تربیلا بند ایک کثیر المقاصد ڈیم ہے جو منگلا بند سے دو گنا ، اسوان ڈیم مصر سے تین گنا اور دنیا میں مٹی کی بھرائی کا سب سے بڑا بند ہے۔ یہ ڈیم تربیلا ،ضلع ہری پور، پاکستان میں واقع ہے۔

تربیلا بند
Coordinates34°05′23″N 72°41′54″E / 34.089722°N 72.698333°E / 34.089722; 72.698333متناسقات: 34°05′23″N 72°41′54″E / 34.089722°N 72.698333°E / 34.089722; 72.698333
تعمیری اخراجات1.497 ارب امریکی ڈالر [1]
ڈیم اور سپل وے
ڈیم کا حجم139,000,000 cu yd (106,000,000 میٹر3)
آب گُزر16 ( 7 Service + 9 Auxiliary)
آب گُزر گنجائشService 650,000 cusecs + Auxiliary 850,000 cusecs
ذخیرہ آب
غیر فعال گنجائش1,941,000 acre·ft (2.394 کلومیٹر3) (1974)
زیادہ سے زیادہ پانی کی گہرائی450 فٹ (140 میٹر)
عام طور پر بلندی1,464 فٹ (446 میٹر)
بجلی گھر
Commission date1977–1982

پانی کا بحران ترمیم

تقسیم کے وقت زیریں سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر انگریزوں کا تشکیل دیا ہوا آبپاشی کا نظام دو حصوں بٹ چکا تھا ۔ پاکستان کو پانی کے حوالے سے بھارت کی بالادستی کا سامنا تھا ۔ پاکستان جان چکا تھا کہ اس نے اگر پانی کی مناسب مقدار کو کنٹرول نہیں کیا تو جلد وہ خشک سالی کا شکار ہوکر تباہ وہ برباد ہوجائے گا ۔ کیوں کہ اس کے تمام دریا بھارت کے زیر کنٹرول علاقہ سے گذر کر پاکستان آتے تھے ۔ لیکن دریائے سندھ جو پانی کے حوالے سے ایک بڑا دریا ہے اور لداخ کے علاقہ میں بھارت کے زیر تسلط علاقے سے گزرتا ہے ۔ جہاں اس کا منہ موڑنا بھارت کے لیے ناممکن تھا ۔ اگر سندھ دریا پر بند باندھ کر اس کے پانی کا ذخیرہ کر لیا جائے تو پانی کا مسلہ بہت حد تک حل ہوجائے گا ۔

