تھوہا خالصہ تحصیل کلر سیداں، ضلع راولپنڈی میں واقع ہے۔

تھوہا خالصہ کی تاریخ ترمیم

تھوہا خالصہ میں سکھ برادری کے تاریخی مقامات جن میں حویلی گلاب سنگھ جس کے نشانات اب مٹ چکے ہیں دکھ بجنی گوردوارہ کی جگہ اور وہ کنواں بھی دیکھا جہاں سکھ عورتوں نے چھلانگیں لگا کر خودکشی کرلی تھی 1947میں جب تقسیم ہند کی تحریک زوروں پر تھی مسلم لیگ کی قیادت کشمیر کو پاکستان کیساتھ ضم کرنے کے مختلف آپشنز پر غور و فکر کرنے میں مصروف عمل تھی اس دوران جہاد کی غرض سے وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل ایک لشکر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا کشمیر میں قبائلی مداخلت کا باقاعدہ آغاز 22 اکتوبر 1947 کو ہوا اس دوران قبائلی لشکر پشاور اور راولپنڈی کینٹ میں آتے جاتے رہتے تھے انہی میں سے ایک جتھہ فروری 1947 کے آخری دنوں میں راولپنڈی پہنچا 3مارچ 1947 کو سکھوں کے رہنما ماسٹر تارا سنگھ جس نے ڈیرہ خالصہ کے رہائشی اور معروف سکھ مذہبی رہنما عطر سنگھ کے ہاتھوں سکھ مذہب اختیار کیا تھا اور ان کی تبدیلی مذہب کی رسومات بھی تھوہا خالصہ کے دکھ بجنی گورودوارہ میں ہی سر انجام پائی تھیں اسی تارا سنگھ نے پاکستان کے نام سے الگ ملک کا مخالفت کی تھی اس نے لاہور میں ایک تقریر کی اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے جس سے ہرطرف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی کشمیر میں سکھوں کی حکومت تھی اور راولپنڈی ضلع میں سکھ بہت بڑی تعداد میں آباد تھے قبائلیوں کو لاہور کے فسادات کا علم ہوا تو انھوں نے سکھوں کے خلاف اعلان جہاد کر دیا اورچند دن بعد لشکر لے کر راولپنڈی کے علاقے چونگی نمبر بائیس پر چڑھائی کر دی چونکہ یہ راولپنڈی اور چکلالہ کا تقسیم شدہ فوجی علاقہ تھا اور یہاں سکھوں کے پاس اسلحہ کی بھی فراوانی تھی اس لیے راولپنڈی میں انھیں سکھوں کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرنا پڑی لہذا انھوں نے راولپنڈی کو زیر کرنے کا منصوبہ ترک کرکے روات کی طرف پیش قدمی شروع کردی اسلام آباد اور راولپنڈی سے آتے ہوئے ٹی چوک سے تھوڑا آگے روات بازار جرنیلی سڑک پر واقع ہے اور اس سے بائیں کلرسیداں کی طرف ایک روڈ نکلتی ہے چوکپنڈوڑی جاتے ہوئے اس روڈ کے دائیں طرف گاؤں ساگری آباد ہے جہاں کبھی مالدار سکھوں کے خاندان آباد تھے وہ زیادہ ترسنار کا کام کرتے تھے جبکہ اسی روڈ پر تھوڑا آگے شاہ باغ بازارسے 2کلومیٹر کے فاصلے پربائیں طرف نتھیہ جاتے ہوئے راستے میں مشرق کیجانب اونچی ٹیکری پر ڈیرہ خالصہ کے نام سے ایک گاؤں آباد ہے قبائلی لشکر روات سے کلرسیداں روڈ کے راستے ڈیرہ خالصہ پہنچا تاہم اس لشکر نے ساگری کو کیوں نظر انداز کیا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے عین ممکن ہے انھوں نے ڈیرہ خالصہ تک رسائی کے لیے کلرسیداں روڈ کی بجائے ڈھوک میجر چھپری اکو ترکھی پیر گراٹہ کا راستہ اختیارہ کیا ہوچونکہ ڈھیرہ خالصہ میں مسلمانوں اور سکھوں کے گھر ایک دوسرے سے متصل تھے اور لڑائی کی صورت میں سکھوں کیساتھ مسلمانوں کے جانی نقصان کا بھی اندیشہ تھا اس لیے قبائلی لشکر ڈیرہ خالصہ سے براستہ چنام‘گنگوٹھی برہمناں سے گزرتے ہوئے تھوہا خالصہ پہنچا