حَجی (عبرانی:חַגַּי بہ معنی «جشن») عہد عتیق انجیل کے بارہ انبیائے صغیر میں سے ایک نبی اور کتاب حجی کے مصنف جو یہودی مذہبی جشن فسح کے روز پیدا ہوئے۔[1] انھوں نے ہیکل سلیمانی کو اجڑتے دیکھا[2] اور بابل کی جلاوطنی سے واپس آنے والوں کو زکریاہ کے ہمراہ ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر پر مائل کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی۔[3] ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو سے سامریوں اور حتیوں کو شدید غصہ آیا یہاں تک کہ وہ یہودیوں ہی کے خلاف ہو گئے۔ جس وقت سرزمین فرات کے حاکم اور اس کے کارندے اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح ہیکل سلیمانی کی تعمیر و تزئین میں رخنہ ڈال کر اس عمل کو روک دیں اس وقت داریوش نے یہودیوں کی حمایت کردی۔[4] حجی کا پیغام داریوش اعظم کے عہد کے دوسرے سال شوش تک پہنچا، اس کا پہلا پیغام چھٹے مہینے کے پہلے دن اور آخری پیغام نویں مہینے کے چوبیسویں دن پھیلایا گیا۔[5] حجی ہگمتانہ (ہمدان) میں فوت ہوئے اور وہیں سپرد خاک کیے گئے۔ ان کا دن آرمینیائی انجیلی کلیسیا میں 30 جون اور مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا میں 16 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔

حجی
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 6ویں صدی ق م  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ نبی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عبرانی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عبرانی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حجی کی پیشگوئیاں

ترمیم
 
حجی (واٹر کل 1896ء–1902ء از مصور James Tissot)

حجی نے 520 قبل دور عام میں یروشلم میں پیشگوئی کی تھی ان لوگوں کے بارے میں جنہیں ہیکل کی تعمیر مکمل کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی۔ نئے ہیکل کی سج دھج کو پرانے ہیکل کی شان و شوکت سے بڑھانا ہوگا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اگر یہ ہیکل تعمیر نہ کیا گیا تو یہودی قوم پر فقر، خشک سالی اور قحط جیسی آفات نازل ہو جائیں گی۔

اس بارے میں اختلافات ہیں کہ حجی کی تحریروں میں تدوین و ترمیم کس نے کی، کچھ دانشور اس کام کو اس کے شاگردوں سے منسوب کرتے ہیں۔ تاہم یہودیوں کا یقین ہے کہ یہ ترامیم و تدوین مجلس عظیم کے نمائندوں کا کام ہے۔ مجلس عظیم کے نمائندوں کو روایتی طور پر عزرا اور نحمیاہ کے کام کو جاری رکھنے والوں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔[6]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. حجی 3: 8
  2. حجی 2: 3
  3. عزرا 6: 14؛ 15: 2
  4. عزرا 5: 3؛ 6: 6
  5. حجی 1: 1؛ 1: 2؛ 10: 11
  6. Lawrence Schiffman۔ Judaism in the Persian Period۔ صفحہ: 53–54