تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی

بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کی 42 رکنی شورٰی نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کو بیت اللہ محسود کی جگہ تحریکِ طالبان پاکستان کا نیا امیر مقرر کیا۔ ساتھ ہی شوری نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اعظم طارق کو تحریک کا مرکزی ترجمان مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ حکیم اللہ محسود کا امیر مقرر ہونا دوسرے گروپوں کے طالبان رہنماء مولوی نذیر اور حافظ گل بہادر نے بھی قبول کیا۔[1] اس کے بعد حال ہی میں پاکستان میں تحریک طالبان کے مختلف گروہوں نے اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔۔[2] پاکستانی پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک سعودی خیراتی ادارہ الحرمین فاؤنڈیشن نے تحریک طالبان کو 15 ملین امریکی ڈالر دیے ہیں جسے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جائے گا اور پنجاب کے کئی شہروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان کے حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھی جیش محمد اور لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر پنجاب میں اہم علاقوں پر حملہ کریں گے اور دہشت گردی کا ارتکاب کریں گے۔۔[3][4]: اوائل 2009ء میں طالبان نے پنجاب میں مختلف متشدد مذہبی گروہوں پر مشتمل مسلم یونائیٹڈ آرمی بنائی جس میں پاکستان بھر کی عسکریت پسند تنظیمیں شامل ہیں جیسے لشکر جھنگوی‘ تحریک نفاذ شریعت محمدی مولوی فضل گروپ ،۔ حزب مجاہدین‘ جیش محمد‘ خدام اسلام‘ رحمت ویلفیئر ٹرسٹ مسعود اظہر گروپ‘ تحریک طالبان پنجاب‘ حرکت الجہاد اسلامی‘ الیاس کشمیری گروپ۔ انھوں نے نفاذ شریعت سے متعلق چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کیا ہے۔ جس کے لیے یہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کریں گی۔ محکمہ داخلہ پنجاب کو وزارت داخلہ کی بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ قاری نعیم آف بہاولپور‘ قاری عمران ملتان‘ عصمت اللہ خانیوال اور رانا افضل خانیوال کے علاوہ درہ آدم خیل میں کمانڈ ہیڈ آفس سے ان کے رابطے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ تنظیمیں اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانوں‘ وزیر اعظم‘ وفاقی اداروں‘ راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور حساس اداروں کے دفاتر کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ رپورٹ میں لاہور کو دہشت گردی کے خطرے کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ یہاں ہونے والے دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کو میڈیا کوریج زیادہ ملتی ہے۔[5]

القاعدہ کے نائب سربراہ ایمن الزواہری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔[6]

طالبان سے منسوب واقعات ترمیم

26 اگست 2009ء کو جنوبی وزیرستان میں محسود قبائل کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں کم سے کم چار سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ حملہ کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی۔۔[7] 27 اگست 2009ء کو خاصہ دار فورس پر ہونے والے ایک مبینہ خودکش حملے میں 26 اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔۔[8] 30 اگست 2009ء کو ایک مبینہ خود کش حملہ آور نے مینگورہ شہر کے پولیس ٹریننگ سینٹر میں خود کو دھماکے سے اڑا کر سکیورٹی کے پندرہ زیر تربیت اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔[9] 18 ستمبر 2009ء کو کوہاٹ میں ایک کار کے ذریعے خود کش بم دھماکا ہوا جس میں چھیالیس عام شہری شہید ہوئے۔[10] 5 اکتوبر کو پاکستان میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے ایک بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی۔[11] 9 اکتوبر 2009ء کو پشاور میں ایک خود کش حملہ کیا گیا جس میں چالیس سے زیادہ عام شہری شہید ہوئے۔ اس سے پہلے 16 ستمبر کو یہیں ایک خود کش حملہ میں گیارہ عام شہری شہید ہوئے۔ اسی دن بنوں میں ایک پولیس تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں پندرہ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔[12] 10 اکتوبر 2009ء کو پاکستان میں جی ایچ کیو پر حملہ ہوا جس کی ذمہ داری طالبان کے ایک گروہ نے قبول کی ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے تمام دھشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔[13] یاد رہے کہ اس سے صرف دو دن پہلے نیدرلینڈز کے سفارت خانہ کے ملازم اسلام آباد میں ممنوعہ اسلحہ اور ہنیڈ گرنیڈ سمیت پکڑے گئے جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ طالبان نے جی ایچ کیو پر حملوں میں ممنوعہ اسلحہ اور ہینڈ گرنیڈ استعمال کیے تھے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں سے بھارتی ہتھیار برآمد ہوئے۔۔[14] 15 اکتوبر کو لاہور میں تین مختلف جگہ پر دہشت گردی کی کارروائی ہوئی جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی۔ لاہور میں ایف آئی اے کی عمارت، بیدیاں ٹریننگ سینٹر اور مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ ہوا جو تینوں جگہ ناکام بنا دیا گیا تاہم کچھ سیکیورٹی اہکار شہید ہوئے ایک اندازہ کے مطابق ان کارروائیوں میں اٹھارہ دہشت گرد شامل تھے جن میں تین لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان واقعات میں کم از کم آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور آٹھ شہری شہید ہوئے جبکہ آٹھ دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔[15] 15 اکتوبر 2009ء کو ہی کوہاٹ میں ایک تھانے پر خود کش حملہ کیا گیا۔ ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی صدر پولیس اسٹیشن کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی۔ ان کے بقول حملے میں گیارہ افراد ہلاک جبکہ بیس زخمی ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں تین پولیس اہلکار اور آٹھ عام شہری شامل ہیں۔۔[16] لاہور کے کمشنر نے کہا ہے کہ طالبان کو ان حملوں میں بھارتی اداروں کی مدد حاصل ہے۔۔[17] 15 اکتوبر کے حملے کے عینی شاہدیں نے بتایا کہ طالبان دہشت گردوں نے مسجد پر بھی فائرنگ کی اور مسجد کی حرمت کا خیال نہ کیا۔۔[18] 16 اکتوبر کو پشاور میں سی آئی ڈی کے ایک مرکز اور تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں عام شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ خود کش حملہ نہیں بلکہ ایک کار بم دھماکا تھا[19]

20 اکتوبر کوجنڈولہ چیک پوسٹ وزیرستان پر طالبان نے حملہ کر کے 7 اہلکاروں کو شہید کر دیا۔[20] 23 اکتوبر 2009ء کو باراتیوں کی ایک بس مہمند ایجنسی میں طالبان کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس سے 18 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ بارودی سرنگ سیکیوریٹی فورسز کے لیے بچھائی گئی تھی۔[21] 23 اکتوبر 2009ء کو ہی پشاور میں ایک بم دھماکا ہوا۔ کامرہ میں فضائیہ کی فیکٹری کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا۔ کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔[22]

روزنامہ نوائے وقت کے مطابق پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکا اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ سکیورٹی ماہرین کی جانب سے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیر معمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔[23]

2 نومبر 2009ء کو راولپنڈی میں ایک خود کش حملہ میں 4 فوجیوں سمیت 36 افراد شہید ہو گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ خود کش حملہ آور نیشنل بنک آف پاکستان کے باہر تنخواہیں نکالنے والوں کی قطار میں گھس گیا اور خود کو اڑا دیا۔ اسی دن لاہور میں بابو صابو انٹرچینج پر پولیس چوکی پر روکے جانے پر کار سوار نے خود کو اڑا لیا اور 25 لوگ زخمی ہو گئے۔[24] 8 نومبر کو پشاور کے نواح میں واقع متنی کے علاقہ ادیزئی میں ایک خود کش حملہ میں ناظم علاقہ عبد المالک سمیت 12 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہو گئے۔ ناظم عبد المالک طالبان کے خلاف بنائے جانے والے ایک لشکر کے سربراہ تھے اور ان پر پہلے بھی حملے ہو چکے تھے۔[25]

9 نومبر 2009ء کو ایک پولیس چوکی پر خود کش حملہ ہوا جس میں تین افراد جاں بحق ہو گئے۔[26] 10 نومبر 2009ء کو چارسدہ کے مرکزی بازار میں ایک کار بم دھماکا کیا گیا جس میں 24 افراد جاں بحق اور 40 کے قریب زخمی ہو گئے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ ۔[27] دھماکے کی جگہ سے خود کش حملہ آور کے اعضاء مل گئے۔ پولیس کے مطابق اس حملہ کی دھمکیاں پہلے سے ہی مل رہی تھیں۔۔[28] طالبان تحریک کے ترجمان اعظم طارق نے خود کش حملوں کے بارے میں کہا کہ جو بھی ہماری تحریک کو نقصان پہنچائے گا اسے سبق سکھایا جائے گا۔[29]