ایک سکھ جن کا نام پرپیت پال سنگھ ہے جو اس واقعے کے وقت تھوہا خالصہ میں مقیم تھے اور ان کی عمر 12سال کے لگ بھگ تھی انھوں نے یوٹیوبر کیشو ملتانی کے روبرو سانحہ تھوہا خالصہ کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ 9مارچ کی شام مغرب کے وقت قبائلی لشکرتھوہا خالصہ کے مغرب کیجانب سے نمودار ہوا اور سب سے پہلے لاری اڈا کے قریب گاؤں کے داخلی راستے پرقائم گھروں کو لوٹنا اور آگ لگانا شروع کردی سکھوں نے بھی آگے سے مزاحمت شروع کردی بعد ازاں کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹ گئے 10مارچ کو وہ دوبارہ حملہ آور ہوئے اور معمولی جھڑپوں کے بعد پھر واپس لوٹ گئے مگر11مارچ کی شام قبائلی جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی دوبارہ تھوہا خالصہ میں داخل ہوئے انھوں نے جان بخشی کے لیے سکھوں سے سونا نقدی رقم اور اسلحہ ان کے حوالے کرنے کی شرط پر صلح کرنے پر آمادگی ظاہر کی سکھوں نے اپنی جان کی امان کے لیے اسلحہ سونا اور نقد رقم ان کے حوالے کردی اور اس دن پھر وہ واپس چلے گئے مگر 12مارچ کودوبارہ واپس آگئے اور سکھوں کو اسلام قبول کرنے اور سکھ لڑکیوں کا نکاح ان کے ساتھ پڑھوانے کا مطالبہ کر دیا سکھوں نے یہ شرطیں ماننے سے انکار کر دیا اور سکھ خاندان سردار گلاب سنگھ کی حویلی میں محصور ہو گئے اسی دن ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تھا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے مان کور سردار گلاب سنگھ کی رشتہ دار ایک بیوہ خاتون تھی وہ حویلی میں بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی جب مان کور نے دیکھا کہ سکھ بڑی تعداد میں مارے جاچکے ہیں تو وہ باقی خواتین اور بچوں کو لے کر گاؤں سے باہر ندی کے اس پار ایک کنواں کے پاس پہنچی پہلے مان کور نے کنویں میں چھلانگ لگائی تو ان کے پیچھے باقی خواتین بھی اپنی بچوں کے ہمراہ کود گئیں کنواں لاشوں سے بھر گیا اور بعد میں چھلانگ لگانے والی کئی خواتین اور بچے کنویں میں ڈوب نہ سکے سردار پیت پال سنگھ بھی کنواں میں چھلانگ لگانے والے بچوں میں شامل تھے تاہم وہ ڈوب نہ سکے اور بعد میں جویندرا نامی سکھ جن کی تھوہا خالصہ میں آٹے کی چکی تھی کنواں میں اپنی پگڑی لٹکا کر ان کو بچا لیا تھا کنویں سے خواتین اور بچوں کی 93 لاشیں برامد ہوئیں تھیں دوسرے دن مقامی مسلمانوں نے آ کر جو چند ایک سکھ بچ گئے تھے انھیں خوراک پہنچائی اس واقعے کی خبر سن کر لارڈ اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے تھوہا خالصہ کا دورہ کیا اور بچ جانے والوں سے سانحے کی تفصیلات دریافت کیں سکھوں کے لیے روات اور گوجرخان میں ریلیف کیمپس قائم کیے گئے مگر تھوہا خالصہ اجڑچکا تھا تاہم اب تھوہا خالصہ دوبارہ آباد ہے مگر اب اس گاؤں میں کوئی بھی سکھ موجود نہیں قیام پاکستان کے بعد محکمہ اوقاف نے دکھ بھجنی گوردوارہ تو اپنی تحویل میں لے لیا تھا مگر اب دکھ بجنی گردوارہ اور سردار گلاب سنگھ کی حویلی کا نام ونشان باقی نہیں رہا اب تو ان کی بنیادیں تک منہدم ہو چکی ہیں تاہم وہ قاتل کنواں اب بھی موجود ہے جس نے 93 معصوم عورتوں اور بچوں کی جان لے لی تھی۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم