"مغل اعظم (فلم)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.2
سطر 89:
== پرنسپل فوٹو گرافی ==
مغل اعظم کی پرنسپل فوٹو گرافی 1950 کی دہائی کے آغاز میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس کا ہر سیکوئل تین بار فلم بند کیا گیا کیونکہ فلم ہندی/اردو، تامل اور انگریزی میں پروڈیوس کی گئی تھی۔ فلم کو بتدریج تامل میں ڈب کر کے 1961 میں اکبر کے نام سے جاری کیا گیا<ref name="hundred">{{حوالہ ویب|last=Roy, Gitanjali|date=24 اپریل 2013|title=Indian cinema@100: 10 facts about Mughal-e-Azam|url=http://movies.ndtv.com/bollywood/indian-cinema-100-10-facts-about-mughal-e-azam-358135|archiveurl=https://web.archive.org/web/20130427230723/http://movies.ndtv.com/bollywood/indian-cinema-100-10-facts-about-mughal-e-azam-358135|archivedate=27 اپریل 2013|accessdate=4 جون 2013|website=[[این ڈی ٹی وی]]}}</ref>۔ لیکن وہ ورژن تجارتی طور پر ناکام ہو گیا کیونکہ انگریزی ورژن پر زیادہ توجہ دی گئی جس کے لیے برطانوی اداکار زیر غور تھے۔<ref name="making" />فلم بندی کے دوران میں آصف کے ساتھ کافی بڑا کریو تھا۔ اس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز میں ایس ٹی زیدی، [[محمد خالد اختر|خالد اختر]]، سریندر کپور(جو پہلے انگریزی ورژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے) اور دیگر پانچ اور تھے<ref name="credits" />۔ دیگر کریو میں سیناماٹوگرافر آر ڈی ماتھر، کوریوگرافرلالچھو مہاراج {{Sfn|Khubchandani|2003|p=203}}، پروڈکشن منیجر اسلم نوری، کیمرا مین ایم ڈی ایوب، ایڈیٹر دھرماویر، میک اپ آرٹسٹ پی جی جوشی اور عبدالحمید اور ساؤنڈ ڈائریکٹر اکرم شیخ تھے۔ <ref name="credits">{{حوالہ ویب|title=Credits: Mughal-E-Azam|url=http://www.bfi.org.uk/films-tv-people/4ce2b749e8ee3|archiveurl=https://web.archive.org/web/20161103132832/http://www.bfi.org.uk/films-tv-people/4ce2b749e8ee3|archivedate=3 نومبر 2016|accessdate=15 اگست 2013|publisher=[[برٹش فلم انسٹی ٹیوٹ]]}}</ref>
اس فلم کے چند سیکونس 14 کیمروں سے شوٹ کیے گئے تھے جو اس وقت روایات سے بہت زیادہ تھے۔فلم کی لائٹنگ کے حوالے سے بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق سینماٹوگرافر ماتھر نے ایک شوٹ کی لائٹنگ کے لیے آٹھ گھنٹے بھی صرف کیے۔ان دنوں ایک فلم کی شوٹنگ میں 60 سے 125 دن لگتے تھے لیکن مغل اعظم کی شوٹنگ کے لیے 500 دن سے زیادہ لگے۔ فلم میں شیش محل کا استعمال بھی کیا گیا جس کی لائٹنگ کے لیے 500 ٹرکوں کی ہیڈلائٹس اور 100 کے قریب ریفلیکٹرز استعمال کیے گئے <ref>{{حوالہ ویب|title=Archive for the 'Review' Category|url=http://devasuram.wordpress.com/category/review/|archiveurl=https://web.archive.org/web/20150406102252/https://devasuram.wordpress.com/category/review/|archivedate=6 اپریل 2015|accessdate=14 اگست 2013|website=Mughal E Azam|publisher=Devasuram Word Press}}</ref>۔