کعب بن مالک انصاری صحابی رسول اصحاب صفہ میں شامل ہیں۔

کعب بن مالک
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 600ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 670ء (69–70 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طبی کیفیت اندھا پن   ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبید اللہ بن کعب بن مالک ،  عبد اللہ بن کعب بن مالک ،  معبد بن کعب بن مالک ،  کبشہ بنت کعب بن مالک ،  عبد الرحمٰن بن کعب بن مالک   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ترمیم

کعب نام، ابو عبد اللہ کنیت، بنو سلمہ سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے، کعب بن مالک بن ابی کعب عمرو بن قیس بن سواد بن منعم بن کعب بن مسلمہ بن سعد بن علی بن اسد بن ساردہ بن یزید بن حشم بن خزرج، والدہ کا نام لیلی بنت زید بن ثعلبہ تھا اور بنو سلمہ سے تھیں۔ جاہلیت میں ابو بشیر کنیت کرتے تھے، آنحضرت ﷺ نے بدل کر ابو عبد اللہ کر دی، مالک کے یہی ایک چشم و چراغ تھے۔ امام ابن ابی حاتم نے کعب کو اصحابِ صفہ میں شمار کیا ہے۔[2]

اسلام

ترمیم

عقبہ ثانیہ میں 70 آدمیوں کے ساتھ مکہ آ کر بیعت کی۔

غزوات

ترمیم

آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے اور انصار و مہاجرین میں برادری قائم کی تو طلحہ بن عبید اللہ کو کہ جو عشرۂ مبشرہ میں سے تھے، ان کا بھائی بنایا۔

غزوہ بدر میں جلدی کی وجہ سے نہ جاسکے، ان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ رہ گئے تھے، لیکن آنحضرت ﷺ نے کسی کو کچھ نہ کہا۔

اس غزوہ سے محروم رہنے کا ان کو کچھ افسوس بھی نہ تھا، خود فرماتے تھے کہ لیلۃ العقبہ کے مقابلہ میں جو اسلام کی آئندہ کامیابیوں کا دیباچہ تھی، میں بدر کو ترجیح نہیں دیتا گو لوگوں میں بدر کا زیادہ چرچا ہے۔[3]

غزوۂ احد میں اپنے مہاجر بھائی کی طرح داد شجاعت دی، آنحضرت ﷺ کی زرد زرہ پہن کر میدان میں آئے، آنحضرت ﷺ ان کی زرہ زیب تن کیے تھے، اس لڑائی میں 111 زخم کھائے۔

آنحضرت ﷺ کے متعلق خبر اڑ گئی تھی کہ شہید ہو گئے صحابہؓ کو سخت تشویش پیدا ہو گئی، سب سے پہلے انھوں نے پہچانا اور بآواز بلند پکار اٹھے کہ رسول اللہ ﷺ یہ ہیں، آنحضرت ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ خاموش رہو۔[4]

احد کے بعد جو غزوات پیش آئے، اُن میں انھوں نے نہایت مستعدی سے شرکت کی، یہ عجیب بات ہے کہ عہد نبوت کے پہلے غزوہ کی طرح پچھلے غزوہ کی شرکت کے شرف سے بھی محروم رہے، غزوۂ تبوک آنحضرت ﷺ کا اخیر غزوہ ہے (یہ مفصل واقعہ صحیح بخاری میں مذکور ہے) اور غزوہ عسرت کہلاتا ہے، آنحضرت ﷺ کی عادت یہ تھی کہ کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو صاف صاف نہ بتاتے؛ لیکن اس دفعہ خلاف معمول ظاہر کر دیا تھا، تاکہ مسلمان اس طویل اور مشکل سفر کے لیے تیار ہو جائیں، خود کعب نے اس کے لیے دو اونٹ مہیا کیے تھے، ان کا بیان ہے کہ میں کسی غزوہ میں اتنا قوی، تیار اور خوش حال نہ تھا جتنا اس دفعہ تھا۔ نہ جانے کی وجہ سے پچاس دن تک مختلف پابندیوں کا سامنا کیا۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شعرا کرام

ترمیم

امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ تین انصاری صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدافعت میں اشعار پڑھا کرتے تھے وہ حسان بن ثابت، عبد اللہ بن رواحہ اور کعب بن مالک ہیں [5]

