ملکی وے یا راہِ شِیر [18] یا جادۂ شیر[19] یا شارع ابیض[20](انگریزی: Milky Way) اس کہکشاں کا نام ہے جس میں ہماری زمین، سورج اور نظام شمسی واقع ہیں۔ اس کا قدیم نام جو عربی میں رائج رہا اور سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں بھی رائج تھا درب التبانہ تھا۔ اس کے بعد یورپیوں نے اسے اپنی مذہبی زبان لاطینی سے لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے Milky Way رکھا گیا۔ یہ کائنات میں واقع اربوں کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔ دوسری کہکشاؤں کی طرح ملکی وے میں بھی اربوں ستارے ہیں۔

ملکی وے کہکشاں
The Milky Way's Galactic Center in the
night sky above Paranal Observatory
(the laser creates a guide-star for the telescope).
Observation data
قسمSb, Sbc, or SB(rs)bc[1][2] (barred spiral galaxy)
قطر100–180 kly (31–55 kpc)[3]
پتلی stellar disk کی موٹائی≈2 kly (0.6 kpc)[4][5]
ستاروں کی تعداد200–400 بلین (3×1011 ±1×1011)[6][7][8]
Oldest known star≥13.7  Gyr [9]
کمیت0.8–1.5 × 1012 کمیت[10][11][12]
Angular momentum1×1067 J s[13]
Sun's distance to Galactic Center27.2 ± 1.1 kly (8.34 ± 0.34 kpc)[14]
Sun's کہکشانی سال240 Myr[15]
Spiral pattern rotation period220–360 Myr[16]
Bar pattern rotation period100–120 Myr[16]
Speed relative to CMB rest frame552 ± 6 km/s[17]
Escape velocity at Sun's position550 km/s[12]
Dark matter density at Sun's position0.0088سانچہ:Sup sub کمیتpc-3 or 0.35سانچہ:Sup sub GeV cm-3[12]
مزید دیکھیے: کہکشاں, کہکشاؤں کی فہرست

یہ کہکشاں چار چکردار بازوں پر مشتمل ہے۔ اس کہکشاں کا پھیلاؤ یا قٍطر تقریباً ایک لاکھ نوری سال ہے، جبکہ موٹائی ایک ہزّار نوری سال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے کہکشاں میں 200 سے 400 ارب ستارے ہیں۔

کہکشاں کے ستارے کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتے ہیں۔ ہمارا سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کے رفتار سے ایک چکر 24 کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔

تفصیل

ترمیم
 
A view of the Milky Way toward the constellation Sagittarius (including the Galactic Center) as seen from an area not polluted by light (the Black Rock Desert, Nevada)

ملکی وے کو ایک سفید پٹی کی شکل میں آسمان پر 30 ڈگری زاویہ پر دیکھا جا سکتا ہے۔[21] ہماری آنکھوں کو آسمان پر جتنے بھی ستارے نظر آتے ہیں، یہ سبھی اسی ملکی وے کہکشاں کا حصہ ہیں، [22] یہ نور یا روشنی کی پٹی، گیلاکٹک پیلن کے رخ میں موجود ستارے اور دوسرے فلکیاتی اجسام سے نکلنے والی روشنی ہے۔ اس پٹی میں موجود اندھیرے طبقے یا علاقے، مثلاً گریٹ رفٹ اور کولسیک، ایسے طبقے یا علاقہ جات ہیں، جہاں کی بین النجمی دھول (interstellar dust) اس روشنی کو روک لیتی ہے، جس کی وجہ سے تاریک علاقہ نظر آتا ہے۔ ایسے ہی علاقوں کو جو روشنی کو روک لیتے ہیں اور اندھیرا خطہ پیدا کرتے ہیں "زون آف اوائی ڈینس" کہتے ہیں۔ ملکی وے کی چمک بہ نسبت سطحی روشنی سے کم ہوتی ہے۔ اس مدھم روشنی کی وجہ، اس کے پس منظر کی روشنی اور نوری آلودگی یا پھر چاند سے دمک کی وجہ سے نکلنے والی روشنی ہے۔ اس ملکی وے کو نگاہوں سے دیکھنے کے لیے 20.2 میگنی ٹیوڈ ہر مربع آرک سکنڈ اندھیرا ہونا چاہیے۔[23] یہ تبھی نظر آسکتا ہے جب لمٹنگ میگنی ٹیوڈ تقریباً +5.1 یا پھر +6.1 ہو۔[24] شہروں میں اور نیم شہروں میں جلنے والی بتیاں کی روشنی میں اس کا دیکھنا تقریباً ناممکن ہے۔ جب کہ دیہاتوں اور گاؤں قصبوں میں جہاں روشنی کم ہوا کرتی ہے، یہاں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب چاند اپنی بالائی سے اندر رہتا ہے تب بھی اس ملکی وے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔[nb 1]

 
پیرال رصد گاہ چلی سے لی گئی تصویر۔ جس میں ملکی وے ایک کمانی شکل میں نظر آتا ہے۔ جسے فِش آئی لینس یعنی مچھلی کی آنکھ نما عدسے والے ٹیلی سکوپ سی لی گئی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Hartmut Frommert، Christine Kronberg (August 26, 2005)۔ "Classification of the Milky Way Galaxy"۔ SEDS۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2015 
  2. Shannon Hall (2015-05-04)۔ "Size of the Milky Way Upgraded, Solving Galaxy Puzzle"۔ Space.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جون 2015 
  3. ^ ا ب پ
  4. Igor Karachentsev۔ "Double Galaxies §7.1"۔ ned.ipac.caltech.edu۔ Izdatel'stvo Nauka۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2015 
  5. ^ ا ب
  6. اردو میں شِیر کا مطلب دودھ ہے جیسا کہ اس محاورے میں استعمال ہوا ہے: جوئے شیر لانے کے مترادف (مفہوم: بہت مشکل کام سر انجام دینا)۔ نوٹ: جوئے کامعنی نہر ہے۔
  7. اردو میں شِیر کا مطلب دودھ ہے جیسا کہ اس محاورے میں استعمال ہوا ہے: جوئے شیر لانے کے مترادف (مفہوم: بہت مشکل کام سر انجام دینا)۔جادہ کا مطلب پگڈنڈی یا دشوار راستہ ہے۔ نوٹ: جوئے کا مطلب نہر ہے نیز اس میں شِیر میں ش کے نیچے زیر ہے اور اسے یوں(sheer)پڑھا جائے گا۔
  8. ڈاکٹر مقبول احمد شاہد (2 اپریل 2021)۔ "قرآن میں سائنسی حقائق کا بیان -بتول جنوری ۲۰۲۱"۔ ماہنامہ بتول-زندگی بخش ادب کا ترجمان۔ ادارہ بتول۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2021 
  9. H. A. Rey (1976)۔ The Stars۔ Houghton Mifflin Harcourt۔ صفحہ: 145۔ ISBN 0395248302 
  10. Andrew Crumey (2014)۔ "Human contrast threshold and astronomical visibility"۔ Monthly Notices of the Royal Astronomical Society۔ 442: 2600–2619۔ Bibcode:2014MNRAS.442.2600C۔ ISSN 0035-8711۔ arXiv:1405.4209 ۔ doi:10.1093/mnras/stu992 

مزید پڑھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم