"تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
8 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8 |
||
سطر 10:
5 اکتوبر کو پاکستان میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے ایک بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی۔<ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2009/10/091005_un_condemn.shtml بی بی سی 6 اکتوبر 2009ء]</ref>
9 اکتوبر 2009ء کو پشاور میں ایک خود کش حملہ کیا گیا جس میں چالیس سے زیادہ عام شہری شہید ہوئے۔ اس سے پہلے 16 ستمبر کو یہیں ایک خود کش حملہ میں گیارہ عام شہری شہید ہوئے۔ اسی دن بنوں میں ایک پولیس تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں پندرہ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔<ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091009_dilawar_blast_comment.shtml بی بی سی]</ref>
10 اکتوبر 2009ء کو پاکستان میں جی ایچ کیو پر حملہ ہوا جس کی ذمہ داری طالبان کے ایک گروہ نے قبول کی ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے تمام دھشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔<ref>روزنامہ جنگ 10 اکتوبر 2009ء۔ تازہ ترین خبروں سے لیا گیا</ref> یاد رہے کہ اس سے صرف دو دن پہلے نیدرلینڈز کے سفارت خانہ کے ملازم اسلام آباد میں ممنوعہ اسلحہ اور ہنیڈ گرنیڈ سمیت پکڑے گئے جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ طالبان نے جی ایچ کیو پر حملوں میں ممنوعہ اسلحہ اور ہینڈ گرنیڈ استعمال کیے تھے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں سے بھارتی ہتھیار برآمد ہوئے۔۔<ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091019_army_presser_indian_weapons.shtml بی بی سی اردو 19 اکتوبر 2009ء]</ref> 15 اکتوبر کو لاہور میں تین مختلف جگہ پر دہشت گردی کی کارروائی ہوئی جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی۔ لاہور میں ایف آئی اے کی عمارت، بیدیاں ٹریننگ سینٹر اور مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ ہوا جو تینوں جگہ ناکام بنا دیا گیا تاہم کچھ سیکیورٹی اہکار شہید ہوئے ایک اندازہ کے مطابق ان کاروائیوں میں اٹھارہ دہشت گرد شامل تھے جن میں تین لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان واقعات میں کم از کم آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور آٹھ شہری شہید ہوئے جبکہ آٹھ دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔<ref>روزنامہ جنگ۔ تازہ ترین 15 اکتوبر 2009</ref> 15 اکتوبر 2009ء کو ہی کوہاٹ میں ایک تھانے پر خود کش حملہ کیا گیا۔ ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی صدر پولیس سٹیشن کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی۔ ان کے بقول حملے میں گیارہ افراد ہلاک جبکہ بیس زخمی ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں تین پولیس اہلکار اور آٹھ عام شہری شامل ہیں۔۔<ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091014_kohat_attack.shtml بی بی سی اردو]</ref> لاہور کے کمشنر نے کہا ہے کہ طالبان کو ان حملوں میں بھارتی اداروں کی مدد حاصل ہے۔۔<ref>
20 اکتوبر کوجنڈولہ چیک پوسٹ وزیرستان پر طالبان نے حملہ کر کے 7 اہلکاروں کو شہید کر دیا۔<ref>http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091020_waziristan_4th_day.shtml بی بی سی اردو 20 اکتوبر 2009ء</ref>
23 اکتوبر 2009ء کو باراتیوں کی ایک بس مہمند ایجنسی میں طالبان کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس سے 18 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ بارودی سرنگ سیکیوریٹی فورسز کے لیے بچھائی گئی تھی۔<ref>
23 اکتوبر 2009ء کو ہی پشاور میں ایک بم دھماکا ہوا۔ کامرہ میں فضائیہ کی فیکٹری کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا۔ کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔<ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091022_atock_blast.shtml بی بی سی اردو 23 اکتوبر 2009ء]</ref>
روزنامہ نوائے وقت کے مطابق پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکا اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ سکیورٹی ماہرین کی جانب سے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیر معمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔<ref>
2 نومبر 2009ء کو راولپنڈی میں ایک خود کش حملہ میں 4 فوجیوں سمیت 36 افراد شہید ہو گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ خود کش حملہ آور نیشنل بنک آف پاکستان کے باہر تنخواہیں نکالنے والوں کی قطار میں گھس گیا اور خود کو اڑا دیا۔ اسی دن لاہور میں بابو صابو انٹرچینج پر پولیس چوکی پر روکے جانے پر کار سوار نے خود کو اڑا لیا اور 25 لوگ زخمی ہو گئے۔<ref>روزنامہ جنگ 3 نومبر 2009ء</ref>
8 نومبر کو پشاور کے نواح میں واقع متنی کے علاقہ ادیزئی میں ایک خود کش حملہ میں ناظم علاقہ عبد المالک سمیت 12 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہو گئے۔ ناظم عبد المالک طالبان کے خلاف بنائے جانے والے ایک لشکر کے سربراہ تھے اور ان پر پہلے بھی حملے ہو چکے تھے۔<ref>
9 نومبر 2009ء کو ایک پولیس چوکی پر خود کش حملہ ہوا جس میں تین افراد جاں بحق ہو گئے۔<ref>روزنامہ جنگ تازہ خبریں۔ 9 نومبر 2009ء</ref>
10 نومبر 2009ء کو چارسدہ کے مرکزی بازار میں ایک کار بم دھماکا کیا گیا جس میں 24 افراد جاں بحق اور 40 کے قریب زخمی ہو گئے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ ۔<ref>
13 نومبر 2009ء کو ایک خودکش حملہ جو ایک حساس ادارہ کے پاس پشاور میں ہوا، اہل کاروں اور شہریوں سمیت دس افراد جاں بحق ہو گئے۔ ایک اور واقعے میں بنوں میں بکا خیل تھانے میں خود کش حملہ سے دو افراد جاں بحق ہو گئے۔<ref>
13 نومبر کو ہی پشاور میں پاکستان کی جاسوسی تنظیم آئی ایس آئی کے دفتر پر خود کش حملہ میں سات اہلکاروں سمیت دس افراد ہلاک ہو گئے۔ خود کش حملہ آور نے صبح کے ساڑھے چھ بجے ایک بارود سے بھری گاڑی آئی ایس آئی کے صوبائی دفتر پر ٹکرا دی۔ دھماکے سے قریبی مسجد بھی تباہ ہو گئی۔۔<ref>روزنامہ جنگ 14 نومبر 2009ء</ref> 14 نومبر کو پشاور میں میں پولیس کے مطابق ایک چیک پوسٹ پر کار خودکش حملہ ہوا جس میں گیارہ افراد ہلاک اور چھبیس زخمی ہو گئے۔۔<ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/11/091114_car_blast_pesh.shtml بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء]</ref>
سطر 42:
20 اکتوبر 2009ء کو اسلام آباد پاکستان کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں دو خود کش حملے ہوئے جس میں متعدد طالبات شہید ہو گئیں۔۔<ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091020_isl_uni_blast_rh.shtml بی بی سی اردو 20 اکتوبر 2009ء]</ref>
28 اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ کی اسلام آباد، پاکستان میں آمد کے کچھ دیر بعد پشاور میں ایک مینا بازار میں جہاں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے، ایک بم دھماکا کیا گیا جس میں 105 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہو گئے جو تمام عام لوگ تھے۔<ref name="بی بی سی اردو 28 اکتوبر 2009ء">[http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091028_pes_blast_rh.shtml بی بی سی اردو 28 اکتوبر 2009ء]</ref>۔ دھاکے سے قریبی امِ حبیبہ مسجد بھی مکمل طور پر شہید ہو گئی۔۔<ref>
== حوالہ جات ==
|