حاجی صاحب ترنگزئی جن کا اصلی نام سید فضل واحد تھا، ایک پشتون مجاھد اور سلسلہ قادریہ کا ایک عظیم روحانی صوفی بزرگ شخصیت تھے اور آزادی کے لیے جہاد کرنے والے مجاہد تھے۔ وہ ایک شریف سیّد گھرانے میں 1846 ء میں ترنگزئی کے مقام پر پیدا ہوئے جو پاکستان کے خیبر پختونخوا صوبے کے ضلع چارسدہ میں ایک مشہور گاؤں ہے۔

حاجی صاحب ترنگزئی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1858ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع چارسدہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 14 دسمبر 1937ء (78–79 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سماجی کارکن ،  حریت پسند   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

دینی اور روحانی تعلیم

ترمیم

ان کے والد محترم کا نام فضل احد تھا۔ اپنی بنیادی دینی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کرنے کے بعد حاجی صاحب ترنگزئی نے اور دینی تعلیم اور روحانی تعلیم کے لیے افغانستان چلے گئے اور دینی روحانی تعلیم وہاں غوث زمان مجاہد حضرت نجم الدین صاحب مبارک ہڈے باباجی صاحب رح سے حاصل کی باباجی صاحب رح کے حکم پر انھوں نے شمس المشائخ حضرت صوفی عالم گل صاحب رح سے بیعت تازہ کی جو حضرت نجم الدین صاحب رح کے خلیفہ خاص تھے پھر حضرت صوفی عالم گل صاحب رح نے سلسلہ قادریہ میں خلافت دی۔باباجی صاحب رح کے حکم پر برطانوی فوج کے خلاف جہاد میں مشغول ہو گئے اور ہندوستان جاکر وہاں کچھ علما سے انگریز کے خلاف جہاد کرنے کے لیے حمایت طلب کی بعض علما نے حمایت کی. حاجی صاحب ترنگزئی نے جہاد کے ساتھ ساتھ روحانیت پر بہت کام کیا انھوں نے سلسلہ قادریہ میں کثیر تعداد میں لوگوں کو بیعت دی اور ان کی روحانی تربیت کی مشہور خلفاء"مجاہد حضرت سید محمد اعظم باباجی صاحب (جو باباجی صاحب رح کے بھتیجے تھے) اور مجاہد کشمیر عاشق رسول الحاج محمد امین باباجی صاحب رح،حضرت پیر محمد سرگند خان رح ،حضرت علامہ سید محمد شیریں قادری رح ،حضرت پیر الحمدللہ صاحب ،حضرت پیر حافظ محمد اسماعیل قادری صاحب ،جناب فردوس خان صاحب ،علامہ ڈاکٹر شفیق امینی ،مولانا شہزاد صاحب ،کثیر تعداد میں ان کے معتقدین پاکستان باہر دنیا میں پائے جاتے ہیں[1]

برطانیہ کے خلاف معرکہ

ترمیم

ہندوستان سے واپسی پر انھوں نے برطانیہ کے خلاف 1897 ء میں سرحدی جھاد میں حصہ لیا جو برطانوی سرکار کے خلاف صوبہ سرحد کے قبائل کا جھاد تھا۔ یہ جھاد آخر کار کامیاب نہ رہا اور حاجی صاحب ایک بار پھر حج کے لیے چلے گئے۔ واپسی پر وہ زیادہ تر روحانیت اور جہاد کی ترغیب اور خاص طور پر تعلیم و تعلم میں مصروف رہے۔اسی دوران حاجی صاحب اورپیر مولانا دوست محمد بارکزئی صوابی حاض انھوں نے خان عبدالغفار خان کے ساتھ گاؤں گاؤں پھرنا شروع کیا۔ یہ تحریک کارگر ثابت ہوئی اور پانچ سال میں تقریباً 120 درسگاہیں قائم ہوئیں۔

گرفتاری اور معرکے

ترمیم

اس پر حکومت برطانیہ نے منفی رد عمل ظاہر کیا اور حاجی صاحب اور عبد الغفار خان پر برطانویوں کے مساوی ایک اور حکومت چلانے کا الزام لگایا۔ برطانویوں نے انھیں گرفتار کیا اور ان پر مقدمہ چلایا۔ ان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا مگر ان کے پیروکاروں اور مریدوں کو تین تین سال تک قید کی سزا سنائی گئی۔

1913 ء میں سر صاحبزادہ عبد القیوم خان نے حاجی صاحب کو دار العلوم اسلامیہ پشاور(اسلامیہ کالج) کے سنگ بنیاد رکھنے کے لیے چنا۔ جون 1915 ء میں برطانیہ سرکار نے ان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔انھوں نے پشاور چھوڑا اور اپنے بیٹوں اور بھروسا مند ساتھیوں اور مریدوں کے ساتھ مھمند کے علاقے روانہ ہو گئے۔ مھمند پہنچنے کے چند دنوں کے بعد ہی انھوں نے سمرقند سے آئے کچھ مجاہدین کے ساتھ مل کر قریبی علاقوں میں موجود برطانوی فوج پر حملے شروع کر دئے۔

سمرقند کے مجاھدین امیر نعمت اللہ خان پیر مولانا دوست محمد بارکزئی صوابی حاض کی قیادت میں تھے۔ اگست 1915 ء میں انھوں نے مردان کے علاقے رستم میں برطانوی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا۔ برطانوی فوج نے پھر بھر پور قوت سے حملہ کیا مگر وہ برے طرح ناکام ہو گئے اور آخر کار انھوں نے شکست تسلیم کرلی

1923 ء میں برطانویوں نے مھمند کے علاقے میں اس مقابلے کو ختم کرنے کے لیے سپاہی بھیجے۔ مگر اس بار کسی خون خرابے کے بغیر انھوں نے ایک معاہدہ کیا جس کے بعد برطانویوں نے اپنے سپاہی واپس کر لیے۔ یہ ایک عظیم فتح تھی جس کے بعد باباجی صاحب مھمند کے علاقے لکڑو میں ہی قیام پزیر ہو گئے اور اللہ تعالی کی ذکر میں مشغول ہو گئے

وفات

ترمیم

1936 ء میں حاجی صاحب بہت زیادہ بیمار ہو گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ بیماری بڑھتی گئی اور آخر کار 14 دسمبر 1937 ء کو 81 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

انکا مزار مقامی لوگوں اور ان کے عقیدت مندوں اور مریدوں کے لیے ایک مقدس زیارت بن گیا ہے۔ آج بھی باباجی صاحب رح کے روحانی فیض سے کثیر تعداد میں عقیدت مند فیض پا رہے ہیں ان کے بچوں نے اپنے والد کی قبر کے ساتھ 1979 ء میں ایک مسجد بنانی شروع کی جو 1990 ء میں مکمل ہوئی۔ یہ مسجد ترنگزئی بابا جی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. گلستان ناجیہ،سلسلہ قادریہ