حکیم فیروز الدین احمد فیروز طغرائی

حکیم فیروز الدین احمد فیروز طغرائیؔ (پیدائش: 1882ء – وفات: 8 فروری 1931ء) حکیم حاذق، شاعر، مصنف اور طبیب تھے۔

حکیم فیروز الدین احمد فیروز طغرائی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1882ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امرتسر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 فروری 1931ء (48–49 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امرتسر   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1882–8 فروری 1931)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ حکیم ،  طبیب ،  شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش و خاندان

ترمیم

حکیم صاحب کا پیدائشی نام فیروز الدین احمد تھا۔ 1882ء میں امرتسر کے کوچہ وکیلاں میں پیدائش ہوئی[1]۔ حکیم صاحب کے والد میاں شمس الدین کشمیر کے ایک جلیل القدر خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ اُن کا آبائی پیشہ پشمینہ کی تجارت تھا۔ حریفوں اور ہمچشموں میں اُن کی خاص قدر و منزلت تھی اور شہر کے رؤساء میں اُن کا شمار ہوتا تھا۔ اُن کا لاکھوں کا بیوپار تھا۔ صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اُن کے کاروبار کا جال پھیلا ہوا تھا۔ جگہ جگہ پشمینے کے کارخانے تھے۔حکیم صاحب کے والد میاں شمس الدین تنگ نظر واقع نہ ہوئے تھے اور باوجود اِس کے کہ وہ پرانی وضع کے ایک سیدھے سادے مسلمان تھے۔ حکیم صاحب کی پیدائش کے وقت اُن کے والد کہنہ سال تھے۔ کاروبار میں نقصان کے باعث اُن کی صحت گرتی چلی گئی ۔ جب حکیم صاحب کی عمر ڈیڑھ سال تھی تو میاں شمس الدین کا انتقال غالباً 1884ء کے اوائل میں ہوا۔ والد کی وفات کے بعد گھر کے حالات ناگفتہ بہ ہو گئے۔حکیم صاحب کا بچپن انتہائی کسمپرسی میں گذرا۔[2]

تعلیم

ترمیم

حکیم صاحب کی والدہ انگریزی تعلیم کی قائل نہ تھیں، اِسی لیے انھوں نے محلہ کی مسجد کے قاری کے سپرد کر دیا۔ قاری موصوف علم و فضل ہونے کے علاوہ بڑے متقی اور نفیس بزرگ تھے۔ ڈیڑھ سال کے اندر ہی قرآن مجید پڑھ لیا اور دینیات کی ابتدائی کتب بھی پڑھ لیں۔ اِسی محلہ میں آباد ایک ایرانی بزرگ دوست محمد نام کے آباد تھے جن سے حکیم صاحب کے والد میاں شمس الدین کے دیرینہ مراسم تھے‘ سے فارسی زبان و اَدب سے لگاؤ پیدا ہوا۔ غرض کہ دس سال کے اندر اندر آپ نے اسلامیات سمیت تمام ابتدائی کتب ختم کر لیں۔لیکن یہ سلسلہ ختم نہ ہوا اور مالی مشکلات کے باوجود شوقِ مطالعہ کا یہ حال تھا کہ اصحاب علم و فضل کی خدمت میں حاضر ہوکر اکتسابِ علم کے فرائض سر انجام دیتے۔ علامہ ابوزبیر مفتی غلام رسول شہید امرتسری سے ترجمہ قرآن مجید پڑھا۔ شیخ عبد الرزاق خاکی سے فارسی ادب میں جامی کی مثنوی یوسف و زلیخا اور بہارِ دانش کے کچھ حصے پڑھے۔ حاجی غلام محمد مولویٔ فاضل اور مولانا حکیم شمس الدین کاکڑی سے سے منطق، فلسفہ اور الٰہیات کی کتب پڑھیں۔ علم و اَدب میں مولوی عبد اللہ کاکڑی سے استفادہ کیا۔ علم طب میں میلان ابتدا سے ہی تھا، لہٰذا طب میں ذاتی مطالعہ اور واقفیت کی حد تک مشغول تھے کہ معروف ڈاکٹر علامہ حکیم غلام رسول سے ’’شرح العلامات و الأسباب‘‘ اور شرح نفیسی پڑھیں۔ علامہ موصوف طب میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ حکیم صاحب نے کتابت بھی سیکھی۔[3]

وفات

ترمیم

آخری ایام میں جب کہ حکیم صاحب لاہور میں مقیم تھے، تو لاہور کی آب و ہوا آپ کو راس نہ آئی اور حکیم سوراتضیہ میں مبتلاء ہو گئے۔ امرتسر چلے گئے اور وہاں اپنا علاج خود کرتے رہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں افاقہ ہو گیا۔امرتسر سے دوبارہ لاہور آگئے لیکن یہاں آتے ہی مرض کا پھر دورہ ہوا۔ بالآخر مستعفی ہوکر امرتسر چلے گئے اور تقریباً چھ مہینے بیمار رہ کر 8 فروری 1931ء کی صبح امرتسر میں وفات پاگئے۔[4]

کتابیات

ترمیم
  • حکیم فیروز الدین احمد فیروز طغرائی: کلیاتِ طغرائیؔ، مطبوعہ مسلم پرنٹنگ پریس، لاہور، 1933ء

حوالہ جات

ترمیم
  1. کلیاتِ طغرائی، سوانح، صفحہ 1۔
  2. کلیاتِ طغرائی، سوانح، صفحہ 1-2۔
  3. کلیاتِ طغرائی، سوانح، صفحہ 3-5۔
  4. کلیاتِ طغرائی، سوانح، صفحہ 16۔