جرائم میں جنس کا فرق (انگریزی: Sex differences in crime) ان تمام فرق کے پہلوؤں کو کہا جاتا ہے جو جرم کے ارتکاب میں مردوں اور عورتوں کے بیچ دیکھنے میں آتے ہیں۔ یہ مطالعات جرمیات اور عمرانیات کے شعبے کا حصہ ہیں۔ ان مطالعات سے جرم کی انجام دہی میں جنسی پہلوؤں کا جائزہ لیاجاتا ہے۔ ان مطالعات کا کوئی راست یا ہر اعتبار سے قابل قبول نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے۔ تاہم اس کے باوجود جرم کی شماریات جنسی فروق کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ بنتی ہیں۔ ان فروق میں سماجی اور ثقافتی پہلو، غیر اندراج شدہ جرائم یا حیاتیاتی عوامل وغیرہ شامل ہے۔ جرم ہی کی نوعیت کا مطالعہ کرنا بھی دیگر عوامل سے ایک ہو سکتا ہے۔

1914ء کا ایک کارٹون جو یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہے کہ کس طرح کسی خاتون ملزم کے معاملے میں فیصلہ سازی میں مرد ججوں اور خاتون ججوں کا موقف مختلف ہو سکتا ہے۔

عمومی جائزہ

ترمیم

کئی مطالعات سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ جرم کے ارتکاب میں مرد عورتوں سے آگے ہوتے ہیں۔ یہ غالبًا اس وجہ سے ہے کہ مردوں کو جس طرح اور میدانوں پہل کرنے کی عادت ہے، اسی طرح سے وہ لوگ جرم اور سماجی انتشار کے معاملے میں بھی آگے رہتے ہیں۔ یہ بات کسی ایک ثقافت میں نہیں بلکہ ایک عمومی عالمی جائزے میں رو نما ہوئی ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکا میں دو ملین قید میں بند لوگوں میں 93% مرد ہیں۔ اس کے علاوہ سبھی گرفتاریوں میں 73% مرد رہے ہیں۔ جنسی جرائم کے معاملے بھی عمومًا مردوں کی تعداد 80% پائی گئی ہے۔ یہ شماریات کا سب سے تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ 90% معاملات میں جن میں قتل کا جائزہ لیا جاتا ہے، قاتل مرد ہی ہوتے ہیں۔[1]

تاہم کم ہی سہی، مگر دنیا کے ہر خطے میں عورتیں بھی جرم ارتکاب کرتی رہی ہیں۔ اسی وجہ سے خواتین کا ایک الگ پولیس دستہ اور خاتون مجرمین کے لیے الگ سے قید و بند کا انتظام کیا جاتا ہے۔ کئی قانونی نفاذ کی ایجنسیاں ان خواتین کو بھی عام خواتین کی طرح آگے کی زندگی گزارنے میں حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم