مذہب کی طرف سے انسانی زندگی کی فلاح و بہبود کے لیے بعض حد بندیوں کا نام ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے حدود اللہ کے بنیادی ارکان یہ ہیں۔

ایمان لانا اور نیک کام کرنا

2۔ ایمان میں اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد رسول اللہ کی رسالت کا ماننا۔

3۔ نیک کاموں میں نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور وہ سب احکامِ ربانی شامل ہیں جو بنی نوع سے معاملے کے سلسلے میں قرآن مجید کے ذریعے مسلمانوں کو دیے گئے ہیں۔ جو لوگ حدود اللہ سے تجاوز کرتے ہیں انھیں ظالم قرار دیا گیا ہے۔

4. ’’حدود‘‘،’’حد‘‘کی جمع ہے اور ’’حد‘‘کے معنی بازرکھنے کے ہوتے ہیں،شرعی اعتبارسے ’’حدود‘‘ان مقررہ سزاؤں کو کہاجاتاہے جواللہ تعالیٰ کے حق کے واسطے متعین ہوںاور ان میں ترمیم یاتبدیلی کاکسی کو حق حاصل نہیں۔شریعت میں پانچ جرائم کی حدودمقرر ہیں: (1)ڈاکہ(2)چوری(3)زنا(4)تہمت زنا(5)شراب نوشی : ان پانچ جرائم کی سزاؤں کو حدود کہاجاتاہے۔ان میں پہلی چارسزائیں قرآن کریم سے اورشراب نوشی کی سزا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ثابت ہے۔

حدود کامقصود یہ ہے کہ مجرم کو تنبیہ ہو اور وہ جرم سے بازآئے،مخلوقِ خدابھی ضرراورنقصان سے محفوظ ومامون ہو اوراسلامی مملکت بھی فسادسے محفوظ رہے۔ حدود کا ثبوت چاروں شرعی دلائل سے ہے ،تفصیل کے لیے متعلقہ کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 143803200030 : دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

یاد داشت : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی بھی ایک حد ہے، ہر وہ جرم و خطا جس کی دنیاوی و اُخروی سزا مقرر ہے، اسے حدود اللہ کہا جا سکتا ہے، حدود کی حفاظت کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے۔

وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿النساء: ١٤﴾ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے (4: 14)