شیشوں کی وجہ سے بھی شوٹنگ میں کافی مشکلات پیدا ہوئیں جو روشنی میں جھلماتے تھے۔غیر ملکی مشیروں، جن میں برطانوی ڈائریکٹر ڈیوڈ لین شامل تھے نے آصف کو کہا کہ اتنی زیادہ چمک میں شوٹنگ ناممکن ہے۔ آصف نے لائٹنگ کریو کے ساتھ کام کیا اور اس مسئلے کو شیشوں پر ویکس کی پتلی تہہ لگا کر قابو پایا <ref name="cell" />۔ ماتھر کپڑے کی پٹیاں استعمال کر کے بھی روشنی کی چمک کو کم کیا۔ <ref name="hundred">{{حوالہ ویب|last=Roy, Gitanjali|date=24 اپریل 2013|title=Indian cinema@100: 10 facts about Mughal-e-Azam|url=http://movies.ndtv.com/bollywood/indian-cinema-100-10-facts-about-mughal-e-azam-358135|archiveurl=https://web.archive.org/web/20130427230723/http://movies.ndtv.com/bollywood/indian-cinema-100-10-facts-about-mughal-e-azam-358135|archivedate=27 اپریل 2013|accessdate=4 جون 2013|website=[[این ڈی ٹی وی]]}}</ref>
فلم بندی کے دوران میں پروڈکشن کی تاخیر جیسی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ایک مقام پر تو آصف نے اس پراجیکٹ کو ختم کرنے کا سوچا <ref>{{حوالہ ویب|last=Raheja, Dinesh|date=5 اگست 2010|title=''Mughal-e-Azam'' revisited|url=http://www.rediff.com/movies/report/mughal-e-azam-revisited/20100805.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20121201061948/http://www.rediff.com/movies/report/mughal-e-azam-revisited/20100805.htm|archivedate=1 دسمبر 2012|accessdate=24 جون 2012|website=Rediff}}</ref>۔کمار نے فلم کی طوالت کا دفاع کیا انہوں نے فلم کی بھاری بھر کم لاجسٹک کو ذمہ دار ٹھہرایا اور انہوں نے بتایا کہ ساری کاسٹ اور کریو سخت محنت کرتے ہوئے ساتھ کھڑی تھی۔
پروڈکشن کے دوران میں کئی بار مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی دفعہ اخراجات بجٹ سے بڑھ گئے۔اس کے بجٹ پر کئی دفعہ بات ہوئی۔ اس فلم پر کل 10.5 ملین بھارتی روپے خرچ ہوئےاس وقت یہ 2.25 ملین ڈالر کے برابر تھے۔ کچھ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ فلم کی لاگت 15 ملین بھارتی روپے تھے جو 3 ملین ڈالر کےبرابر تھے۔اس سے یہ فلم اپنے دور کی مہنگی ترین فلم بن گئی۔ افراط زر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو آج کے اعتبار سے فلم کا بجٹ 50 کروڑ بھارتی روپے سے 2 ارب بھارتی روپے بنتا ہے۔بجٹ کی وجہ سے آصف اور فلم کے پروڈیوسر کے درمیان میں تعلقات بھی خراب ہوئے۔ آصف اور کمار کے تعلقات بھی خراب ہوئے، جب آصف نے کمھار کی بہن سے شادی کی۔ اس دوران میں کمار اور مدھو بالا کےتعلقات بھی ختم ہوئے، جو نو سال سے تعلق میں تھے۔
سطر 158:
 
== مارکیٹینگ ==
