حدیث سفینہ
سفینہ کی حدیث ان احادیث میں سے ہے جو مستند شیعہ اور سنی منابع میں نقل ہوئی ہیں اور شیعہ اسے اپنے جواز کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ [1]
یہ حدیث شیعہ احادیث کی کتابوں میں مختلف طریقوں سے نقل ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی میں ابوذر غفاری کی یہ روایت نقل کی ہے:
... ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں: إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَیتِی فِیکُمْ کَمَثَلِ سَفِینَةِ نُوحٍ، مَنْ دَخَلَهَا نَجَی، وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ تم میں میرے اہل و عیال کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس کشتی میں داخل ہو گا وہ نجات پائے گا اور جو اس میں سوار نہیں ہوا اور اس سے دوری کرے گا وہ غرق ہو کر ہلاک ہو جائے گا۔
سند حدیث
ترمیمسنی علما اور راویوں کی ایک جماعت نے اس حدیث کو آٹھ صحابہ سے نقل کیا ہے، جو یہ ہیں: علی ابن ابی طالب، عبد اللہ ابن زبیر، ابن عباس، ابوذر غفاری، ابو سعید خدری، انس بن مالک، سلمہ بن اکوع اور ابو طفیل۔ عامر بن واثلہ۔ [2]
اہمیت
ترمیمیہ حدیث صرف اہل بیت کی پیروی اور ان کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔ ابن حجر الہیثمی کتاب الصواعق المحرقہ میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی مخالفت کرنے والا نجات پائے گا اور جو اس سے تجاوز کرے گا وہ کفر کے سمندر میں ڈوب جائے گا اور نافرمانی میں ہلاک ہو جائے گا۔ . » [3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ رضایی، غلامرضا (زمستان 1391). «پژوهشی در حدیث سفینه». فصلنامه کلام اسلامی. 21 (84): 95-128. دریافتشده در ۰۹/۱۷/۲۰۱۳. تاریخ وارد شده در
|تاریخ بازبینی=
را بررسی کنید (کمک) - ↑ صبر الرحمه، حکمت جارح (4). «حدیث سفینه در کتاب های اهل سنت». علوم حدیث (4): 99. دریافتشده در 29 فروردین 1401. تاریخ وارد شده در
|سال=
را بررسی کنید (کمک) - ↑ صبر الرحمه، حکمت جارح (4). «حدیث سفینه در کتاب های اهل سنت». علوم حدیث (4): 129. دریافتشده در 29 فروردین 1401. تاریخ وارد شده در
|سال=
را بررسی کنید (کمک)