حنیف اخگر
پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف اور ممتاز شاعر
پیدائش
ترمیمنام سیّد محمد حنیف اور تخلص اخگرؔ تھا۔ 2 ستمبر 1928ء کو قصبہ ملیح آباد {ضلع لکھنؤ} کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے[1]
تعلیم
ترمیمتقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی۔ ابتدائی اردو‘ فارسی اور عربی کی مروّجہ تعلیم اور ذہنی و فکری تربیت حنیف اخگر صاحب نے اپنے گھر اور قصبہ ملیح آباد کے مدرسوں سے حاصل کی۔ منشی فاضل کی تعلیم سلیمانیہ کالج بھوپال میں ہوئی‘ پھر 1948ء میں امیرالدولہ اسلامیہ کالج سے ہائی اسکول کا امتحان فرسٹ ڈویژن اور امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
شعری سفر
ترمیمشعری ذوق اور شاعری کے حوالے سے حنیف اخگر خوش قسمت رہے کہ خالص علمی اور ادبی ماحول اور گھرانے میں پرورش پائی‘ آپ کے والد شریف اثرؔ صاحب اپنے دور کے مقبول اور خوش فکر شاعر تھے‘ اس طرح آپ نے فکری‘ شعری‘ لفظی اور خوش الحانی کی تمام تر توانائیوں کے ساتھ ایک بھر پور شعری سفر کا آغاز کیا ‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت اور مقبولیت کی منزلیں طے کرتے چلے گئے۔ انھوں نے ادبی ادارہ حلقۂ فن و ادب شمالی امریکا کی بنیاد ڈالی اور یہاں اُردو زبان و ادب کو فروغ دیا۔[2]
عملی زندگی
ترمیمانھوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کراچی میں بینک کی ملازمت سے کیا، جب کہ اس دوران انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ بعد ازاں وہ سعودی عرب چلے گئے، اس کے بعد امریکا چلے گئے اور اقوامِ مُتّحدہ کی انٹرنیشنل سول سروس میں تقریباً سترہ برس مختلف جگہوں پر خدمات انجام دیں۔ اور آخر میں یو این کیپیٹل ڈیویلپمنٹ فنڈ کے ڈویژن چیف برائے ایشیا پیسیفک لائن، امریکا اور عرب اسٹیٹس ڈویژن کی حیثیت سے 2 مئی 1989ء کو ریٹائر ہوئے اور وقتاً فوقتاً ایکسپرٹ یا کنسلٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ، ورلڈ اسمبلی آف سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کے مستقل نمائندہ برائے اقوامِ متّحدہ، نیویارک بھی رہے[3]
تصانیف
ترمیمان کے تین مجموعوں میں *"چراغاں"* 1989ء، *"خیاباں"* 1997ء اور نعتیہ شاعری *"خلق مجسم"* 2003ء شامل ہیں اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنی سوانح حیات "اعتراف و انکشاف" بھی لکھی ہے۔ انھیں عالمی اُردو کانفرنس نئی دہلی کی جانب سے عالمی اُردو ایوارڈ اور ”خواجہ میر درد ایوارڈ“ سے بھی نوازا گیا تھا۔ انھوں نے ایک کتاب ”اسٹاک مارکیٹ ان پاکستان“ بھی لکھی ہے۔