ایک پینٹر [[جی کمبلے]] کو [[وی شانتا رام]] کے [[راج کمال کلماندر]] نے اس فلم کے پوسٹر پینٹ کرنے کا لالچ دیا۔ کمبلے نے مراٹھا مندر تھیٹر کے سینما ڈسپلے بھی بنائے۔ <ref>{{حوالہ ویب|title=Film Heritage Foundation Profile B|url=https://www.facebook.com/filmheritagefoundation/photos/1804423833177879/|archiveurl=https://ghostarchiveweb.archive.org/iarchiveweb/20220814145748/https://www.facebook.com/1395260657427534filmheritagefoundation/photos/1804423833177879/|archivedate=2022-0208-2614|accessdate=23 جولائی 2020|publisher=Film Heritage Foundation|language=en|url-status=bot: unknown}}</ref>اس فلم کے پوسٹر کی تیاری کے لیے آصف کو ہندوستان بھر میں دستیاب ونسر اینڈ نیوٹن پینٹ کا تمام سٹاک چھ لاکھ بھارتی روپے میں خریدنا پڑا تاکہ کمبلے اعلیٰ میعار کے ہورڈنگز بنا سکے۔کمبلے کو مغل اعظم کے مجسموں کی تیاری کے لیے 8 لاکھ {{بھارتی روپیہ}} کی بڑی رقم کی پیشکش کی گئی تھی لیکن ان کی دھوکا دہی کی وجہ سے آخر میں انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ <ref name="posters" />
 
== ریلیز ==
سطر 167:
=== باکس آفس ===
ایک رپورٹ کے مطابق جس دن فلم کے ٹکٹوں کی بکنگ شروع ہونی تھی، اس سے ایک دن پہلے مراٹھا مندر سینما کے باہر ایک لاکھ لوگوں کی بھیڑ جمع تھی جو ٹکٹ خریدنا چاہتی تھی۔اپنے وقت میں یہ کسی بھی بالی وڈ فلم کی مہنگی ترین ٹکٹ تھی۔ اس ٹکٹ پر فلم سے متعلق ٹیکسٹ، تصاویر اور چند اور باتیں درج تھیں۔ آج ان ٹکٹوں کو نایاب سمجھا جاتا ہے اور لوگ اپنی کلیکشن میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس فلم کے ٹکٹ کی مالیت 100 {{بھارتی روپیہ}} (1960 میں تقریباً 21 امریکی ڈالر کی قیمت تھی)۔ ٹکٹ کے مہنگا ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1960 میں بھارت میں 10 گرام سونے کی قیمت 112 بھارتی روپے تھی۔ ان دنوں ایک عام بھارتی فلم کی ٹکٹ ڈیڑھ {{بھارتی روپیہ}} یا (US$0.31) ہوتی تھی۔ بکنگ کے دوران میں کافی افراتفری ہوئی۔ انتظامیہ کو معاملات سنبھالنے کے لیے پولیس کی مدد لینا پڑی۔کہا جاتا ہے کہ اس فلم کے ٹکٹ لینے کے لیے لوگوں نے چار سے پانچ دن قطاروں میں انتظار کیا اور انہیں اُن کے گھروالوں نے گھروں سے کھانا فراہم کیا گیا۔ <ref name="quote">{{حوالہ ویب|last=Patsy N|date=10 نومبر 2004|title=The making of ''Mughal-e-Azam''|url=http://www.rediff.com/movies/2004/nov/10seth.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20120125105208/http://www.rediff.com/movies/2004/nov/10seth.htm|archivedate=25 جنوری 2012|accessdate=23 جون 2012|website=Rediff}}</ref> اس کے بعد، مراٹھا مندر کی انتظامیہ نے تین ہفتوں کے لیے بکنگ بند کر دی۔ <ref name="cell" />
مغل اعظم 5 اگست 1960 کو ملک بھر کے 150 سینماؤں میں ریلیز ہوئی۔اتنے زیادہ سینماؤں میں ایک ساتھ ریلیز ہو کر بھی بھی مغل اعظم نے ایک ریکارڈ قائم کیا۔اس فلم نے ریلیز کے ابتدائی ہفتے میں 40 لاکھ {{بھارتی روپیہ}} (US$839,000)کما کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ [lower-alpha 1]، <ref>''Mughal-e-Azam'' documentary by Sterling Investment Corporation. From 17:11 to 17:41.</ref><ref>{{حوالہ ویب|date=6 اگست 2004|title=Shapoorji Pallonji to rewrite Mughal-e-Azam|url=http://www.rediff.com/money/2004/aug/06films.