جگہ کی تلاش ترمیم

سب سے مسلہ جگہ کا تھا اور اس کے لیے سکردو کی وادی اور بھاشاہ پر بھی غور کیا گیا، مگر ان کے انتخاب میں کئی مسلے تھے ۔ ان میں بھاری مشینری کا وہاں پہچانا ، ہزاروں مزدوروں کی ٹرانسپورٹ اور ضروری دیکھ بھال بھی بہت بڑے مسلے تھے ۔ اس وقت تک یہاں سڑک کی تعمیر نہیں ہوئی تھی ۔ پھر یہ جگہ ایسی تھی جو زلزلوں کی زرد میں رہتی تھی اور دور افتادہ تھی ۔ ان مسلوں کی وجہ سے انھیں رد کر دیا گیا ۔ اگرچہ یہاں ڈیم بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ پانی گاد اور تلچھٹ سے قدرے پاک رہتا ۔ ڈیم کی تعمیر کے لیے اور دوسرے مقامات بھی زیر بحث آئے ۔ زیریں حصے میں کم از کم دو مقام ایسے تھے، جہاں ڈیم کی تعمیر ہو سکتی تھی ۔ لیکن اس کے لیے ایک بڑے قابل کاشت رقبہ کی قربانی دینی ہوتی ۔ آخر کار چودہ سال تک اس مسلہ کا بغور جائزہ لینے کے بعد جیالوجسٹ ، ہائیڈرولوجست اور اکانومسٹ اس نتیجے پر پہنچے کہ بہاوَ کی سمت میں آخری بلند پہاڑیوں کے فوراً موزوں جگہ تربیلہ ہے ۔ جہاں پہنچنا دوسری جگہوں کی نسبت آسان ہے ۔ کیوں کہ یہ جگہ اسلام آباد سے صرف چالیس میل کے فاصلے پر ہے ۔ بہاوَ کی جانب زیریں علاقہ جات کی نسبت اوپر کی گھاٹیوں کو بھر کر جھیل بنانا زیادہ موزوں ہو سکتا ہے ۔ کیوں کہ اس طرح کم سے کم زرعی زمین زیر آب ہوگی ۔ تربیلہ کے انتخاب میں ایک بڑا نقصان بھی تھا ۔ جب یہاں سندھ دریا یہاں پہنچتا ہے تو اس کے پانیوں میں بے پناہ گاد اور تلچھٹ شامل ہو چکی ہوتی ہے ۔ یہ گاد تلچھٹ جو دریاؤں کو بھر دیتے ہیں ۔ سورج کی گرمی ، پالا ، نمی اور ہوا جو پہاڑوں سے نبر آزما ہوتی رہتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں پتھریلی اور سخت چٹانوں کے بڑے بڑے ٹکرے اپنی جگہ سے علحیدہ ہوکر پھسلتے ہوئے دریا میں آگرتے ہیں ۔ یہ ٹکرے دریا کے پانی کی رگڑ کے عمل سے باریک باریک زرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ جب دریا کو روکا جاتا ہے تو اس سے پانی کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور پانی میں شامل گاد اور تلچھٹ نیچے بیٹھنا شروع ہوجاتی ہے اور جھیل اس گاد سے بھر کر پانی کا ذخیرہ کرنے کے قابل نہیں رہتی ہے ۔ آزادی کے بعد مشرقی دریاؤں سے پانی کی بھارت کی بندش کی وجہ سے پاکستان میں زراعت پانی کی قلت کا شکار تھی اور اسے زبردست خطرہ لاحق ہو گیا تھا ۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان نے ملک میں ڈیم بنانے کا منصوبہ مرتب کیا ۔ ان میں سے ایک دریائے سندھ پر ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا ۔ جس کے لیے اٹک، کالاباغ اور تربیلا کے علاقوں کا جائزہ لیا گیا ۔ آخر 1952ء میں تربیلا کے مقام کو بند کی تعمیر کے لیے موزوں قرار دیا گیا ۔ اس ڈیم کی تعمیر کا مطلب تھا کرہ ارض کے اس حصہ کی ساخت کو تبدیل کرنا تھا ۔ ڈیم کا پشتہ تیار کرنے کے لیے نہر پانامہ کے لیے خاکنائے پانامہ سے کھودی گئی مٹی کی مقدار کی دو تہائی مٹی کی درکار تھی ۔ یہ پشتہ تقریباً دو میل لمبا اور دریا کی گذر گاہ سے 500 فٹ بلند کرنا تھا ۔ اس کے لیے 186 ملین مٹی اور چٹانیں درکار تھیں ۔ جس میں سے تقریباً آدھی مٹی سرنگوں اور پانی بہنے کے راستوں کی کھودائی سے حاصل ہونی تھی اور باقی ماندہ اور جگہوں سے کھود کر لانی تھی ۔ تین ملین کیوبک گز کنکریٹ کی ضرورت تھی ۔ ڈیم کے اوپر دریائے سندھ نے پچاس میل پیچھے تک جہاں اس کی گھاٹی کی چورائی سو گز سے کم ہے جھیل کی صورت اختیار کرتے ہوئے گیارہ ملین پانی کا ذخیرہ کرنا تھا ۔ سیلاب کے موسم میں یا جب مون سون بارش کی وجہ سے جھیل کی سطح بلند ہوجائے یا بالائی علاقہ میں کسی گلیشر کے ٹوٹنے سے پانی میں اچانک اضافہ ہوجانے کی صورت میں ذیلی آبی راستے کے اضافی پانی کو ڈیم کے نیچے روایتی گزرگاہ میں پھینک دیں گے ۔

عالمی امداد ترمیم

اس کے لیے بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک سے فنی و مالی تعاون کی اپیل کی گئی ۔ 1967ء میں عالمی بینک نے اس ڈیم کی تعمیر کی منظوری دے دی ۔ 1968ء میں تربیلا ترقیاتی فنڈ قائم کیا گیا ۔ جس کے لیے عطیات کے علاوہ فرانس ، اٹلی ، برطانیہ، کینڈا اور عالمی بینک نے قرضے بھی منظور کیے ۔ اسی سال تین اطالوی اور تین فرانسیسی کمپنیوں پر مشتمل ایک کنسورشیم تربیلا جائنٹ و نیچر کو بند کی تعمیر کا ٹھیکا دیا گیا ۔ 1969ء میں کنسورشیم میں جرمنی اور سوءٹزرلینڈ کی سات کمپنیوں کا گروپ بھی شامل ہو گیا ۔ نومبر 1971ء میں یہ بند پایہَ تکمیل کو پہنچا اور 1977ء میں اس نے کام شروع کر دیا تھا ۔ تاہم اس کو مکمل تکمیل 1984ء میں ہوئی اور اس کی لاگت 149 بلین ڈالر تھی ۔

