پروفیسر جمال الدین نقوی کا شمار پاکستان میں کمیونسٹ تحریک کے رہنما، انگریزی ادبیات کے استاد اور صاحب مطالعہ سیاسی مفکر ین میں ہوتا ہے ۔

پروفیسر جمال الدین نقوی
پیدائش1933 ء
الہ آباد، برطانوی ہندوستان
وفات3 اگست 2017ء

کراچی، پاکستان
قلمی نامجمال نقوی
پیشہتدریس
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمایم اے ، انگریزی ادب
مادر علمیکراچی یونیورسٹی
اصنافسیاست , تدریس

حالاتِ زندگی

ترمیم

جمال الدین نقوی 1933 میں انڈیا کے شہر الہ آباد میں پیداہوئے ۔۔۔[1] ان کے والد سید نہال الدین الہ آباد یونیورسٹی میں زوالوجی کے لیکچرر تھے۔ جمال نقوی پانط بھائیوں اور تین بہنوں میں سے پانچویں نمبر پر تھے۔ انھوں نے سی اے وی ہائی اسکول سے 1947 میں میٹرک کیا۔ گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج الہ آباد سے 1949 میں انٹر کرنے کے بعد الہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ تاہم اسی سال خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر آئے اور اسلامیہ کالج،گرومندر، کراچی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی جو کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیم تھی۔ وہ ایک فعال رکن تھے اور کالج کی اسٹوڈنٹ یونین کے صدر بھی رہے۔ 1952 میں انگریزی ادب میں آنرز کرنے کے بعد 1955 میں جامعہ کراچی سے ایم اے انگریزی کی سند حاصل کی ۔[2]1954 میں کمیونسٹ پارٹی کے رکن بنے۔ طلبہ تحریک کے عروج کے زمانے میں انھوں نے سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا اور جیل بھی کاٹی۔ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے دوران گیارہ ماہ جیل بھی کاٹی۔ رہائی کے بعد پھر سرگرم ہوئے۔ اسی دوران انگریزی اخبار پاکستان اسٹینڈرڈ میں انٹرن شپ کی۔ علاوہ ازیں ملٹری کور ایجوکیشن میں بھی اپلائی کیا۔ تدریس میں شغف کے باعث پہلے جناح کالج، کراچی اور جامعہ ڈگری کالج ،ملیر، کراچی میں پڑھایا۔ اس کے بعد سٹی کالج، حیدرآباد میں خدمات انجام دیں۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ تنظیم سے وابستگی اور سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ 1958 میں وہ کمیونسٹ پارٹی کی صوبائی کمیٹی کے رکن بنے۔ ان کے ذمہ بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کی سے روابط کی ذمہ داری تھی۔ 1960 کی دہائی میں جب کمیونسٹ پارٹی پر کریک ڈاؤن ہوا تو پروفیسر جمال نقوی انڈر گراونڈ چلے گئے۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی جب 1966 میں چین اور ماسکو کی حمایت میں نظریاتی طور پر تقسیم ہو گئی تو پروفیسر جمال نے نازش امروہی کے ساتھ مل کر ماسکو کی حمایت جاری رکھی۔1958 سے 1968 تک انھوں نے مشرقی پاکستان کے تقریباً چالیس دورے کیے۔1968 میں کراچی واپسی پر اردو کالج سے وابستہ ہوئے۔ 1972 میں وہ نیشنل عوامی پارٹی کے رکن بنے۔ 1993میں صدر شعبہِ انگریزی کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اس کے بعد جامعہ کراچی کے شعبہِ انگریزی میں کوآپریٹو ٹیچر کے طور پر 1999 تک پڑھایا ۔

جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں 1980 میں پروفیسر جمال نقوی کو گرفتار کیا گیا، اس وقت وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے قائم مقام سیکریٹری جنرل تھے۔ قید سے رہائی کے بعد بھی انھوں نے یہ کہہ کر پاکستان سے جانے سے انکار کر دیا کہ وہ ملک کے اندر سیاست کرنا چاہتے ہیں اور تشدد کی سیاست کے خلاف ہیں۔ پروفیسر جمال نقوی نے رہائی کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی

تصنیف

ترمیم

انھوں نے 2014 میں لیونگ دی لیفٹ بیہائینڈ (Leaving the Left Behind) کے نام سے کتاب تحریر کی جس سے انھوں نے اپنے سیاسی نظریے کو مسترد کیا۔[3]

وفات

ترمیم

ڈاکٹرجمال نقوی 3 اگست 2017 کو طویل علالت کے بعد انتقال فرما گئے۔ انھیں گذری قبرستان، کراچی میں سپردخاک کر دیا گیا ۔[4]

حوالہ جات

ترمیم