیں‘‘۔(53) عجیب کشمکش ہے۔ ایک طرف امت کا خیال تو دوسری طرف اپنے حق اور الٰہی منصب کا۔ کریں تو کیا کریں۔ کیا واقعاً علی موت سے گھبراگۓ تھے؟ نہیں۔ ہرگز نہیں!

بازوئوں میں قوت و طاقت بھی تھی اور دل میں جوش و ولولہ بھی تھا مگر حضرت کی دوراندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ چاروں طرف زہریلی فضا محیط ہے، فتنۂ ارتداد سر اٹھا رہا ہے، نفاق سرگرم عمل ہے، شکست خوردہ یہود اور باجگزار نصاریٰ اس تاک میں لگے ہیںکہ مسلمانوںمیں پھوٹ پڑے اور اپنی شکست و ہزیمت کا بدلہ لیں۔(54)

شاید انہی اندیشوں کی طرف مولا اشارہ کرنا چاہتے تھے کہ ’’ایک علم پوشیدہ میرے سینے کی تہوں میں لپٹا ہوا ہے کہ اسے ظاہر کردوں تو تم اسی طرح پیچ و تاب کھانے لگو گے جس طرح گہرے کنووں میں رسیاں لرزتی اور تھرتھراتی ہیں‘‘۔ (55)

ایسی صورت میں جبکہ ان کا حق غصب کیا جارہا تھا اور دوسری طرف قیام کی صورت میں اسلام کو مختلف مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا۔ مولا کرتے تو کیا کرتے ’’سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوۓ ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کروں‘‘(56) کیونکہ اگر ایک طرف حق خلافت ہے تو دوسری طرف اسلام بھی تو ملحوظ خاطر ہے لہٰذا ’’مجھے اس اندھیرے پر صبر ہی قرین عقل نظر آتا۔ لہٰذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں(غبار اندوہ کی) خلش تھی اور حلق میں (غم و رنج کے) پھندے لگے ہوۓ تھے‘‘۔ (57)


صبر ہی قرین عقل اس لۓ تھا کہ کیونکہ آپ کا ہدف صرف اور صرف اسلام کی بقاء اور مسلمانوں کا اتحاد تھا کیونکہ خود ہی فرماتے ہیں :’’جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار ہے اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہیگی میں خاموشی اختیار کرتا رہوں گا‘‘۔ (58)

لہٰذا اسلام اور مسلمانوں کی خاطر ’’میں نے چشم پوشی کی جبکہ حلق میں پھندے تھے۔ مگر میں نے غم و غصے کے گھونٹ پی لۓ اور گلو گرفتگی کے باوجود حنظل سے زیادہ تلخ حالات پر صبر کیا‘‘۔(59)

حواله جات: ١۔ اعراف ١٥٠

٢۔ منہاج البراعہ ٩١٥٢، نہج الصباغہ ٤٣٦٧، شبہائے پيشاور ٨٣٧

٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٢

٤۔ايضاً ٥

٥۔ايضاًمکتوب ٤٥

٦۔ايضاً خطبہ ٢٤

٧۔شرح نہج البلاغہ، ابن ابي الحديد ١١٦

٨۔ فروغ ولايت ١٦١

٩۔نہج البلاغہ، خطبہ ٢

١٠۔ ايضاً ٣

١١۔ايضاً١٣٧ ١٢۔ ايضاً ٣

١٣۔ايضاً ٧٥

١٤۔سورئہ بقرہ ١٧١

١٥۔در مکتب اميرالمومنينٴ ١١٠

١٦۔ بحارالانوار ٢٩٤١٩، نہج الصباغہ ٥٢٦١

١٧۔ مفتاح السعادۃ ٣١٩، منہاج البراعہ ٣١٠٥، بحارالانوار ٢٩٤٢١

١٨۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٣٧

١٩۔ مفتاح السعادۃ، ٥٢٠٠

٢٠۔شبہائے پيشاور ٨٣٥

٢١۔ سورئہ قمر ١٠

٢٢۔منہاج البراعہ ٤١٥٧

٢٣۔نہج البلاغہ، خطبہ ٢٦

٢٤۔منہاج البراعہ ٤١٥٣، بحارالانوار ٢٩٤١٨

٢٥۔علي و زمامداران ١٥٧ بحوالہ احتجاج طبرسي ١١٨٧

٢٦۔ ايضاً

٢٧۔ منہاج البراعہ ٢٤٢٠، شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد ٢٢٢

٢٨۔ ايضا ٩١٥٢ و ١٤١٧٥، شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد ١١١١

٢٩۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٦

٣٠۔ايضاً ٣١۔سورئہ فتح ٢٥

٣٢۔شرح نہج البلاغہ مدرس وحيد ٩١٣٣، بحارالانوار٢٩٤٣٧

٣٣۔ بحارالانوار ٢٩٤٢٨، منہاج البراعہ ٤١٥٦

٣٤۔نہج البلاغہ، خطبہ٣

٣٥۔ايضاً١٣٤ ٣٦۔مطالعہ نہج البلاغہ ٢٠٦

٣٧۔ مصباح البلاغہ ١٢٦٨، نہج الصباغہ ٥٥٣، شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد ١٣٠٨

