ثمینہ راجہ
ثمینہ راجا پاکستان کی نامور شاعرہ ، ایڈیٹر ، مترجم اور ماہرہ تعلیم تھیں [2]۔[3]
ثمینہ راجہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 ستمبر 1961ء بہاولپور |
وفات | 30 اکتوبر 2012ء (51 سال)[1] اسلام آباد |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنفہ |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
وہ 11 ستمبر 1961ء کو بہاولپور میں پیدا ہوئیں۔ بارہ تیرہ برس کی عمر سے شعر گوئی کا آغاز ہوا اور جلد ہی ان کا کلام پاک و ہند کے معتبر ادبی جرائد میں شائع ہونے لگا۔ لیکن اپنے گھرانے کی روایات اور سماجی پابندیوں کے سبب ان کو شعری و ادبی محفلوں میں شرکت کے مواقع حاصل نہ ہو سکے لہذا ان کی شاعری ایک طویل عرصے تک صرف 'فنون، نقوش، اوراق ،نیا دور اور سیپ، جیسے ادبی جرائد اور سنجیدہ حلقوں تک ہی محدود رہی۔ ایک عمر کی جدوجہد اور ریاضت کے بعد بالآخر وہ اپنے فن کو لوگوں کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کے خاندان میں مستورات کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں تھا چنانچہ انھوں نے نہایت نامساعد اور نا موافق حالات میں پرائویٹ طور پر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور اردو ادب میں ایم اے پاس کیا ۔
شعری مجموعے
ترمیم- ہویدا (1995)
- شہر سبا-
- اوروصال -
- خوابنائے -
- باغ شب -
- بازدید -
- ہفت آسمان -
- پری خانہ -
- عدن کے راستے پر -
- دل ِ لیلٰی
- عشق آباد
اس کے علاوہ ان کی شاعری دو ضخیم کلیات کی صورت میں بھی شائع ہو چکی ہے ۔
مدیر
ترمیم1992 میں انھوں نے مستقبلکے نام سے ایک ادبی جریدے کا اجرا کیا جو ان کے گھریلو مسائل کی وجہ سے زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکا۔ 1998 میں ان کو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے رسالے ماہنامہ کتاب کی مدیر مقرر کیا گیا اور 1998 ہی میں انھوں نے ادبی مجلہ آثار کی ادارت سنبھالی اور پوری اردو دنیا میں اپنی ایک پہچان وشناخت قائم کی۔ وہ کئی برس سے معروف ادبی جریدے آثار کی مدیر ہیں۔ ثمینہ راجا کا اردو شاعرات میں وہی مقام ہے جو ن م راشد کا اردو شاعروں میں۔ راشد کو شاعروں کا شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی شاعری کے مضامین، اوران کا مخصوص مفرس اسلوب عوام کی ذہنی سطح سے کافی بلند ہونے کے سبب عوام میں وہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا جو عام فہم اسلوب کے حامل شعرا کو آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ثمینہ بھی کچے پکے نسوانی جذبات کی شاعری سے بہت بلند فضا میں پرواز کے سبب سنجیدہ قارئین تک ہی محدود رہیں۔ جناب احمد ندیم قاسمی اور جناب احمد فراز کے علاوہ بے شمار مشاہیر کی ان کے بارے میں آراء سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے منفرد موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے اردوزبان کے نہ صرف موجودہ موجودہ بلکہ آئندہ منظرنامے میں بھی نہایت اہم اور معتبر مقام رکھتی ہیں ۔
کلام
ترمیممیں تمھارے عکس کی آرزو میں بس آٰ ئینہ ہی بنی رہی
کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی
وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ہے
میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رھی
تنہا، سر انجمن کھڑی تھی
میں اپنے وصال سے بڑی تھی
اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر
پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی
اک عمر تلک سفر کیا تھا
منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی
طالب کوئی میری نفی کا تھا
اور شرط یہ موت سے کڑی تھی
وہ ایک ہواے ء تازہ میں تھا
میں خواب قدیم میں گڑی تھی
وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا
میں اپنے حضور میں کھڑی تھی
ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں،خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں
تاب، انجام محبت کی بھلا کیا لاتے
نا تواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں
اے ہوا! اور خزاؤں کے علاوہ کیا ہے؟
وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں
اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی
بیشتر، رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
کٹ کے وہ پر توہواؤں میں کہیں اڑ بھی گئے
دل یہیں حسرت پرواز میں رکھے ہوئے ہیں
زندگی آج طلب گار ہے کچھ لمحوں کی
جو کسی چشم پر اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں
ہم تو ہیں آب زر عشق سے لکھے ہوئے حرف
بیش قیمت ہیں،بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں
وفات
ترمیمانھوں نے 30 اکتوبر 2012 کو وفات پائی[4]۔
سوانح
ترمیمان کی حیات اور ادبی خدمات کے بارے میں محقق جناب محمد ثقلین ضیغم نے ایک اعلٰی تحقیقی ایم فل مقالہ تحریر کیا، جو کتابی صورت میں 2022ء کو شائع ہوا
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Poetess Samina Raja passes away — اخذ شدہ بتاریخ: 31 اکتوبر 2012
- ↑ وفیات پاکستانی اہل قلم خواتین از خالد مصطفی صفحہ 69
- ↑ Munnoo Bhai (4 مئی، 2003)۔ "The class issue"۔ Daily Times۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2012
- ↑ "Poet Samina Raja passes away"۔ Pakistan News Today۔ 31 اکتوبر 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2012