جرمن خسرہ (جرمن میزیلز German measels) ایک وائرس سے لگنے والی بیماری ہے جوکسی بھی عمر کے انسان کو لگ سکتی ہے۔ اسے رُبیلا (Rubella) بھی کہتے ہیں۔ عام طور پر یہ ایک معمولی بیماری ہے جو چند دنوں میں خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے۔ مگر اگر یہ کسی حاملہ عورت کو ہو جائے تو پیٹ میں موجود بچے کو سخت متاثر کرتی ہے۔ ایسے بچے حمل کے دوران ہی مر بھی سکتے ہیں یا پھر ایسے جسمانی اور ذہنی امراض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جن کا عمر بھر کوئی علاج ممکن نہیں ہوتا۔

جرمن خسرہ
تخصصInfectious diseases, neonatology تعديل على ويكي بيانات

پھیلاؤ ترمیم

یہ مرض کسی مریض کی کھانسی سے دوسرے انسانوں کو بھی لگ جاتا ہے۔ مریض بیمار ہونے سے پہلے، بیماری کے دوران اور بیماری سے صحتیاب ہونے کے کئی دنوں بعد بھی یہ وائرس دوسروں کو منتقل کرتا رہتا ہے۔

علامات ترمیم

مرض کی ابتدا میں بخار کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ گردن اور کہنی کے آس پاس ہلکی سی گٹھلیاں بن جاتی ہیں جو مدافعتی غدودوں (Lymph nodes) کے بڑھ جانے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ہلکا نزلہ اور کھانسی ہو جاتی ہے۔ دوسرے یا تیسرے دن چہرے پر ہلکے ہلکے سرخ دانے بننے لگتے ہیں۔ اگلے دن یہ دانے پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔ یہ دانے کھال کے اندر ہی ہوتے ہیں یعنی اُبھرے ہوئے نہیں ہوتے۔ خسرہ کے دانے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں مگر وہ ذرا بڑے اور زیادہ سرخ ہوتے ہیں۔ معمولی خارش بھی ہو سکتی ہے۔ تقریباً ایک ہفتے میں بچہ صحیح ہو جاتا ہے۔ جسے ایک دفعہ جرمن خسرہ ہو جائے اسے عام طور پر زندگی بھر دوبارہ جرمن خسرہ نہیں ہوتا۔ جوان مردوں اور عورتوں میں اس مرض کے دوران جوڑوں کا درد بھی ہو سکتا ہے۔

حاملہ خواتین ترمیم

زیادہ تر بیماریوں کے جراثیم ماں کے خون سے اس کے پیٹ میں موجود بچے تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ آنول نال (placenta) انھیں روکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر رُبیلا کا وائرس بچے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد یا تو حمل ضایع ہو جاتا ہے یا بچے پیدائیشی نقائص کے ساتھ جنم لیتے ہیں۔

حمل کے دوران متاثرہ بچے ترمیم

 
پیدائشی موتیا۔ جراحی سے ایسے بچوں کی بینائی بحال ہو جاتی ہے۔

ایسے بچے عام طور پر ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ وہ دیگر بچوں کے مقابلے میں دیر سے بولنا سیکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ دیر سے چلنا اور بیٹھنا سیکھتے ہیں۔ لگ بھگ دس فیصد بچے پیدائیشی گونگے بہرے ہوتے ہیں۔ ان میں پیدائیشی موتیا (cataract) ہوتا ہے۔ ان بچوں کا سر تھوڑا چھوٹا ہوتا ہے اور انھیں جھٹکے آتے رہتے ہیں جسے مرگی کہتے ہیں۔
ایسے بچوں میں دل کے پیدائیشی نقص ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں جیسے کہ دل میں سوراخ ہونا۔
ضروری نہیں کہ کسی متاثرہ بچے میں یہ سارے کے سارے نقائص موجود ہوں۔ یعنی کسی بچے کی آنکھ متاثر ہوتی ہے تو کسی کا کان اور کسی کا دل۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ جب ماں کو ربیلا ہوا تھا تو حمل کا کونسا مہینہ تھا۔ اگر حمل کے پہلے تین مہینوں میں ماں کو رُبیلا ہو جائے تو 90 فیصد بچوں میں کوئی نقص آ جاتا ہے۔ اگر حمل کے اگلے تین مہینوں میں رُبیلا ہو تو 55 فیصد بچے نقص والے ہوتے ہیں۔ اور اگر آخری تین مہینوں میں ماں کو رُبیلا ہو تو بچوں میں نقص کے امکانات کافی کم ہو جاتے ہیں۔