38۔ مطالعہ نہج البلاغہ 207

39۔ مصباح البلاغہ 2/641، نہج السعادة 1/271، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 1/307

40۔ نہج البلاغہ، مکتوب 62

41۔ ایضاً خطبہ 5

42۔فی رحاب نہج البلاغہ 122، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 6/21

43۔پژوہشی عمیق پیرامون زندگی امام علی علیہ السلام 212

44۔ سوره آل عمران 154

45۔فروغ ولایت 166

46۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 1/308، نہج الصباغہ5/53

47۔ بحارالانوار 29/445، نہج الصباغہ 4/416

48۔ایضاً 29/445

49۔ نہج الصباغہ 3/91، منہاج البراعہ /314

50۔ ایضاً 4/475، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 11/113

51۔ نہج البلاغہ، مکتوب 62

52۔ سیرہ پیشوایان 74

53۔ نہج البلاغہ،خطبہ 5

54۔ سیرت امیرالمومنین 1/358

55۔نہج البلاغہ، خطبہ 5

56۔ ایضاً 3

57۔ ایضاً

58۔ ایضاً 72

59۔ایضاً ، ایضاً 26۔ او راسی سے ملتا جلتا خطبہ 215

قرآن نھج البلاغہ کی نظر سے ترمیم

قرآن نہج اللاغہ کے آئينے ميں مؤلف محمدفولادي

(يہ مقالہ حضرت آية اللہ مصباح يزدي کي کتاب ”قرآن اورآئينہ نہج البلاغہ“ سے ايک انتخاب ہے)

الف : قرآن کريم کي اہميت وموقعيت :

۱۔ اس وقت فقط قرآن کريم ہي ايک آسماني کتاب ہے جوانسان کي دسترس ميں ہے۔

نہج البلاغہ ميں بيس سے زيادہ خطبات ہيں جن ميں قرآن مجيدکاتعارف اور اس کي اہميت وموقعيت بيان ہوئي ہے بعض اوقات آدھے سے زيادہ خطبے ميں قرآن کريم کي اہميت،مسلمانوں کي زندگي ميں اس کي موقعيت اوراس کے مقابل مسلمانوں کے فرائض بيان ہوئے ہيں۔ يہاں ہم صرف بعض جملوں کوتوضيح وتشريح پہ اکتفا کريں گے۔

اميرالمومنين(عليہ السلام) خطبہ ۱۳۳ميں ارشادفرماتے ہيں ”وکتاب اللہ بين اظہرکم ناطق لايعيي لسانہ“۔

ترجمہ : اوراللہ کي کتاب تمہاري دسترس ميں ہے جوقوت گويائي رکھتي ہے اور اس کي زبان گنگ نہيں ۔

قرآن آسماني کتابوں تورات وانجيل ووزبورکے برخلاف تمہاري دسترس ميں ہے۔ يہ بات توجہ طلب ہے کہ تورات گذشتہ امتوں امتوں خصوصا يہوداوربني اسرائيل کے عوام کے پاس نہ تھي بلکہ اس کے کچھ نسخے علمائے يہودکے پاس تھے يعني عامة الناس کے لئے تورات کي طرف رجوع کرنے کاامکان نہ تھا۔انجيل کے بارے ميں تووضيعت اس سے زيادہ پريشان کنندہ ہے کيونکہ وہ انجيل جوآج عيسائيوں کے پاس ہے يہ وہ انجيل نہيں جوحضرت عيسي عليہ السلام پرنازل ہوئي تھي بلکہ مختلف افرادکے جمع شدہ مطالب ہيں اور چار اناجيل کے طورپرمعروف ہيں۔ پس گذشتہ امتيں آسماني کتابوں تک دسترسي نہ رکھتي تھيں۔

ليکن قرآن کريم کوخداوندمتعال نے ايسے نازل فرمايااورپيغمبراسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسے انسانوں تک ايسے پہنچاياکہ آج لوگ بڑي آساني سے اسے سيکھ اورحفظ کرسکتے ہيں۔

