جنایت
جنایت کے معانی جرم، قصواور زیادتی ہیں۔
"ہر وہ فعل جو شرعاً حرام ہو جنایت کہلاتا ہے جبکہ اکثر علما کے نزدیک اس کا اطلاق صرف ان افعال پر ہوتا ہے جن سے انسانی اعضاءیا جان تلف ہوتی ہے مثلا قتل یا زخمی کرنا وغیرہ بعض فقہاء صرف حدود اور قصاص والے جرائم پر ہی جنایت کا اطلاق کرتے ہیں"[1]
فقہا کی اصطلاح میں دم جنایت کہا جاتا ہے اس میں بھی کچھ تفصیل ہے، بعض ممنوعات کے کرلینے سے گائے یا اونٹ ہی کی قربانی دینا ضروری ہوتا ہے اور بعض کے لیے بکرے دنبے کی کافی ہوتی ہے بعض میں دم واجب نہیں ہوتا صرف صدقہ دینا کافی ہوتا ہے[2]
یعنی اگر حالت احرام میں کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں درد یا سر میں زخم ہو تو اس کو بضرورت حالت احرام میں حجامت کرنا سر کا جائز ہے مگر بدلا دینا پڑے گا۔ تین روزے یا چھ محتاجوں کو کھانا کھلانا یا ایک دنبے یا بکرے کی قربانی کرنا۔ یہ دم جنایت ہے کہ حالت احرام میں بضرورت مرض ناچار ہو کر امور مخالف احرام کرنے پڑے۔[3]
عمر بن احوص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں فرمایا خبردار! کہ جنایت کرنے والے کا وبال اس کی ذات پر ہوگا، باپ کی جنایت کا مؤاخذہ بیٹے سے اور بیٹے کا مؤاخذہ باپ سے نہ ہوگا۔[4]
علامہ فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ
"دراصل جنایات ( جرائم، قصور، زیادتیاں) پانچ ہی قسم کی ہیں،
- پہلی نسب پر جنایت ہے، اس کا سبب زنا ( اور اس سے ملتی جلتی چیزیں) ہے۔ ’’ الْفَوَاحِشَ‘‘ سے یہی مراد ہے۔
- دوسری عقل پر جنایت جس کے دوسرے معنی شراب نوشی کے ہیں اور ’’َالْاِثْمَ‘‘ میں اس کی طرف اشارہ ہے۔
- تیسری عزت پر جنایت،
- چوتھی جان و مال پر جنایت اور ’’َالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ‘‘ میں ان دونوں کی حرمت کی طرف اشارہ ہے۔
- پانچویں دین پر جنایت
- اور یہ دو قسم کی ہے :
- 1 توحید میں طعن کرنا جس کی طرف ( وَاَنْ تُشْرِكُوْا باللّٰهِ) سے اشارہ فرمایا ہے۔
- 2. اور بغیر علم کے اللہ کے ذمے بات لگانا اور فتویٰ دینا جس کی طرف (َّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ) سے اشارہ فرمایا ہے۔
غرض کہ تمام جرائم اور جنایات میں یہ پانچ اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور باقی ان کی شاخیں اور ان کے تحت آنے والی چیزیں ہیں، [5]