حمزہ بن عمرو ابو صالح کنیت تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی تھے۔

صحابی
حمزہ بن عمرو
معلومات شخصیت
کنیت ابو صالح

نام ونسب

ترمیم

حمزہ نام، ابو صالح کنیت، نسب نامہ یہ ہے حمزہ بن عمرو بن عویمربن حارث الاعرج ابن سعد بن زرج بن عدی بن سہل بن مازن بن حارث بن سلامان بن اسلم بن افصی بن حارثہ اسلمیٰ ۔

اسلام

ترمیم

فتح مکہ یا اس کے بعد مشرف باسلام ہوئے ،اسلام لانے کے بعد سب سے اول غزوہ تبوک میں شریک ہوئے۔ آنحضرتﷺ کی رضا جوئی صحابہ کرام کے لیے سب سے بڑی دولت تھی وہ نہ صرف اپنے لیے اس دولت کے حصول پر بلکہ دوسروں کے حصولِ سعادت پر بھی وفور مسرت سے معمور ہوجاتے تھے، ایک صحابی حضرت کعب بن مالک انصاری غزوہ تبوک میں نہ شریک ہو سکے تھے، بہت سے منافق بھی جو ہمیشہ ایسے موقع پر پہلو تہی کرجاتے تھے تبوک میں شریک نہ ہوئے اورآنحضرت ﷺ کے تبوک سے واپس تشریف لانے کے بعد آپ سے جھوٹی معذرت کرلی، آپ نے ان کی معذرت قبول کرلی، کعبؓ ایک راسخ العقیدہ اورسچے مسلمان تھے اس لیے وہ اپنی کوتاہی پر حقیقۃ بہت نادم اورشرمسار تھے،انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر صحیح صحیح واقعہ بیان کر دیا، آپ نے ان کی معذرت بھی قبول فرمائی ؛لیکن وحی الہی کی شہادت تک عام مسلمانوں کو ان کے ساتھ ملنے جلنے سے منع کر دیا، حتیٰ کہ ان کی بیوی کو بھی ممانعت ہو گئی اورکعب چند دنوں تک نہایت حزن وملال کی زندگی بسر کرتے رہے، جب ان کی صفائی میں وحی نازل ہوئی تو صحابہ کی جماعت میں مسرت کی ایک لہڑ دوڑ گئی اوروہ کعب کو یہ مژدہ سنانے کے لیے چاروں طرف سے دوڑ پڑے،حمزہ اس قدر مسرور تھے کہ سب سے پہلے اپنی زبان سے برأت کا مژدہ سنانا چاہتے تھے اس لیے اس پہاڑی پر چڑھ گئے اور وہیں سے چلا کر کعب کو مژدہ سنایا، اورسب سے پہلے انھی کی زبان نے کعب کے کانوں تک براءت کی خوشخبری پہنچائی تھی پھر پہاڑی سے اتر کر اطمینان سے کعب کے پاس گئے،کعب اس مژدہ پر اس قدر مسرور ہوئے کہ اپنا لباس اتارکر حمزہ کو پہنادیا۔[1]

فتوحات شام

ترمیم

عہدِ فاروقی میں شام کی فوج کشی میں شریک ہوئے اجنادین کی فتح کا مژدہ بھی لائے تھے۔ [2]

وفات

ترمیم

61ھ میں 71 سال کی عمر میں وفات پائی۔ [3]

فضل وکمال

ترمیم

گو علمی حیثیت سے حمزہ کا کوئی خاص درجہ نہیں ہے،تاہم ان سے 9 حدیثیں مروی ہیں ان سے روایت کرنے والوں میں ان کے لڑکے محمد اور سلیمان بن یسار قابل ذکر ہیں۔ [4]

روزوں سے شغف

ترمیم

حضرت حمزہ کو روزوں سے غیر معمولی شغف تھا، سفر میں بھی افطار کرنا ان کے لیے شاق تھا؛چنانچہ آنحضرتﷺ سے سفر کے روزہ کے بارے میں پوچھا ،آپ نے فرمایا تم کو اختیار ہے چاہے رکھو چاہے افطار کرو۔ [5] [6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. الأصبهاني (1998)، ج. 2، ص. 680
  2. (تہذیب الکمال:63)
  3. (تہذیب الکمال:63)
  4. (تہذیب الکمال:63)
  5. ابن عبد البر (1992)، ج. 1، ص. 375
  6. (اسد الغابہ:2/50)