اس آسماني کتاب کي ايک دوسري خصوصيت يہ ہے کہ خداوندمتعال نے امت مسلمہ پريہ احسان فرماياہے کہ اس کي حفاظت کي ذمہ داري خوداپنے ذمہ لي ہے کہ يہ کتاب ہرطرح کے انحراف يامقابلہ آرائي سے محفوظ رہے۔ خودآنحضرت (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے اس کے سيکھنے اوراس کي آيات کے حفظ کرنے کي مسلمانوں کواس قدرتاکيدفرمائي کہ بہت سارے مسلمان آپ کے زمانے ميں ہي حافظ قرآن تھے جوآيات تدريجانازل ہوتي تھيں توحضرت(ص) مسلمانوں کے لئے بيان فرماتے تھے اس طرح مسلمان ان کوحفظ کرتے،لکھتے،اوران کوآگے بيان کرتے۔ اس طريقے سے قرآن پوري دنياميں پھيلتاگيا۔ مولائے کائنات فرماتے ہيں : اللہ کي کتاب تمہارے درميان اورتمہارے اختيارميں ہے۔ ضرورت ہے کہ اس جملے ميں ہم زيادہ غورکريں ”ناطق لايعيي لسانہ“ يہ کتاب بولنے والي ہے اوراس کي زبان کبھي گنگ ياکندنہيں ہوئي۔ يہ بولنے سے خستگي کااحساس نہيں کرتي اورنہ کبھي اس ميں لکنت پيداہوئي ہے اس کے بعدآپ ارشادفرماتے ہيں ”وبيت لاتھدم ارکانہ وعزلاتھزم اعوانہ“ يہ ايساگھرہے جس کے ستون کبھي منہدم ہونے والے نہيں ہيں اورايسي عزت وسربلندي ہے جس کے يار و انصار کبھي شکست نہيں کھاتے۔

۲۔ يہ کتاب ناطق بھي ہے اورصامت بھي۔

حضرت (ع) ايک طرف توفرماتے ہيں کہ يہ کتاب ناطق ہے جب کہ دوسرے مقام پر فرماتے ہيں يہ کتاب صامت ہے ناطق نہيں اس کوبولنے پہ آمادہ کرناچاہئے اوريہ ميں ہوں جو قرآن کوتمہارے لئے بيان کرتاہوں۔ خطبہ ۱۴۷ميں يہ تعبير استعمال ہوئي ہے ”صامت ناطق“ يعني قرآن ساکت وخاموش ہے درآن حاليکہ ناطق وگفتگوکرنے والاہے پس اس کا کيا معني ہوا؟

غالباقرآن حکيم کے بارے ميں يہ دونکتہ نظرہيں۔ ايک يہ کہ قرآن ايک مقدس کتاب ہے ليکن خاموش، گوشہ نشين ،جس کاکسي سے کوئي رابطہ نہيں اورنہ ہي يہ کتاب کسي سے ہم کلام ہوتي ہے۔ اس کے مقابل دوسرازاويہ نگاہ ہے جس کے مطابق يہ کتاب ناطق وگوياہے جوسب انسانوں سے مخاطب ہے اوراپني پيروي واتباع کاحکم ديتي ہے اپنے ماننے والوں کوخوشبختي اورسعادت کاپيغام ديتي ہے۔

پس اگراس کتاب کوہم فقط مقدس تصورکريں تواس کامطلب يہ ہے کہ ايک ايسي کتاب ہے جس کے کلمات،جملے اورآيات صفحہ قرطاس پرنقش باندھے ہوئے ہيں جن کا مسلمان بہت احترام کرتے ہيں۔ ا سکوبوسے ديتے ہيں اورگھرميں انتہائي بہترين جگہ پر اس کورکھتے ہيں۔ بعض اوقات اپني مجالس ومحافل ميں اس کي حقيقت ومعاني پر غور و فکرتامل کئے بغيرتلاوت کرتے ہيں ايک ايسي خاموش کتاب ہے جوکسي محسوس و ملموس آوازسے گفتگونہيں کرتي جواس نظرئيے کاقائل ہے وہ ہرگزقرآن کريم سے ہم کلام نہيں ہوسکتا،قرآن کي آوازکونہيں سن سکتااورقرآن مجيدبھي اس کي کسي مشکل کوحل نہيں فرماتا۔

بنابراين ہمارافريضہ ہے کہ ہم قرآن کوکي کتاب سمجھيں اورخداوندعالم کے حضور انتہائي خشوع وخضوع اورجذبہ تسليم ورضاکے ساتھ اس کتاب سے کلام سننے کے لئے اپنے آپ کوآمادہ کريں۔ يہ کتاب سراسرآئين زندگي ہے۔ اس صورت ميں يہ کتاب ناطق بھي ہے قوت گويائي بھي رکھتي ہے انسانوں سے ہم کلام بھي ہوتي ہے اورزندگي کے تمام شعبوں ميں رہنمائي بھي کرتي ہے۔

ان دونکتہ ہائے نظرکے علاوہ قرآن کے صامت وناطق ہونے کاايک تيسرامعني بھي ہے جواس سے زيادہ گہرااورعميق ہے اورحضرت کامنظورنظربھي يہي معني ہے وہ معني يہ ہے کہ قرآن ساکت وصامت ہے اس کوگفتگوپہ آمادہ کرناچاہئے اوريہ ميں ہوں جو قرآن کوتمہارے لئے بيان کرتاہوں گويااکرچہ قرآن کريم خداوندمتعال کاکلام ہے اوراس کلام الہي کے صدورنزول کي حقيقيت اس طرح ہے کہ ہم انسانوں کے لئے قابل شناخت نہيں جبکہ دوسري طرف نزول قرآن کاہدف انسانوں کي ہدايت ہے تويہ کلام کلمات، جملوں اورآيات کي صورت ميں اس طرح سے نازل ہواکہ بشرکے لئے پڑھنے اورسننے کے قابل ہوجائے اس کے باوجودايسانہيں ہے کہ تمام ترآيات کے مضامين ومفاہيم عام انسانوں کے لئے قابل فہم ہوں۔ پس لوگ بھي پيغمبراسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم)، آئمہ ہدي،(عليہم السلام) اورراسخون في العلم کي تفسيروتشريح کے بغيرآيات کے مقاصدکونہيں پاسکتے۔

