حلول

ایک فلسفیانہ اصطلاح

حلول ایک فلسفیانہ اصطلاح ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھیلا کرنا، کھولنا، نازل ہونا کے ہیں لیکن اسلامی علوم اور فلسفے میں اس کے معنی ذرا مختلف ہیں۔ فلسفے میں اس سے مراد روح اور بدن کا حقیقی اتحاد یعنی حلول الروح فی البدن ہے۔ تصوف میں روح کا کسی اور جسم یا مخلوق میں سما جانا حلول کہلاتا ہے۔صوفیا کے بعض فرقے پرتو خدا کے بندگان مقرب میں حلول کے بھی قائل ہیں۔

مختلف علما نے اس کی الگ الگ تعریفیں کی ہیں علما کے ایک گروہ کے نزدیک کا حلول ایک چیز کا کسی دوسری چیز سے اس انداز میں گھل مل جانا کہ اگر ہم ایک چیز کی جانب اشارہ کریں تو دوسری شے کی طرف خود بخود اشارہ ہوجائے ۔ یہ عمل ایک تو حقیقی ہو سکتا ہے جیسے پودوں میں پانی سرایت کر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ استعارةً بھی یہ عمل ہو سکتا ہے۔ بعض علما اس کی توضیح اس طرح کرتے ہیں کہ ایک چیز دوسری چیز میں اس طرح رچ بس جائے کہ اس کا اپنا وجود بالکل ختم ہوجائے اور پہلی چیز دوسری چیز کا لازمی حصہ بن جائے۔

اقسام حلول

ترمیم

علما نے حلول کی چار قسمیں بیان کی ہیں :۔

  1. حلول الوصفی ، جیسے کسی جسم میں سفیدی یا سیاہی کا حلول۔
  2. حلول الجواری ۔ یعنی ایک جسم کا دوسرے کے لیے برتن کی حیثیت رکھنا.جیسے پیالے میں پانی کا حلول
  3. حلول السریانی ۔ جیسے کسی خیالی ہیولا میں کسی صورت کا حلول
  4. حلول الخیری ۔ یعنی اجسام کا مکانات میں حلول.

ارسطو نے بھی مسیحیوں کے عقیدہ حلول کی طرح یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ کوئی روحانی جوہر ایک خاص شکل میں کسی مادے سے متحد ہوجاتاہے۔

اسلامی نقطہ نظر

ترمیم

علما اور مشائخ اسلام نے اس عقیدے کی عام طور پر نفی کی ہے۔ ان کا قول یہ ہے کہ خدا وند کریم کی ذات وصفات میں سے کسی ایک کا بھی مخلوق میں حلول نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے اس کی ذات وحدہٗ کی نفی ہوجاتی ہے۔

بعض ایسے علما جو ایٹمی نظریہ پر یقین رکھتے ہیں اسے درست خیال کرتے ہیں۔ حلول کے عقیدے سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ الاشعری سے اتفاق کرتے ہوئے حلول کو جسم اور روح کے اتحاد کی صورت میں تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کیونکہ روح ایک جسم لطیف ہے خواہ وہ جنوں، فرشتوں یا کسی بھی مخلوق میں کیوں نہ ہو۔

لیکن اللہ تعالی نے کسی بھی مخلوق میں حلول روح کے عقیدے کو یکسر ختم کر دیا ہے۔ کیونک اگر ایسا ہوجائے تو پھر خدا کے اصلی جوہر یعنی جوہر الہیہ کا تجزیہ کرنا ضروری ہوجاتا جبکہ خداوند کریم کی ذات کا ہم تجز یہ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم تجزیہ کریں تو دوہستیوں کو ابدی تسلیم کرناپڑے گا۔ ایک خدا کی ہستی اور دوسری حلول کرنے والی ، جس سے خدا کی وحدانیت برقرار نہیں رہ سکتی۔

چنانچہ حلول کا عقیدہ رکھنے والوں کو مسلمان نہیں گردانا جا سکتا۔ اسی لیے علمائے اہل سنت اوراہل تشیع نے حلولیہ فرقے کو خارج از اسلام قرار دیا ہے۔

ماخذ

ترمیم

اسلامی انسائیکلوپیڈیا/جلد 18، صفحہ 821-822