ترنم ریاض
نسائی ادب کی فہرست کے صف اول میں شامل ارود کی نامور ادیبہ، شاعرہ ، کہانی و افسانہ نویس اور ناول نگار
ترنم ریاض 9 اگست 1960ء میں سری نگر جموں و کشمیر میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام فریدہ ترنم ہے لیکن معروف ادیب پروفیسر ریاض پنجابی سے شادی کے بعد ترنم ریاض کا قلمی نام اختیار کیا۔ اردو کے جدید افسانہ نگاروں میں ان کا بہت بڑا نام اور مقام ہے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ انھوں نے ناول نگاری ، کہانی نویسی اور شاعری میں بھی خوب جوہر دکھایا ہے۔ افسانہ نگاری ان کی پہلی پہچان ہے لیکن ان کی شہرت کا آغاز ان کی کہانی" شہر" سے ہوا بعد میں ان کے افسانے مشہور ہوتے گئے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ" ابابیلیں لوٹ آئیں گی" 2000ء میں شائع ہوا۔ حقانی القاسمی نے ترنم ریاض کو Sweet Temper افسانہ نگار کا خطاب دیا ہے۔ ترنم ریاض کی تحریروں اور شاعری میں کشمیری معاشرے کا بھرپور عکس ملتا ہے اور احتجاج کی توانا آواز بھی ۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ دکھ ، درد ، کرب اور مختلف احساسات اور کیفیت میں گذرا ہے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی احساسات کے بارے میں لکھا ہے کہ افسانہ" آدھے چاند کا عکس " لکھتے وقت وہ ماں کی ممتا کے جذبے سے سرشار رہی کہانی " باپ" لکھتے وقت وہ شدید ذہنی تناو کا شکار رہی۔افسانے " ایجاد کی ماں" اور " میرا پیارا گھر" لکھتے وقت اسے بہت بڑا روحانی سکون میسر ہوا جبکہ افسانہ" مٹی" لکھتے وقت وہ سخت اذیت، کرب اور رنجیدہ احساس و کیفیت سے دوچار رہی۔ ان کی تحریروں میں عورت کی مظلومیت اور محرومی کے تاثرات زیادہ ہیں وہ عورت کو حالات سے مقابلہ کرنے اور صبر کی تلقین بھی کرتی رہیں ۔ نسائی ادب کے اس نمایاں نام ترنم ریاض کی وفات 20 مئی 2021ء میں ہوئی ۔
تصانیف
ترمیم- یہ تنگ زمین(1998)،
- ابابیلیں لوٹ آئیں گی (2000)،
- یمبرزل (2004)،
- مورتی (2004)،
- چشم نقش قدم (2005)،
- پرانی کتابوں کی خوشبو (2006)،
- مرا رخت سفر(2008)،
- فریب خطۂ گل (2009)،
- برف آشنا پرندے (2009)،
- اجنبی جزیروں میں (2015)،
- بھادوں کے چاند تلے (2015)،
- زیر سبزہ محو خواب (2015)
- بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب (2004ء مرتبہ)