جام صادق علی پل
پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی علاقے کورنگی انڈسٹریل ایریا کو کراچی کے دوسرے حصوں سے ملانے والا اہم ترین پل ہے جو 1991 میں مکمل ہوا۔
محل و وقوع
ترمیمتقریبا 1 میل یا ایک اشاریہ چھہ کلومیٹر لمبا یہ پل بروکس چورنگی (سابقہ گودام چورنگی) سے مغرب کی سمت چند سو میٹر کے فاصلے سے شروع ہوجاتا ہے اور ملیر ندی کو عبور کرتا ہوا قیوم آباد چورنگی پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔۔
تعمیری پس منظر
ترمیم1990 تک ملیر ندی (جو لانڈھیکورنگی کو کراچی شہر کے دوسری علاقوں سے جدا کرتی ہے) میں ہر سال موسم برسات میں طغیانی کے باعث ہر قسم کی آمدرفت کئی کئی روز کے لیے معطل ہو جایا ہوجاتی تھی جس کے باعث نا صرف کورنگی صنعتی علاقے کی ہزاروں صنعتوں کا رابطہ شہر کی دوسری علاقوں بالخصوص کراچی بندرگاہ سے کٹ جایا کرتا تھا بلکہ لانڈہی کورنگی کے لاکھوں عوام (جن کی بھاری اکثریت اپنے روزگار کے سلسلے میں روزانہ شہر کے دوسرے علاقوں کا رخ کرتی ہے ) ان کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔۔ اس کے سدباب کے لیے اس وقت کی حکومت سندھ نے ملیر ندی پر اس پل کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ اس پل کی تعمیر تقریبا 3 سال میں مکمل ہوئی اور اس وقت کے وزیراعلی سندھ سید مظفرحسین شاہ نے اس کا باضابطہ افتتاح کیا۔ اس پل کو سابق وزیر اعلی سندھ جام صادق علی کے نام سے موسوم کیا گیا جن کے دورحکومت میں اس پل کی تعمیر شروع ہوئی تھی۔
اہمیت
ترمیمکراچی کی بندرگاہ کو کورنگی کے صنعتی علاقے سے ملانے والا اہم ترین راستہ ہے۔ موسم پرسات میں جب ملیر ندی میں طغیانی آجانے کے باعث کورنگی لانڈھی کا رابطہ شہر کے دوسرے حصوں سے منقطع ہوجاتا ہے تو لانڈھی کورنگی کے لاکھوں عوام کا دارومدار اس واحد راستے پر ہی ہوتا ہے
موجودہ حالت
ترمیماس پل کی موجودہ حالت نہایت ہی مخدوش ہو چکی ہے۔ آئے دن اس پر نئے نئے شگاف نمودار ہوتے رہتے ہیں اور یہ کئی کئی روز تک آمدرفت کے لیے بند رہتا ہے ۔[1] صنعتی علاقے کو جانے والا اکثر ٹریفک بھاری ٹرک اور ٹرالر پر مشتمل ہوتا ہے جس کے باعث اس پل کی سڑک بھی نہایت شکستہ ہو چکی ہے۔ شہری حکومت کی عدم توجہی کے باعث یہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ تعمیراتی ماہرین کے مطابق یہ پل اپنی مدت پوری کرچکا ہے اور اب اس کی ازسرنو تعمیر کی اشد ضرورت ہے۔ مختصرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب اس پل کو شہری حکومت کے بجائے محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہونا چاہیے۔