مقاصد ترمیم

تربلا ڈیم کا بنیادی مقصد آبپاشی کے استعمال کے لیے پانی کا ذخیرہ کرنا تھا ۔ اس کے علاوہ دیگر مقاصد یعنی بجلی کی پیداوار اور سیلاب کی روک تھام تھی ۔ اس کے ذریعہ گلیشر کے پگھلنے اور سندھ دریا سیلاب سے تحفظ فراہم کیا گیا تھا ۔ اس کے سات دروازوں میں 650,000 کیوسک کی خارج ہونے والی صلاحیت ہے ۔ اس علاوہ اس کے نو خصوصی دروازوں کے ذریعہ 850,000 کیوسک سیلابی پانی کو خارج کر سکتا ہے ۔ اس ڈیم میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے دنیا میں دوسرا سب سے بڑا ڈیم ہے ۔ اس میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 169;46;600 مربع کلومیٹر ہے یعنی 450 کلومیٹر سے ہے ۔ اس کی جھیل کی گہرائی1,550 ft سے زیادہ اور اس کا قابل استعمال پانی 11,62 ملین ایکڑ فٹ ہے اور اس میں بجلی کی پیداوار کی صلاحیت 9,68 میگاواٹ ہے ۔
اس کے بند کی لمبائی 9 ہزار فٹ ، زیادہ سے زیادہ اونچائی 485 فٹ (147 میٹر) اور گنجائش 18,60,00,000 ایکڑ فٹ (229مکعب کلومیٹر( ہے ۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاءوں کا اوسط مجموعی بہاءو تقریباً 208 مکعب کلومیٹر ہے ۔ اس میں لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہو سکتی ہے ۔ دریا کے بائیں کنارے پر 45 فٹ قطر کی چار سرنگیں ہیں ۔ پہلی اور دوسری سرنگ بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں سے منسلک ہے ۔ تیسری سرنگ کا مقصد بھی بجلی کی پیداوار ہے ۔ چوتھی سرنگ ;200;بباشی کے مقصد کے لیے ہے ۔ اس منصوبے پر 10;44\44;00,00,000 روپیہ صرف ہوا ۔ بند سے آبپاشی اور بجلی کے علاوہ مچھلی کی صنعت اور سیاحت وغیرہ کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے ۔ بعد میں اسی ڈیم سے ایک نہر نکال کر غازی بروتھا کے مقام بعد میں مزید ٹربائنیں لگا کر بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔

بجلی کی پیداوار ترمیم

ہائیڈرو پاور پلانٹ کا ٹربائیں دائیں ہیں اور یہ 14 ہیں ۔ یہ پلانٹ 3،478 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ہر سرنگ پر 175 میگاواٹ کے چار جنریٹر 1977 نصب کیے گئے تھے ۔ ان سرنگوں می 175 میگاواٹ جنریٹرز دو ، چار 1982ء میں اور 1985ء میں باقی دو نصب کیے گئے ۔ 432 میگاواٹ کے چار چار جنریٹر 1992ء میں ان سرنگوں میں نصب کیے گئے تھے ۔ دائیں بائیں کے دائیں کنارے کی وادی کی دیوار جانب چار سرنگوں کی تعمیر کی گئی ہیں ۔ ان میں تینوں سرنگوں کو ہائیڈرو پاور کے مقصد کے لیے بنایا گیا ہے ۔ جبکہ چوتھی سرنگ کے پانی کو آبپاشی کے لیے ہے ۔ جب کہ دریا کے بائیں کنارے پر پانچویں سرنگ کی جارہی ہے ۔ یہ 1976ء میں آپریشنل بن گیا اور بنیادی طور پر آبپاشی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

فوائد اور نقصانات ترمیم

اس ڈیم کی تعمیر سے دریا کے نچلے حصے پر پانی و بجلی کی پیدا کی وجہ پاکستان مثبت اثرات مرتب ہوئے ۔ تاہم پانی کی وجہ سے سندھ و پنجاب میں سیم و تھور جیسے مسلہ بھی پیدا ہوئے ۔ لیکن سب سے زیادہ ہولناک اثرات اس ڈیم کی زمینوں پر مرتب ہوئے ۔ انھیں اپنی آبائی علاقوں سے در بدر ہوکر دوسری جگہوں پر نئے سرے سے اپنی زندگیوں کو شروع کرنا پڑیں ۔ بیشتر متاثرین کو حکومت کی جانب سے معاوضہ کی مکمل ادائیگی نہ ہو۔ سکی اگر چہ 3 کالونیوں کو سہولیات اور ڈیم کی رائیلٹی کی مد میں ترقیاتی فنڈ مل رہا ہے لیکن ١٩٧٤ کے بعد نئے دیہات آباد کرنے والے متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے کھلابٹ كانگڑا اور غازی کی نئی کالونیوں کے علاوہ متاثرین تربیلا کے قافلے مختلف اضلاع میں پہنچے متاثرین کے آباد کردہ نئے دیہات میں سے چند مشہور گاؤں کے نام یہ ہیں ؛

پٹھان کوٹ

کٹھہ کالونی

سلطان آباد

دهریک

اسلام پور لب مل

اتمان آباد

سلطان پور

اسلام کوٹ بھیڈیاں

نیو جھنگ گھوڑا

نذرآباد

ٹانڈا جھاری کس

رفیق آباد صوابی

صدرے

پاک کیا ہنڈ

ان کے علاوہ متاثرین تربیلا ملک کے مختلف شہروں میں آباد ہیں ۔


ماخذ ترمیم

دریائے سندھ ۔ جین فیرلی

گوگل تربیلا ڈیم