حجیانی خدیجہ بائی گرلس ہائی اسکول
شہر کامٹی میں مسلم لڑکیوں کے لیے ایک علیحٰدہ اسکول کے قیام کا خواب ١٩٦٢ء میں شرمندۂ تعبیر ہوا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ماحول کے پیش نظر لڑکیوں میں ذوق ِ علم علم حصول بڑھ رہا تھا، مگر معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ ١٠ سال کی عمر کے بعد لڑکیاں مخلوط تعلیم حاصل کریں۔ لہٰذا محبّانِ قوم کی روحیں بیدار ہوئیں اور انھوں نے تعلیم نسواں کے لیے ایک اسکول کے قیام کے لیے ہاتھ پیر مارنے شروع کیے۔ ان کی جدوجہد نے پہلی ہی منزل میں دم توڑ دیا لیکن جہد مسلسل رنگ لائی۔ رفتہ رفتہ ہائی اسکول کے اسٹیج پر بچیوں کے لیے علیحٰدہ اسکول کی ضرورت سرپرستوں کو بھی محسوس ہونے لگی۔ بس پھر کیا تھا ہمدردان ِ قوم و ملّت بچیوں کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے کمربستہ ہو گئے اور ختیجہ بائی ٹرسٹ کے وسیع القلب اور ہمدرد ِ ملّت جناب سیٹھ جوسب غنی ماکڑا صاحب کے سامنے اپنا مدّعارکھا۔ کہتے ہیں جذبۂ صادق جستجو ئے حقیقی کو راستہ دکھاتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوا جناب حاجی سیٹھ جوسب غنی ماکڑا صاحب نے چند شرائط پر گرلس اسکول کے قیام کی رضامندی دے دی۔ شرط یہ بھی کہ اسکول کا نام ختیجہ بائی گرلس اسکول رہے گا اور ٹرسٹ ٥٠٠ روپے ماہانہ دیا کرے گا ۔
نوشابہ قریشی | |
پرنسپل | شبنم واجدہ |
---|---|
مقام | کامٹی، ، بھارت |
تاریخ
ترمیماسکول کی ابتدا انجمن غنچۂ اسلام لائبریری کی مختصر سی عمارت میں کی گئی۔ یہ عمارت ٢٠ x ٢٨ فٹ کی تھی۔ اس میں کچھ ضروری تبدیلیاں کر کے اسکول کے لائق بنایا گیا۔ اب چار جماعتوں، ہیڈ مسٹریس کا آفس اور اسٹاف روم پر مشتمل یہ عمارت تیار ہو گئی۔ ٩ ؍جولائی ١٩٦٢ء کا دن نہایت مبارک ثابت ہوا۔ ایم ایم ربانی اسکول کی پانچویں سے آٹھویں جماعت کے تمام طالبات کا ختیجہ بائی اسکول میں تبادلہ کر دیا گیا۔ اس وقت کل ٧٥ طالبات تھیں اور ہیڈ مسٹریس سمیت ٥ معلمات تھیں۔ الحمد للہ آج طالبات کی تعداد ١٥٠٠ ہے اور ہیڈ مسٹریس سمیت تدریسی وغیرہ تدریسی عملوں کی تعداد ٥٠ ہے ۔