۳۔ مفسرين وحي الہي کي ضرورت :

پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي ايک ذمہ داري امت مسلمہ کے لئے آيات الہي کي تفسيروتشريح ہے جيساکہ ارشادہوتاہے :

”وانزلنااليک الذکرلتبين للناس مانزل اليہم“نحل۴۴۔

ترجمہ : ہم نے آپ کي طرف قرآن نازل کياتاکہ آپ لوگوں کے لئے جوکچھ نازل ہواہے بيان کريں۔ پس قرآن کريم کے عظيم معارف کے بيان کي ذمہ داري پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پرہے کيونکہ اس کے معارف ا س قدرعميق اورگہرے ہيں کہ تمام لوگ اس کاادارک نہيں کرسکتے۔

حضرت خطبہ ۱۵۸ميں ارشادفرماتے ہيں :

”ذلک القرآن فاستنطقوہ ولن ينطق ولکن اخبرکم عنہ الاان فيہ علم ماياتي والحديث عن الماضي ودواء دائکم ونظم مابينکم“۔

ترجمہ : اس قرآن سے چاہوکہ تم سے کلام کرے اوريہ ہرگزتم سے ہم کلام نہيں ہوگا ليکن ميں تمہيں اس سے آگاہ کروں گايادرکھويقينااس ميں مستقبل کے علوم اور ماضي کے حالات ہيں اورتمہاري امراض کي دواہے اورجوکچھ تمہارے مابين ہے اس کے بارے ميں نظم وضبط کي راہنمائي پائي جاتي ہے۔

پس معصومين (عليہم السلام) کي زبان مبارک سے اس کے بارے ميں آشنائي حاصل کرني چاہئے۔ علوم قرآن کوان سے حاصل کرناچاہئے۔ قرآن کريم الہي معارف کاسمندرہے اس بحربيکراں ميں غوطہ زني اورانسان سازي کے ناياب گوہروں کي تلاش کرناان ہستيوں کے بس کي بات ہے جوعالم غيب سے دائمي طورپرپرارتباط ميں ہيں۔ خداوند قدوس نے بھي يہي چاہاہے کہ ان ہستيوں سے رابطہ اورتوسل کے ذريعہ اوران کي راہنمائي کے توسط سے قرآني علوم ومعارف سے راہنمائي حاصل کرو۔

ب : قرآن کريم کامعاشرتي زندگي ميں اہم کردار:

۱۔ قرآن کريم ہر درد کي دواہے :

حضرت تمام مشکلات کے حل کے لئے قرآن کريم کاتعارف فرماتے ہيں۔ قرآن ہي وہ شفابخش دواہے جوتمام دردوں کادرمان اورپريشانيوں کے لئے مرحم ہے۔ البتہ يہ واضح ہے کہ دردکي شناخت اوراحساس کے بغيرعلاج يادرمان کي بات کرنابے فائدہ ہے ۔ پس ابتدائي طورپرضروري ہے کہ قرآن کريم کي آيات ميں گہرے غوروفکرکے ساتھ انفرادي اورمعاشرتي دردوں کي شناخت اورمطالعہ کياجائے اسکے بعد اس شفابخش نسخہ کيمياپہ عمل کياجائے۔

خطبہ ۱۹۸۔ ميں فرماتے ہيں : ”ودواء ليس بعدہ داء“ يعني قرآن مجيدايسي دواہے کہ جس کے بعدکوئي درد،رہ نہيں جاتايہ دوابھي يقينااس وقت اپنااثر دکھائے گي جب حضرت (ع) کے اس فرمان اورقرآن حکيم کے شفابخش ہونے پرايمان ہوباالفاظ ديگرہميں اپنے پورے وجودکے ساتھ باورکرناچاہئے کہ ہماراتمام تر انفرادي واجتماعي دردوں اورمشکلات کاحقيقي علاج قرآن حکيم ميں ہے۔ شايدہمارے معاشرے کي سب سے بڑي مشکل يہي ايمان کي کمزوري ہے کہ ابھي تک بہت ساري مشکلات باقي ہيں۔

۲۔ معاشرتي مشکلات کابہترين حل :

اس سلسلے ميں حضرت(ع) پيغمبرگرامي اسلام کاقول نقل فرماتے ہيں کہ آ پنے فرمايا: ”اذاالتبست عليکم الفتن کقطع الليل المظلم فعليکم بالقرآن“ (بحارالانوار ج۹۲ص<۱۷)۔

