تنزیل قرآن
تنزیل عربی اسم مصدر ہے، جس کا معنی ہے تھوڑا تھوڑا کر کے اتارنا۔ اصطلاح اسلام میں اس سے مراد قلبِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کا نازل کیا جانا ہے، قرآن کا تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جانا۔ قرآن میں ہے: اور یہ کتاب ہے، ہم نے اتارا ہے اسے، بابرکت ہے، سو پیروی کرو اس کی اور ڈرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے (قرآن: سورۃ الانعام:156)۔ قرآن فرشتہ جبرائیل کے ذریعہ نازل ہوا۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن موقع محل اور حالات کی نزاکت کے مطابق نازل ہوا۔ جن وجوہ سے آیات یا آیت یا پوری سورۃ نازل ہوئی۔ ان کو اسباب نزول یعنی نازل ہونے کی وجوہات کہا جاتا ہے۔ تفسیر کرنے کے دوران مفسرین قرآن کو ان اسباب کو مدِ نظر رکھنے کی تاکید، علم تفسیر کی کتب میں کی گئی ہے۔ پورا قرآن تقریباً 23 سال کے عرصہ میں نازل ہوا۔ بعض مسلم و غیر مسلم ماہرین نے کتب تفاسیر، کتب اسباب نزول، کتب احادیث اور تاریخی روایات کی بنیاد پر قرآن کو نزولی ترتیب کے مطابق مرتب کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ جن پر عام طور پر عدم اطمنان کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اسباب نزول کی ہمیشہ ایک وجہ نہين تھی، بلکہ وجہات ایک سے زائد بھی ہوتی تھیں۔ اور نزول قرآن کے عرصہ میں بعض آیات الگ الگ مواقع پر تکرار سے بھی نازل ہوئیں، مگر وہ تکرار الگ سے آیات نہیں تھیں، بلکہ پہلے سے نازل شدہ آیات ہی کسی سبب سے دوبارہ نازل ہوئیں، جیسے سورۃ فاتحہ۔