اہلسنت و الجماعت (أهل السنة والجماعة) مسلمانوں میں پیدا ہو جانے والے دو بڑے فرقوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں سنی مکتب فکر بھی کہا جاتا ہے۔[1] مسلمانوں کی اکثریت اسی فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔

اہلسنت و الجماعت
اہل سنت کے رہنماؤں کا خطاطی نام
اہل سنت کے رہنماؤں کا خطاطی نام
اہل سنت کے رہنماؤں کا خطاطی نام

مذہب اسلام
رہنما محمد رسول اللہ
فرقے نظریاتی: (اثریہ)، اشاعرہ، ماتریدیہ۔ فقہیاً: حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنبلی، ظاہری عباسیت (فقہ عباسیہ، عباسی)
مقدس مقامات مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ۔
پیروکاروں کی تعداد 1،4 بلین (2009ء)
دنیا میں  عالم اسلام

اہل سنت وہ لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت پر ایمان رکھتے ہیں، تمام صحابہ کرام کو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب صحابی بالخصوص خلفائے راشدین برحق ہیں اور ان کا زمانہ ملت اسلامیہ کا بہترین اور درخشاں دور ہے۔ ان کے نزدیک خلافت پر کوئی بھی مومن فائز ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ ان کے نزدیک خلیفہ جمہور کی رائے سے منتخب ہونا چاہیے۔ وہ خدا کی طرف سے مامور نہیں ہوتا، وہ خلافت کے موروثی نظریے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ابوبکر صدیق صحابہ میں فضیلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور پھر خلافت کی ترتیب سے حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی بن ابی طالب۔

خاندان اہل بیت کو بھی سنی بڑی احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سنی عقیدہ کے مطابق سوائے پیغمبروں کے کوئی انسان معصوم نہیں۔ اہل سنت مکتب فکر مذہب میں اعتدال اور میانہ روی پر زور دیتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں بالعموم چار فقہ شافعی، مالکی، حنفی اور حنبلی رائج ہیں۔

وجہ تسمیہ

جیسا کہ ابتدائیہ میں مذکور ہوا کہ اہل السنت و الجماعت ہر ان تمام افراد کو کہا جاتا ہے کہ جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوں اور صحابہ کرام کا احترام کرتے ہوں۔ اس نام کی وجہ تسمیہ ان کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ اہل سنت کہنے کی وجہ تو یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو سنت پر چلنے والا مانتے ہیں اور جماعت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جو حق (سچائی) پر جمع ہوئے اور تفرقات میں نہیں پڑے۔

سنی فرقے کی ابتدا

آج اکیسویں صدی کی ابتدا پر مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی ابتدا ہوئے قریب قریب 1400 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔۔[2] 632ء میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے شروع ہونے والی مسلمانوں کی تفرقہ بازی کی اس داستان کو اگر پیچیدہ تاریخی و معاشرتی وجوہات و واقعات کی طوالت سے صرف نظر کرتے ہوئے مختصر بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان میں أهل السنة والجماعة یعنی سنی اور الشيعة الامامية الاثنا العشرية یعنی شیعہ تفرقے کی تشکیل کا آغاز نفسیاتی طور پر، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین اور امت کے لیے خلیفہ کا تعین کرنے کے وقت سے ہو چکا تھا۔ اس انتخاب پر جن لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی جانشین کی جانب اشارہ نہیں کیا اس لیے جو بھی متقی اور کامل مومن ہو وہ خلیفہ بن سکتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک ساتھی اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والے ابو بکر کے حق میں فیصلہ ہوا اور 632ء تا 634ء کی مدت کے لیے وہ خلیفہ رہے، اسی عمل پیرا ہونے والوں کی نسبت سے اس گروہ یا تفرقے کو اہل السنۃ یا سنی کہا گیا۔
اس وقت کچھ لوگوں کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعد علی بن ابی طالب کی ولایت کا بار ہا اعلان کیا تھا اور امامت خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے۔ پھر عمر کا انتخاب بطور خلیفۂ دوم (634ء تا 644ء) کر لیا گیا اور علی بن ابی طالب کی حمایت کرنے والے افراد کی نفسیات میں وہ حمایت اور شدت اختیار کر گئی، اگر تفصیل سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ وہ عرصہ تھا کہ گو ابھی شیعہ و سنی تفرقے بازی کھل کر تو سامنے نہیں آئی تھی لیکن تیسرے خلیفہ عثمان کے انتخاب (644ء تا 656ء) پر بہرحال ایک جماعت اپنی وضع قطع اختیار کر چکی تھی جس کا خیال تھا کہ چونکہ علی بن ابی طالب، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصلی جانشین تھے لہذا ان کو ناانصافی کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس جماعت سے ہی اس تفرقے نے جنم لیا جسے شيعة علی اور مختصراً شیعہ کہا جاتا ہے۔ === خلافت راشدہ کا اختتام ===حئثیح کوئی ساتویں صدی کے میان سے امت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایک پرتشدد اور افراتفری کا دور شروع ہوا جس کی شدت و تمازت عثمان کی شہادت پر اپنے عروج پر پہنچی؛ اب خلافت راشدہ کا اختتام قریب قریب تھا کہ جب علی بن ابی طالب خلیفہ کے منصب پر آئے (656ء تا 661ء)۔ لوگ فتنۂ مقتلِ عثمان پر نالاں تھے اور علی بن ابی طالب پر شدید دباؤ ان کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ڈال رہے تھے جس میں ناکامی کا ایک خمیازہ امت کو 656ء کے اواخر میں جنگ جمل کی صورت میں دیکھا نصیب ہوا؛ پھر عائشہ کے حامیوں کی شکست کے بعد دمشق کے حاکم امیر معاویہ نے علی بن ابی طالب کی بیعت سے انکار اور عثمان کے قصاص کا مطالبہ کر دیا، فیصلے کے لیے میدان جنگ چنا گیا اور 657ء میں جنگ صفین کا واقعہ ہوا جس میں علی بن ابی طالب کو فتح نہیں ہوئی۔ معاویہ کی حاکمیت مصر، حجاز اور یمن کے علاقوں پر قائم ہو گئی۔ 661ء میں عبد الرحمن بن ملجم کی تلوار سے حملے میں علی بن ابی طالب شہید ہوئے۔ یہاں سے، علی بن ابی طالب کے حامیوں اور ابتدائیییی سنی تاریخدانوں کے مطابق، حسن ابن علی کا عہد شروع ہوا۔

حوالہ جات

  1. ایک آن لائن اردو لغت میں لفظ سنی اور بطور اس کے مترادف، اہلسنت و الجماعت کا اندراج۔
  2. Islam's Sunni-Shiite split. Dan Murphy