ترجمہ : جب کبھي سياہ رات کي مانندتمہيں فتنے گھيرليں توقرآن کادامن تھامنا۔

پس اضطراب،پريشان،مشکلات،ناہم آہنگياں اوربے سروسامانياں تمہارے معاشرے پرجب سياہ رات کي مانندسايہ افگن ہوں توان کے حل کے لئے کہيں اورنہ جانابلکہ قرآن سے رجوع کرنااس کي نجات بخش راہنمائي کومعياروکسوٹي قراردينا۔ قرآن کے اميد بخش فرامين مشکلات پرقابوپاتے اوردلوں ميں خوشبختي وسعادت کي اميدکوزندہ کرتے ہيں۔ البتہ يہ واضح ہے کہ ہرکاميابي کے پيچھے انساني کوشش اورجدوجہدکابنيادي کردارہے۔ پس اگرہم چاہتے ہيں کہ اپني آزادي اوراستقلال کي حفاظت کريں اورخدائے ذوالجلال کے سايہ رحمت وپناہ ميں ہرسازش سے محفوظ رہيں توچارہ ہي نہيں کہ اپنے خالق اورقرآن کريم کے نجات بخش احکام کي طرف لوٹ جائيں اس سلسلے ميں آج تک جس ناشکري اوربي احترامي کے مرتکب ہوئے ہيں اس پہ توبہ وندامت کي راہ ليں۔

۳۔ معاشرتي امورميں نظم وضبط :

حضرت فرماتے ہيں: نظم مابينکم“ يعني مسلمانوں کے مابين روابط اورنظم و ضبط کوسروساماني بخشنے والا قرآن حکيم ہے ہرسياسي نظم وضبط ميں بڑاہدف معاشرتي نظم وضبط اورامن وامان کاقائم کرناہوتاہے اوريہ بات قطعا قابل انکارنہيں ہے۔ البتہ سماجي ومعاشرتي زندگي ميں ہدف کي اہميت بھي اساسي ہے کيونکہ يہي ہدف ہے جوخاص طرح کے اعمال وکردارکاتقاضاکرتاہے۔ ہرمعاشرے کے افراداپنے اعمال وکردارسے اسي ہدف کوپاناچاہتے ہيں۔يہ امربھي نہايت روشن ہے کہ ہدف کاسرچشمہ اس معاشرے کے تمدن،ثقافت،تاريخ اورلوگوں کے عقائدہوتے ہيں۔ يہي سبب ہے کہ استعماري قوتيں ملتوں کے اصلي اورحقيقي ثقافت وتمدن کوچھين کر يا کھوکھلا کرکے ان کواپنے اہداف واغراض اورمفادات کي طرف دھکيل ديتي ہيں۔

ديني ثقافت ياتمدن کاسرچشمہ قرآن حکيم اورتوحيدي نظريہ کائنات ہے يہ تمدن ايک ايسے نظم اورسياست کاتقاضاکرتاہے جس ميں خلقت کے ہدف کاحصول اورانسان کي دنياوآخرت ميں سعادت وخوشبختي کارفرماہو۔

باعث افسوس ہے کہ بعض مغرب زدہ روشن فکرمسلمان معاشرتي نظم کوفقط مغربي جمہوريت ميں ديکھتے ہيں جب کہ اس کي بنيادلادينيت کاعقيدہ ہے۔ پس ديني اور قرآني تمدن ميں انسان کي نہ فقط مادي رفاہ اورفلاح شامل بلکہ اخروي سعادت و تکامل بھي موردتوجہ واہميت ہے اس امرکي طرف توجہ بہت ضروري ہے کہ قرآن کريم اس صورت ميں شفابخش ہے جب اس کي ہدايت اورفرامين کومحض اخلاقي نصيحتيں تصور نہ کياجائے بلکہ تمام ترمعاشرے اورحکومت کي کلي سياست، عمل اورپروگراموں ميں قرآن کريم کي ہدايات کونافذالعمل کياجائے۔

۴۔ قرآن کريم سے وابستگي بے نيازي کاباعث ہے۔

اسي خطبے ميں حضرت(ع) ارشادفرماتے ہيں: ”يقين کروقرآن ايسانصيحت کرنے والا اورموعظہ کرنے والاہے جواپنے پيروکاروں سے خيانت نہيں کرتا ايساہادي ہے جوگمراہ نہيں کرتاايساکلام کرنے والاہے جوجھوٹ نہيں بولتااورجوکوئي بھي قرآن کاہم نشين ہو اور اس ميں تدبروتفکرکرے توجب اٹھے گاتواس کي ہدايت وسعادت ميں اضافہ ہوجب کہ کہ اسکي گمراہي ميں کمي واقع ہوگي“۔

اس کے بعدارشادفرماتے ہيں :

”واعملواانہ ليس علي احدبعدالقرآن من فاقة ولالاحدقبل القرآن من غني فاستشفوہ من ادوائکم واستعينوابہ علي لاوائکم فان فيہ شفاء من اکبرالداء وہوالکفروالنفاق والغي والضلال“۔

