ابن عبد اللہ محمد بن سنان بن جابر الحرانی، البتانی کے نام سے مشہور ہیں، حران میں پیدا ہوئے اور عراق میں وفات پائی، ان کا زمانہ دوسری صدی ہجری کا آخری اور تیسری صدی ہجری کی شروعات کا زمانہ ہے، ان کا شمار دنیا کے عظیم ترین فلکی سائنسدانوں میں ہوتا ہے، اس کی وجہ ان کے وہ اہم نظریات ہیں جو انھوں نے اس میدان میں وضع کیے، اس کے علاوہ انھوں نے جبر، حساب اور مثلثات میں بھی کافی نظریات وضع کیے ہیں۔

جابر بن سنان بتانی
(عربی میں: أبو عبد الله محمد بن جابر بن سنان الحراني الصابي البتاني ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: أبو عبد الله محمد بن جابر بن سنان الحراني الصابي البتاني ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 858ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حران   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 929ء (70–71 سال)[1][2][3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سامراء   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش شام
عملی زندگی
پیشہ ریاضی دان ،  ماہر فلکیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [5]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلکیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر بطلیموس   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

البتانی کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے فلکیات اور ریاضی کو اکٹھا کیا اور اسے ایک ہی شعبہ تعلیم بنایا۔

’سورج کی حرکت سے ملنے والی معلومات کا مطالعہ کر کے انھیں معلوم ہوا کہ بطلیموس کی تحقیق میں غلطیاں تھیں اور اس طرح عربی ریاضی دانوں نے بطلیموس کے یونانی ورثے کو درست کیا۔‘

انھوں نے مثلیات یا ٹرگنومیٹری کے اصول بھی متعارف کرائے۔ اٹلی میں یونیورسٹی آف پادووا میں سائنس کی تاریخ کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک کتاب موجود ہے جو نکولس کوپرنیکس نے تحریر کی تھی۔

’اس کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس میں کوپرنیکس نے قدیم یونانی عقیدے کے برعکس دلیل دی کہ زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔‘

’کئی مؤرخ کوپر کو یورپ کے سائنسی انقلاب کا موجد کہتے ہیں۔‘ مگر کوپرنیکس نے بھی اپنی کتاب میں البتانی کا حوالہ دیا تھا۔

’یہ بڑی بات ہے کہ وہ نویں صدی کے ایک مسلمان کا حوالہ دیتے ہیں جنھوں نے انھیں اپنے مشاہدے سے متعلق کافی معلومات دی تھیں۔‘

البتانی شام میں اورفہ کے قریب 858 میں پیدا ہوئے اور ان کی موت 929 میں عراق میں ہوئی۔ ’کوپرنیکس نے سیاروں، سورج، چاند اور ستاروں کے وجود کو سمجھانے کے لیے البتانی کے مشاہدوں کو استعمال کیا۔‘


[6]آسمانی اجرام اور ستاروں کے میںلانکہ ان کے زمانے میں آج کے مقابلے میں رصد کے موجودتہے نہ ہونے کے برابر تھے اس کے باوجود انھوں نے جو ارصاد جمع کیے ہیں انھیں آج کے فلکیات دان حیرت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

فلک اور جغرافیہ پر ان کی بیش قیمت تصانیف ہیں، ان کے بنائے ہوئے فلکی ٹیبل اور زیچ قرونِ وسطی سے ہم تک پہنچنے والے درست ترین زیچ ہیں، کارلو نللینو کی تحقیق سے 1899 عیسوی کو سپین کی اسکوریل لائبریری میں محفوظ ان کی کتاب “الزیج الصابی للبتانی” شائع ہوئی جس میں ساٹھ سے زائد اہم فلکیات موضوعات زیرِ بحث لائے گئے ہیں جیسے فلکی دائرے کی تقسیم اور اس کے حصوں کو آپس میں ضرب اور تقسیم کرنا، رصد سے ستاروں کی حرکات معلوم کرنا اور ان کے مقامات بنانا وغیرہ۔۔ انھوں نے یونانیوں کے ہندسی طور پر حل کردہ بہت سارے مسائل کا درست ریاضیاتی حل دریافت کیا جیسے جبری طریقے سے زاویوں کی ویلیو معلوم کرنا۔

انھوں نے گرما اور سرما دونوں کی ویلیو درست کی اور دن کے نسبتی فلک سے فلکِ بروج (سورج کے گرد گھومنے کی نسبت سے زمین کا اپنے گرد چکر کا جھکاؤ) کی ویلیو متعین کی، انھوں نے دریافت کیا کہ یہ ویلیو 23 درجہ اور 35 منٹ ہے، آج جو درست ویلیو ہے وہ بھی 23 درجہ ہے۔۔!! یقیناً یہ ان کی اہم ترین فلکیاتی دریافتیں ہیں۔

انھوں نے سورج اور چاند کے خسوف کے بہت سارے حالات رصد کیے، البتانی نے شمسی سال کا طول ناپا اور اس کے قیاس میں صرف 2 منٹ 22 سیکنڈ کی غلطی کی۔۔!!

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب صفحہ: 78 — https://books.google.cat/books?id=VUWno1sOwnUC&pg=PA78
  2. ^ ا ب صفحہ: 38 — https://books.google.cat/books?id=N3l4Rngj4B0C&pg=PA38
  3. مصنف: اینڈریو بیل — عنوان : Encyclopædia Britannica — ناشر: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا انک. — https://books.google.cat/books?id=N3l4Rngj4B0C&pg=PA38
  4. ISBN 978-0-684-31559-1https://books.google.cat/books?id=N3l4Rngj4B0C&pg=PA38
  5. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb15506894j — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  6. "بی بی سی"