13 نومبر 2009ء کو ایک خودکش حملہ جو ایک حساس ادارہ کے پاس پشاور میں ہوا، اہل کاروں اور شہریوں سمیت دس افراد جاں بحق ہو گئے۔ ایک اور واقعے میں بنوں میں بکا خیل تھانے میں خود کش حملہ سے دو افراد جاں بحق ہو گئے۔[30] 13 نومبر کو ہی پشاور میں پاکستان کی جاسوسی تنظیم آئی ایس آئی کے دفتر پر خود کش حملہ میں سات اہلکاروں سمیت دس افراد ہلاک ہو گئے۔ خود کش حملہ آور نے صبح کے ساڑھے چھ بجے ایک بارود سے بھری گاڑی آئی ایس آئی کے صوبائی دفتر پر ٹکرا دی۔ دھماکے سے قریبی مسجد بھی تباہ ہو گئی۔۔[31] 14 نومبر کو پشاور میں میں پولیس کے مطابق ایک چیک پوسٹ پر کار خودکش حملہ ہوا جس میں گیارہ افراد ہلاک اور چھبیس زخمی ہو گئے۔۔[32]

کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ترجمان قاری حسین نے پشاور اور بنوں میں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی کہ حکومت خود کش حملوں کو روک کر دکھائے۔[33]

16 نومبر 2009ء کو پشاور میں پولیس اسٹیشن کے قریب ہونے والے ایک مبینہ خودکش کار بم حملے میں کم سے کم تین افراد ہلاک اور چوبیس سے زائد زخمی ہو گئے۔ پشاور کے ایس پی رورل بشیر اللہ خان کے مطابق یہ واقعہ پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں اس وقت پیش آیا جب ماشو خیل کے علاقے سے آنے والے ایک مبینہ خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی مسجد کی عمارت سے ٹکرا دی۔[34]

19 نومبر 2009ء کو صوبہ سرحد کے دار الحکومت پشاور میں ڈسٹرکٹ کورٹ کے گیٹ پر ایک خود کش حملے میں انیس افراد ہلاک اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ خودکش حملہ آور کچہری میں داخل ہونا چاہتا تھا اور اس کو جب تلاشی کے لیے روکا گیا تو اس نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔[35] 20 نومبر 2009ء کو رات گئے ایک پولیس کی ایک گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا جس میں پولیس کے دو اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے ہیں۔[36]

مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے مغوی رُکن کی سربریدہ لاش ملی ہے۔ اس شخص کا بیٹا گذشتہ شام دہشت گردوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہو گیا تھا۔ حکام کے مطابق دہشت گردوں اور امن کمیٹی کے ارکان کے درمیان کئی گھنٹوں تک جھڑپ ہوئی تھی۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے بھی مہمند ایجنسی کی تحصیل لکڑو میں مولانا شہزاد گل اور رسول شاہ کی لاشیں کندارو کے قریب سے ملی تھیں اور ان دونوں کو گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک قبائلی جرگے کے ذریعے انھوں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے مولانا شہزاد گل اور پچاس سالہ رسول شاہ جو مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے سرگرم رُکن تھے، کی سربریدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ دونوں کی ہلاکت کی ذمہ داری مقامی طالبان نے قبول کی تھی۔[37]

4 دسمبر 2005ء کو پریڈ گراؤنڈ راولپنڈی میں طالبان نے ایک مسجد پر حملہ کر کے چالیس افراد کو شہید کیا جن میں 17 نمازی بچے بھی شہید ہوئے اور مسجد کا ایک حصہ شہید ہوا۔ شقی القلب طالبان نے مسجد پر حملہ اور اس قتل و غارت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے جرائم پیشہ رہنماء ولی الرحمن نے قبول کی۔[38] 5 دسمبر 2009ء کو پشاور کے کمرشل بازار میں دھماکا کیا گیا جس سے کم از کم دو افراد ہلاک ہو گئے۔[39]

واقعات جن کی طالبان نے تردید کی ترمیم

20 اکتوبر 2009ء کو اسلام آباد پاکستان کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں دو خود کش حملے ہوئے جس میں متعدد طالبات شہید ہو گئیں۔۔[40]

28 اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ کی اسلام آباد، پاکستان میں آمد کے کچھ دیر بعد پشاور میں ایک مینا بازار میں جہاں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے، ایک بم دھماکا کیا گیا جس میں 105 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہو گئے جو تمام عام لوگ تھے۔[41]۔ دھاکے سے قریبی امِ حبیبہ مسجد بھی مکمل طور پر شہید ہو گئی۔۔[42] اگرچہ طالبان نے اس قسم کی دھمکیاں دے رکھی تھیں تاہم کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے بی بی سی کو سے بات کرتے ہوئے اس دھماکے سے لاتعلقی کااظہار کیا اور کہا کہ اس دھماکے کے پیچھے خفیہ اداروں اور امریکی تنظیم بلیک واٹر کا ہاتھ ہے۔[41]۔ لیکن پشاور پولیس کے ذرائع کے مطابق رپورٹیں دو دن پہلے ملی تھیں کہ دہشت گردوں نے دو فیشن ایبل خواتین کو بارود سے بھری گاڑی سمیت شہر میں داخل کیا ہے۔ عینی گواہوں کے مطابق دو فیسن ایبل عورتیں اس گاڑی کو کھڑا کر کے گئیں جس میں دھماکا ہوا۔[43] دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود اور خود کش حملوں کے ماسٹر مائنڈ قاری حسین نے پشاور پیپل منڈی کے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے خیبر بازار دھماکا اور اسلامی یونیورسٹی پر ہونے والے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ طالبان نہ صرف اس قسم کے حملوں کے خلاف ہیں بلکہ وہ مارکیٹوں اور بچوں پر حملوں کو غیر انسانی سمجھتے ہیں۔ قاری حسین نے مزید کہا کہ طالبان عورتوں اور بچوں کے نشانہ بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انھوں نے کہا کہ ان حملوں کا انتقام لیا جائے گا۔ یہ سب کچھ غیر ملکی ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے۔ ہم اسکول جانے والے بچوں اور مارکیٹ جانے والی عورتوں کے خلاف لڑنا نہیں چاہتے۔[44] اس موقع پر موجود کالعدم تنظیم کے ترجمان اعظم طارق نے کہا کہ ہم ان ذرائع ابلاغ کے اداروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو (بقول ان کے ) طالبان کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔[45]

حوالہ جات ترمیم

  1. بی بی سی اردو 22 اگست 2009ء
  2. ملک میں پھیلتے شدت پسند نیا خطرہ۔ بی بی سی اردو
  3. روزنامہ دی نیوز۔ 14 ستمبر 2009
  4. وطن دوست بلاگ
  5. روزنامہ نوائے وقت 12 مئی 2009ء
  6. روزنامہ ایکسپریس 15 دسمبر 2009ء
  7. بی بی سی 26 اگست 2009ء
  8. بی بی سی 27 اگست 2009ء
  9. بی بی سی 27 اگست 2009ء
  10. بی بی سی 19 ستمبر 2009ء
  11. بی بی سی 6 اکتوبر 2009ء
  12. بی بی سی
  13. روزنامہ جنگ 10 اکتوبر 2009ء۔ تازہ ترین خبروں سے لیا گیا
  14. بی بی سی اردو 19 اکتوبر 2009ء
  15. روزنامہ جنگ۔ تازہ ترین 15 اکتوبر 2009
  16. بی بی سی اردو
  17. "روزنامہ جنگ تازہ خبریں 15 اکتوبر 2009ء"۔ 02 دسمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2009 
  18. بی بی سی 15 اکتوبر 2009ء
  19. بی بی سی 16 اکتوبر 2009ء
  20. http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091020_waziristan_4th_day.shtml بی بی سی اردو 20 اکتوبر 2009ء
  21. "روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 23 اکتوبر 2009ء"۔ 01 دسمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2009 
  22. بی بی سی اردو 23 اکتوبر 2009ء
  23. "نوائے وقت 29 اکتوبر 2009ء"۔ 02 نومبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2009 
  24. روزنامہ جنگ 3 نومبر 2009ء
  25. "روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 8 نومبر 2009ء"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2009 
  26. روزنامہ جنگ تازہ خبریں۔ 9 نومبر 2009ء
  27. "جنگ تازہ خبریں 10 نومبر 2009ء"۔ 01 دسمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2009 
  28. روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ء
  29. روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ء
  30. "جنگ تازہ ترین 13 نومبر 2009ء"۔ 16 نومبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2009 
  31. روزنامہ جنگ 14 نومبر 2009ء
  32. بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء
  33. بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء
  34. بی بی سی اردو 16 نومبر 2009ء
  35. بی بی سی اردو 19 نومبر 2009ء
  36. بی بی سی اردو 20 نومبر 2009ء
  37. بی بی سی اردو 27 نومبر 2009ء
  38. روزنامہ جنگ 5 دسمبر 2009ء
  39. جنگ تازہ ترین 5 دسمبر 2009ء
  40. بی بی سی اردو 20 اکتوبر 2009ء
  41. ^ ا ب بی بی سی اردو 28 اکتوبر 2009ء
  42. "روزنامہ جنگ تازہ ترین 28 اکتوبر 2009ء"۔ 01 دسمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2009 
  43. روزنامہ ایکسپریس 29 اکتوبر 2009ء
  44. "آرکائیو کاپی"۔ 02 دسمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2009 
  45. بی بی سی اردو 29 اکتوبر 2009ء