ترجمہ : يقين کے ساتھ جان لوکہ کوئي بھي قرآن کے بعد فاقہ کشي نہيں اور اس سے قبل کوئي بھي غني نہيں پس اپنے امراض کي شفااس سے طلب کرو اور اپنے ٹھکانوں اورپناہ گاہوں کے لئے اس سے مددطلب کروپس يقينااس ميں سب سے بڑے امراض کي شفاہے اوروہ کفر،نفاق،جہالت،اورضلالت وگمراہي ہے۔ معاشرے ميں قرآن کي حاکميت کے ہوتے ہوئے انسان کي کوئي ايسي ضرورت نہيں جوپوري نہ ہو کيونکہ خداوندمتعال نے توحيدپرستوں کي دنياوآخرت ميں سعادت کي ضمانت دي ہے۔ پس قرآن کونمونہ عمل قراردينے سے اسلامي معاشرہ ہرچيزاورہرکس وناکس سے بے نيازہوجائے گا۔

اس کے ساتھ ہي ساتھ حضرت(ع) ايک سنجيدہ مطلب کي طرف اشارہ فرماتے ہيں: ”ولالاحدقبل القران من غني“ يعني کوئي بھي قرآن کے بغيربے نيازنہيں ہوسکتا۔ مطلب يہ ہے کہ اگرانسان کے علوم وتجربے ميں جتنابھي اضافہ ہوجائے معاشرتي مشکلات اورکمياں دورکرنے کے جتنے بھي فارمولے تيارکرلے، عدل وانصاف کے تقاضوں کوجتنابھي پوراکرلے اوراخلاقي وانساني اقدارکورائج کرے ليکن قرآن کے بغيران امورسے عہدہ برآنہيں ہوسکتايعني يہ کہ انسان قرآن سے بے نيازنہيں ہوسکتاہرعاقل اس کااقرارکرتاہے کہ انسان کي تمام ترعلمي ترقي اس کے مجہولات کے سمندرکے مقابلے ميں قطرے سے زيادہ نہيں۔

۵۔ قرآن کريم آفتاب کي طرح عالمتاب ہے :

خطبہ ۱۹۸ميں اسلام اورپيغمبراسلام(ص) کے اوصاف بيان فرمانے کے بعدفرماتے ہيں :

”ثم انزل عليہ الکتاب نورالاتطفاء مصابيہ وسراجالايخبوتوقدہ وبحرالايدرک قعرہ“

ترجمہ : پروردگارنے قرآن کواس صورت ميں اپنے حبيب پرنازل فرماياکہ يہ ايک نورہے جس کے چراغ ہرگزبجھنے والے نہيں،ايساآفتاب ہے جس کي روشني کبھي ختم ہونے والي نہيں اورايک ايساگہراسمندرجس کي گہرائي کوکوئي پانہيں سکتا۔

اس خطبے ميں قرآن کريم کے لئے آپ نے تين تشبيہات استعمال فرمائي ہيں سب سے پہلے توقرآن کي عظمت سے مسلمانوں کے قلوب کوآشنافرماتے ہيں پھراس عظيم سرمايہ الہي کي طرف متوجہ فرماتے ہيں جومسلمانوں کے پاس ہے فرماتے ہيں درحاليکہ قرآن نورہے اللہ تعالي نے پيغمبر(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم)پرنازل فرماياليکن يہ نور باقي انوارسے مختلف ہے اس خصوصيت کے ساتھ کہ اس کے نورپھيلانے والے چراغ ہرگزنہ بجھيں گے۔ اس کي تابش کبھي ختم نہ ہوگي جوانسانوں کو،انساني سماج، سعادت کے متلاشيوں کوخوشبختي کے راہيوں کومنحرف راستوں،سقوط ہولناک دروں سے نجات دلائے گي۔ پس راہ حق ہميشہ کے لئے مستقيم اورروشن ہے ۔ ايک اورمقام پر حضرت ارشادفرماتے ہيں کہ تاريکي اس کے مقابلے ميں ٹہرنہيں سکتي کيونکہ اس کے چراغ ہميشہ راہ سعادت وہدايت کوروشن رکھتے ہيں يہ چراغ اورمفسران وحي الہي آئمہ اطہار(عليہم السلام) ہيں۔

۶۔ قرآني آئينے اورچراغ :

حديث ثقلين کي روشني ميں ”قرآن اورعترت“ ايسے دوالہي عطيے ہيں جوايک دوسرے کي تکميل کرنے والے ہيں۔

حکمت وروش الہي اس طرح قرارپائي ہے کہ لوگ اہل بيت(عليہم السلام) کے ذريعہ سے معارف قرآن سے آشناہوں۔ بنابراين اللہ تعالي نے طالبان سعادت کے لئے امامت کاايک دائمي راستہ مقررفرمايا۔ قرآني معارف اس قدرگہرے وسيع وعميق ہيں انسان جس قدراہل بيت(ع) کے علوم ميں تفکروتدبر کرے اتناہي قرآن کي عظمت اورمعرفت وعرفان کے چشمے پھوٹنے شروع ہوجاتے ہيں۔

