حسن ناصر شہید
پاکستان میں بہتر اور عوام دوست معاشرے کے قیام کا خواب دیکھنے والا اور اسی راہ میں شہید ہونے والا نوجوان۔ وہ حیدر آباد دکن کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سینئر کیمرج حیدرآباد سے کیا اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ چلے آئے۔ 1946ءکی مشہور ” تلنگانہ تحریک“ میں حصہ لیا۔ اور یوں کمیونسٹ پارٹی اور کمیونسٹ تحریک سے ان کی ہم خیالی پیدا ہوئی اور رابطہ بھی۔
1947ءمیں تقسیم ہند کے بعد کراچی چلے آئے اور یہاں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہو ئے اور سندھ کے بے زمین ہاریوں کی تحریک میں شامل ہو گئے اور کمیونسٹ پارٹی کی تنظیمی ذمہ داریاں بھی سنبھال لیں۔1951ءمیں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے۔ 1952ءمیں رہا ہوئے۔ 1954ءمیں پھر گرفتار ہوئے۔1955ءمیں ایک سال کے لیے ملک بدر کر دیا گیا۔ 1956ءمیں جلا وطنی کی مدت ختم ہوتے ہی پاکستان واپس آ گئے اور ”نیشنل عوامی پارٹی“ کی سیاست میں حصہ لینے لگے اور ساتھ ہی کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے مزدوروں اور کسانوں کی تنظیم کاری کی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے رہے۔ 1958ءمیں مارشل لاءکے تحت پکڑ دھکڑ اور جبر و تشدد کابھر پور دور شروع ہوا توحسن ناصر روپوش ہو گئے لیکن13 جولائی 1960ءکو مخبری پر گرفتار ہوئے۔ ستمبر1960ءمیں انھیں ایک خصوصی حکم کے تحت لاہور کے شاہی قلعہ میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں ان پر شدید ترین جسمانی تشدد کیا گیا، ہر ممکن جبر و تشدد، برہنہ درندگی اور انسانیت سوز سلوک کے باوجود حسن ناصر کو سرنگوں نہ کیا جا سکا۔ وہ محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کی راہنمائی اور وکالت سے باز نہ آئے۔ چنانچہ 13نومبر1960ءکو انھیں انتہائی بیدردی سے شہید کر دیا گیا۔