بچاؤ ترمیم

مردوں کو بظاہر کسی حفاظتی ٹیکے (ویکسین vaccine) کی ضرورت نہیں ہے لیکن رُبیلا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے لڑکوں کو بھی یہ ٹیکے لگانا ضروری ہے۔
لڑکیوں کو یہ ٹیکے اس لیے لگائے جاتے ہیں کیونکہ اس سے حاصل ہونے والی مدافعت عمر بھر رہتی ہے اور کئی سال بعد ہونے والے حمل میں بچے کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کا ٹیکہ زندگی میں صرف ایک بار لگتا ہے اور پانچ یا دس سال بعد دوبارہ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

رُبیلا کا ٹیکہ عام طور پر 15 مہینے سے کم عمر کے بچے کو نہیں لگایا جاتا۔ اس کے بعد کسی بھی عمر کے بچے یا بڑے کو لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن لڑکیوں کو بالغ ہونے سے پہلے ہی لگا دینا چاہیے تا کہ شادی کے بعد بچوں کو مکمل تحفظ مل سکے۔
کسی بھی خاتون کو حاملہ ہونے کی صورت میں رُبیلا کا ٹیکہ نہیں لگایا جاتا۔ اور جب کسی خاتون کو یہ ٹیکہ لگاتے ہیں تو یہ ہدایت بھی کی جاتی ہے کہ ایک مہینے تک حاملہ ہونے سے پرہیز کریں۔

ایم ایم آر ترمیم

MMR کا ٹیکہ تین بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے اور 15 مہینے سے زیادہ عمر کے بچوں یا بڑوں کو لگایا جاتا ہے۔ یہ بیماریاں خسرہ (measels), گلسوئے (mumps) اور جرمن خسرہ (رُبیلا rubella) ہیں۔

کیا ایم ایم آر سے آٹزم ہوجاتا ہے؟ ترمیم

autism ایک بیماری ہے جس میں بچہ ذہنی طور پر ہمیشہ کے لیے کمزور ہو جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر ایسے بے شمار صفحات موجود ہیں جو اس بات کی تصدیق یا تردید کرتے ہیں کہ ایم ایم آر سے آٹزم ہوجاتا ہے۔[1] شبہ کیا جاتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیٹا بیرون ٹرمپ بھی اسی وجہ سے آٹزم کا شکار ہو گیا ہے۔[2] 28 مارچ 2014ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا
“Healthy young child goes to the doctor, gets pumped with a massive shot of many vaccines, doesn’t feel good and changes – AUTISM. Many such cases!”[3]

تھیمیروسال ترمیم

70 سال سے زائد عرصے سے ویکسینوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان میں Thimerosal (ethylmercurithiosalicylic acid) ملایا جاتا ہے جو پارے پر مشتمل ایک مرکب ہے۔[4] پارے کے مرکبات صحت کے لیے سخت مضر ہیں۔
حال ہی میں آسٹریلیا کی حکومت نے قانون بنایا ہے کہ اگر طب سے تعلق رکھنے والے کسی فرد نے ویکسین پر تنقید کری تو اسے دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ [5]

اقتباس ترمیم

  • سوائین فلو کی ویکسین سے گُلیئن بیری سنڈروم (فالج) کا خدشہ 4 گنا بڑھ جاتا ہے
Unfortunately, the hastily developed and rushed-into-production swine flu vaccine was not only ineffective, it was dangerous. Approximately 50 people who received the vaccine subsequently contracted Guillain-Barré syndrome, a potentially fatal form of paralysis. According to an expert with the Centers for Disease Control, the incidence of Guillain-Barré was four times higher among those who received the swine flu vaccine than in the general population.[6]

ماضی کی ایک جھلک ترمیم

1929-1930ء میں جرمنی کے ایک شہر Lübeck میں 252 بچوں کو ٹی بی کے خلاف بی سی جی کی ویکسین لگائی گئی۔ ان میں سے 72 بچے ٹی بی سے مر گئے۔ کچھ اور بچے بھی متاثر ہوئے مگر وہ ٹھیک ہو گئے۔ بعد میں پتا چلا کہ غلطی سے ویکسین میں ٹی بی کے جراثیم داخل ہو گئے تھے۔[7]

مزید دیکھیے ترمیم

بیرونی ربط ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. The big vaccine conspiracy: Secret documents confirm vaccines cause autism
  2. Is Donald Trump's Son Autistic? Melania says "No".
  3. "Trump's Tragic Support of The Anti-Vaxxers"۔ 14 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2017 
  4. Mercury Exposure Increases Diabetes Risk
  5. "Health Freedom Is Being Destroyed All Over The Western World"۔ 28 ستمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2019 
  6. Next In COVID-19 Tyranny: Ron Paul Warns Of Forced Vaccinations & "Digital Certificates"
  7. "The History Of Vaccines"۔ 26 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2020