توحيد کے اس بحرزخارسے جتناپيتے جائيں توسيراب ہونے کي بجائے انسان تشنہ ترہوتاجاتاہے۔

۷۔ قرآن کريم کے پيروکارکے لئے اصلاح وسعادت :

يہ زندگي چونکہ آخرت کي کھيتي ہے۔ لہذاانسان کاتمام ہم وغم آخرت کي سعادت ہوناچاہئے۔ بس اگرانسان اپنے اعمال وکردارکوقرآن کريم اوراہل بيت عليہم السلام کے معارف وعلوم کے مطابق بنائے تودنياوآخرت کي عزت سربلندي حاصل کر سکتاہے۔

امام عليہ السلام خطبہ ۱۷۶ميں ارشادفرماتے ہيں :

”فاسالوااللہ بہ وتوجھوااليہ بحبہ ولاتسالوابہ خلقہ انہ ماتوجہ العبادالي اللہ بمثلہ واعلمواانہ شافع مشفع وقائل مصدق وانہ من شفع لہ القرآن يوم القيامةشفع فيہ ومن محل بہ القرآن يوم القيامة صدق عليہ“۔

ترجمہ : اللہ تعالي سے قرآن کے ذريعے سوال کرواورپروردگارکي طرف اس کي محبت کے ذريعے سے متوجہ ہوجاؤاورمخلوق خداسے مانگنے کے لئے قرآن کوذريعہ قرار نہ دوکيونکہ انسان بھي اپنے اورخداکے مابين قرآن جيساواسطہ نہيں رکھتے۔يقين کے ساتھ جان لوکہ قرآن ايساشفاعت کرنے والاہے جس کي شفاعت قبول شدہ ہے يہ ايسابولنے والاہے جس کي تصديق کي جاتي ہے۔ قيامت کے دن جس کي شفاعت قرآن نے کي تويہ شفاعت اس کے حق ميں قبول کي جائے گي اورقيامت کے دن جس کي مذمت قرآن نے کي تومعاملہ اس کے نقصان ميں ہوگا۔

۸۔ قرآن خيرخواہ اورنصيحت کرنے والاہے :

امام عليہ السلام فرماتے ہيں :

”فکونوامن حرثتہ واتباعہ واستدلوہ علي ربکم“۔

لوگو! قرآن کے جمع کرنے والوں اورپيروکاروں ميں سے ہوجاؤاوراس کواپنے پروردگارکے لئے دليل قراردو۔

اللہ کواس کے کلام سے پہچانو۔ پروردگارکے اوصاف کوقرآن کے ذريعے پہچانوقرآن ايسا راہنما ہے جوتمہيں اللہ کي طرف راہنمائي کرتاہے۔

اس راہنمائي کے ذريعے اس کے بھيجنے ہوئے رسول کي معرفت حاصل کرواوراس اللہ پرايمان لے آؤجس کاتعارف قرآن کرتاہے۔

”واستنصحواعلي انفسکم“

قرآن کواپناناصح قراردواوراس کي خيرخواہانہ نصيحتوں پرعمل کروکيونکہ تم انسان ايک دل سوز،خيرخواہ کے محتاج ہوجوتمہيں ضروري مقامات پرنصيحت کرے۔ پس قرآن وہ پرسوزدل سوزناصح ہے جوتم سے کبھي خيانت نہيں کرتااورتمہيں انتہائي بہترين انداز سے صراط مستقيم کي ہدايت کرتاہے۔

”ان ھذاالقرآن يھدللتي ہي اقوم ويبشرالمومنين الذين يعملون الصالحات ان لھم اجراکبيرا“۔

ترجمہ:بے شک يہ قرآن تمہيں انتہائي مستحکم وپائيدارراستے کي طرف راہنمائي کرتاہے اورجومومنين اعمال صالح بجالاتے ہيں ان کوبشارت ديدوکہ ان کے لئے يقينا بہت بڑا اجرہے۔

يہاں سب سے اہم نکتہ اس آية مبارکہ کے مضمون پرقلبي اعتقادہے کيونکہ جب تک انسان يہ عقيدہ نہ رکھتاہو،اپنے آپ کومکمل طورپرخداکے حوالے نہ کردے اور خود کو خواہشات نفساني سے پاک نہ کرے توہروقت يہ خطرہ موجودہے کہ شيطاني وسوسوں کا شکارہوجائے۔ قرآن کريم کاکوئي بھي حکم انساني حيواني ونفساني خواہشات سے سازگارنہيں ہے جوشخص اپني ہي خواہشات کومدنظررکھتاہے اس کي خواہش ہوتي ہے کہ قرآن بھي اس کے رجحانات،خواہشات کے مطابق کلام کرے اورجيسے ہي کوئي آيت اس کي خواہشات وترغيبات کے مطابق نظرآئے تواس کابھرپوراستقبال کرتاہے پس عقل کاتقاضاہے کہ انسان خالي الذہن اورخالي دامن ہوکرفقط عشق الہي کاجذبہ لے کرقرآن کي بارگاہ ميں حاضري دے۔

