طبیب حاملِ طب کو کہتے ہیں۔ لفظ ِ "طب "قدیم قبطی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی" حیران کن عمل" یا " جادو" کے ہیں۔ اس کی باقاعدہ تعلیم بقراط 460 – c. 370 BC کے دور سے شروع ہوئی۔ اور یونانی حکماءواضح طور پر ان سے متاثر نظر آتے ہیں۔ کتابی شکل میں طبی تحقیق کا اآغاز امحو طب( جو ہرمس اول یاحضرت ادریس کے شاگرد تھے) سے ہوا۔ طب کی تعلیم کا دوسرا سنہرا دور عرب لوگوں سے تشکیل پایا۔ اور پھر مسلم فلاسفہ اور اطبا نے اس فن کو کمال ِ فن تک پہنچادیا۔ اور ذکریا رازی، ابن سینا، ابو ریحان البیرونی، ابو القاسم زہراوی جیسے نابغہ روزگار اشخاص پیدا ہوئے۔ مسلم اطبا کے دور میں خلیفہ ہارون الرشید نے پہلی مرتبہ ایک عزیز کی ادویاتی موت کے بعد امتحانی کمیٹی بنائی۔ جو ہر طبیب کا امتحان لینے کے بعد اس کو مطب کی اجازت دیتی تھی۔ مسلمانوں کے علمی زوال کے بعد کیمیکل ادویاتی طرز عمل وجود میں آیا جس کو برطانوی سامراج نے دنیا میں پھیلایا۔ جب پوری دنیا ان کیمیائی زہروں کے برے اثرات سے آشنا ہو گئی تو پھر سے قدرتی ادوایات کی طرف لوٹ آئی۔ تب اس کا نام ہربل میڈیسن رکھ دیا گیا۔ اور آج پوری دنیا میں اسی طرز تعلیم کو عام کر دیا گیا ہے۔ اگر چہ تعلیم یونانی طب کے فلسفہ کے مطابق نہیں ہے مگر طرز عمل وہی ہے۔ اس وقت قدیم طب یونانی چند ملکوں میں اپنے مکمل فلسفہ کے ساتھ پڑھائی جاتی ہی ہے جن سر فہرست ہندوستان ہے۔ دوسرے نمبر پرپاکستان ہے جہاں طب یونانی کی باقاعدہ تعلیم وزارت صحت کے فراہم کردہ ضابظہ اخلاق کے مطابق دی جاتی ہے۔ چار سالہ اور پانچ سالہ کورسز ہیں جو Fsc Pre Medical کے بعد شروع ہوتی ہے

طبیب

برِ صغیر میں حکیم کالفظ بھی طبیب کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر اس کے لیے اردو کا لفظ " طبیب " ہی مناسب ہے، کیونکہ حکیم دانشور کو کہتے ہیں۔ ڈاکٹر اس کا مترادف ہے۔