اخلاق

ترمیم

صدق و راستی ان کا خاص وصف تھا اور اس کو انھوں نے جس طرح بنایا اس سے زیادہ ہونا ناممکن ہے دعا قبول ہونے کے بعد کبھی جھوٹ نہ بولے، خود فرماتے ہیں:

واللہ ما تعمدت کذبۃ منذ قلت ذالک للرسول ﷺ الی یومی ھذا وانی لارجو ان یحفظنی اللہ فیما بقیٰ[6]

غزوہ تبوک سے پیشتر کی زندگی نہایت پاک اور صاف گذری تھی، چنانچہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو بنو سلمہ نے برجستہ کہا:

واللہ ما علمناک کنت اذنبت ذنبا قبل ھذا![7]

یعنی خدا کی قسم تم نے اس سے پہلے تو کوئی گناہ نہ کیا تھا۔

وفات

ترمیم

کعب کی تاریخِ وفات میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں 51ھ یا 50ھ یا 40ھ سے پہلے وفات ہوئی ہے جب کہ علامہ ابن حبان کہتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن 67 سال کی عمر میں یہ اس دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں۔[8]

اولاد

ترمیم

عبد اللہ، عبید اللہ، عبد الرحمن، معبد اور محمد، قصر کعب کے ارکان خمسہ تھے۔ ان میں سے اول الذکر کو یہ شرف خاص تھا کہ جب ان کے والد نابینا ہو گئے تو یہ ان کے قائد اور راہ نما بنتے تھے۔ [9]

فضل وکمال

ترمیم

حدیث کی کتابوں میں 80 روایتیں ہیں اور خود آنحضرت ﷺ اور اسید بن ؓ حضیر سے روایت کی ہے ،راویوں میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابو امامہ باہلیؓ، حضرت امام باقر ؓ، عمرو بن حکم بن ثوبان، علی بن ابی طلحہ، عمر بن کثیر بن افلح، عمر بن حکم بن رافع جیسے اکابر شامل ہیں۔

مشہور شاعر تھے، طبیعت اچھی پائی تھی اور اشعار میں جدت تھی، جاہلیت میں شاعری کے انتساب سے مشہور تھے، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ شعر کہنا کیسا ہے، فرمایا کچھ مضائقہ نہیں، مسلمان اس کی وجہ سے تلوار اور زبان دونوں سے جہاد کرتا ہے، جب یہ شعر کہا:

زعمت سخینۃ ان ستغلب ربھا فلیغلبن مغالب الغلاب

سخینہ کا گمان ہے کہ اس کا معبود اس کو غالب کریگا بہتر ہے وہ تمام غالب ہو نے والوں کے غالب (خدا) پر غلبہ حاصل کریں

تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: کہ اس سے تم نے خدا کو مشکور بنایا۔

ان کی شاعری کا موضوع کفار کو لڑائی سے ڈرانا اور مسلمانوں کا ان کے قلوب میں سکہ جمانا تھا، دربار رسالت میں تین شاعر تھے اور تینوں کے موضوع جداگانہ تھے، انہی میں سے ایک حضرت کعبؓ بھی تھے، کلام کے اثر کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ صرف دو بیعت کہے اور تمام قبیلۂ دوس مسلمان ہو گیا، وہ شعر یہ تھے: قضینا تہامۃ کل وتر وخیر ثمہ اغمدنا ایسونا

تہامہ اور خیبر سے ہم نے کینہ کو دور کرکے تلواریں نیام میں کر لیں

یخرھا ولو نطقت لقالت قواطعھن دوسا او ثقیفا اب ہم پھر ان کو اٹھاتے ہیں اور اگر وہ بول سکیں تو کہیں کہ اب دوس یا ثقیف کی باری ہے

دوسیوں نے سنا تو کہا کہ مسلمان ہو جانا بہتر ہے، ورنہ ثقیف کی طرح ہمارا بھی حشر ہوگا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119229412 — اخذ شدہ بتاریخ: 30 جولا‎ئی 2022 — اجازت نامہ: CC0
  2. کتاب الجرح والتعدیل : 3/160
  3. بخاری:2/634
  4. طبقات ابن سعد حصہ مغازی:22
  5. الاستیعاب 3/449
  6. مسلم:2/454
  7. بخاری:2/635
  8. الثقات لابن حبان ص: 22
  9. (بخاری:3/634)