ج : قرآن کريم کي شناخت اس کے مخالفين کي شناخت ميں مضمرہے :

گذشتہ گفتگوکي روشني ميں يہ سوال اٹھتاہے کہ کياقرآن کريم سے استفادہ کاطريقہ کاريہي ہے کہ ہم فقط مذکورہ بالافرامين برعمل کريں؟

اس سوال کے جواب ميں اگرہم قرآن مجيدکووسيع نظرسے ديکھيں تواس کے مقابلے ميں منحرف افکارنظرآئيں گے۔ ان منحرف افکارنے ہميشہ سے انسان کوگمراہي اورباطل کي طرف دھکيلاہے۔ پس قرآني تمدن کونافذکرنے اورمعاشرے ميں ديني عقائد و اقدار کو رائج کرنے کے لئے ضروري ہے کہ مخالفين قرآن کے افکاراوران کي سازشوں سے معرفت حاصل کي جائے جب کہ يہ نکتہ غالباغفلت کاباعث ہوجاتاہے حق وباطل چونکہ ہميشہ ايک دوسرے کے بالمقابل رہے ہيں لہذاہميں حق کي شناخت ومعرفت کے ساتھ ساتھ باطل کي بھي پہچان کرني چاہئے اس چيزکے پيش نظرامام (ع)فرماتے ہيں:

”واعلمواانکم لن تعرفواالرشدحتي تعرفواالذي ترکہ ولن تاخذواميثاق الکتاب حتي تعرفواالذي نقضہ“۔

ترجمہ : يقين کے ساتھ جان لوکہ تم راہ ہدايت کوہرگزنہيں پہچان سکتے جب تک تم اس کونہ پہچانوجس نے ہدايت کوترک کردياہے اورتم ہرگزپيمان الہي(قرآن) پہ عمل پيرانہيں ہوسکتے جب تک تم پيمان شکن عہدشکن کونہ پہچان لو۔

يعني يہ کہ تم قرآن کے حقيقي پيروکاراس وقت تک نہيں بن سکتے جب تک تم قرآن کي طرف پشت کرنے والوں کي معرفت حاصل نہ کرلو۔ حضرت(ع) کے اس فرمان ميں بڑے واضح طورپردشمن شناسي پرزوردياگياہے۔ اس سے علمائے علم دين کافريضہ بہت زيادہ سنجيدہ ہوجاتاہے بالخصوص ايسے حالات ميں جب کہ انحرافي افکار اور ملحدين کے شبہات اعوام خصوصانوجوانوں کوانحرافات کاشکارکررہے۔

حضرت امام علي کي پيشين گوئي اورتنبيہ

اگرچہ حضرت کاموردخطاب عامة الناس ہيں ليکن بہت سارے مواردميں معاشرے کے خاص افرادياخاص گرہوں کوموردخطاب قرارديتے ہيں کيونکہ يہي لوگ ہيں جومعاشرے کي تہذيب وثقافت پراثراندازہوتے ہيں۔ وہ لوگ ہيں جواپنے دنياوي اہداف واغراض کي خاطرخدااوراس کے رسول کي طرف جھوٹ اوردروغ گوئي کي نسبت ديتے ہيں۔ قرآن اوردين کي تفسيربالرائے کرتے ہيں اورلوگوں کوگمراہي کي طرف کھينچتے ہيں۔

عوام کے بارے فرماتے ہيں: ا س زمانے کے لوگ بھي ايسے ہي ہيں اگرقرآن کريم کي صحيح وحقيقي تفسيروتشريح ہوتوان کے نزديک سب سے زيادہ بے قيمت چيزہے ليکن اگران کي نفساني خواہشات کے مطابق ہوتوايسي تفسيرکے دلدادہ ہيں۔ ايسے زمانے ميں شہروں ميں ديني والہي اورغيرديني اقداران کے لئے محبوب ہوں گي اس خطبے کے آخرميں ارشادفرماتے ہيں:

”فاجتمع القوم علي الفرقة وافترقواعن الجماعة کانہم آئمة الکتاب وليس الکتاب امامہم“۔

ترجمہ:اس زمانے کے لوگوں نے افتراق واختلاف پراجتماع کرلياہے انہوں نے جماعت سے عليحدگي اختيارکرلي ہے يہ لوگ ايسے ہيں جيسے قرآن کے امام ورہبريہ ہوں جب کہ قرآن ان کاامام نہں ہے۔

گويا امام(عليہ السلام) کي مراديہ ہے کہ انہوں نے اجتماع کرلياہے کہ قرآن کريم کہ حقيقي مفسرپيداہي نہ ہوں يہ لوگ عالم نماجاہلوں کي پيروي کرتے ہيں جو خود کو قرآن کارہبرجانتے ہيں اورقرآن کي اپني خواہشات نفساني کے مطابق تفسيرکرتے ہيں انہوں نے حقيقي مسلمانوں ،علماء اورمفسرين سے جدائي اختيارکرلي ہے۔ يہ لوگ عملا قرآن کواپنارہبرنہيں مانتے بلکہ خودا سکے رہبرہيں۔