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131021191713/http://www.rediff.com/money/2004/aug/06films.htm|archivedate=21 اکتوبر 2013|accessdate=21 اکتوبر 2013|website=Rediff}}</ref> مغل اعظم نے 55 ملین {{بھارتی روپیہ}}(US$11,530,000)، [lower-alpha 1] کا کاروبار کیا اور پروڈیوسروں کو 30 ملین {{بھارتی روپیہ}} کا منافع دیا۔یہ فلم طویل عرصہ تک سینماؤں میں لگی رہی۔ مراٹھا مندر سینما میں یہ تین سال تک چلتی رہی۔ <ref name="cutout">{{حوالہ ویب|date=2 نومبر 2004|title=''Mughal-e-Azam'' mural at 24 Karat|url=http://www.sify.com/movies/mughal-e-azam-mural-at-24-karat-news-bollywood-kkfvFneecjj.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20120524181617/http://www.sify.com/movies/mughal-e-azam-mural-at-24-karat-news-bollywood-kkfvFneecjj.html|archivedate=24 مئی 2012|accessdate=27 جون 2012|website=[[Sify]]}}<cite class="citation web cs1" data-ve-ignore="true">[https://web.archive.org/web/20120524181617/http://www.sify.com/movies/mughal-e-azam-mural-at-24-karat-news-bollywood-kkfvFneecjj.html "''Mughal-e-Azam'' mural at 24 Karat"]۔ ''[[سیفی|Sify]]''۔ 2 نومبر 2004. Archived from [http://www.sify.com/movies/mughal-e-azam-mural-at-24-karat-news-bollywood-kkfvFneecjj.html the original] on 24 مئی 2012<span class="reference-accessdate">۔ اخذکردہ بتاریخ <span class="nowrap">27 جون</span> 2012</span>۔</cite></ref> سب سے زیادہ کمائی کرنے میں بھی مغل اعظم [[مدر انڈیا]] (1957) کو پیچھے چھوڑ گئی۔اس فلم کے سب سے زیادہ کمائی کے ریکارڈ کو ''شعلے'' (1975) نے توڑا تھا۔ <ref name="making" /> مجموعی آمدنی کے لحاظ سے، ''مغل اعظم'' نے 110 ملین {{بھارتی روپیہ}}) کمائے۔ <ref name="boi60">{{حوالہ ویب|title=Box Office 1960|url=http://boxofficeindia.com/showProd.php?itemCat=166&catName=MTk2MA==|archiveurl=https://web.archive.org/web/20120922021750/http://boxofficeindia.com/showProd.php?itemCat=166&catName=MTk2MA==|archivedate=22 ستمبر 2012|website=[[Box Office India]]}}</ref><ref>{{حوالہ ویب|year=1960|title=Official exchange rate (LCU per US$، period average)|url=https://data.worldbank.org/indicator/PA.NUS.FCRF?end=1961&locations=IN&start=1960|accessdate=10 دسمبر 2018|website=[[عالمی بنک]]}}</ref>
 
2009 میں ''[[دی ہندو]]'' کے ضیاء سلام نے بتایا کہ اگر افراط زر کو ملحوظ رکھا جائے تو 'مغل اعظم اب تک کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بالی ووڈ فلم تھی۔ آن لائن باکس آفس ویب سائٹ باکس آفس انڈیا کے مطابق جنوری 2008 میں، فلم کی ایڈجسٹ شدہ خالص آمدنی {{بھارتی روپیہ|1327 ملین}} تھی، اسے "آل ٹائم بلاک بسٹر" کے طور پر درج کیا گیا۔ <ref name="boi">{{حوالہ ویب|title=Top earners 1960–1969 (Figures in Ind Rs)|url=http://boxofficeindia.com/showProd.php?itemCat=123&catName=MTk2MC0xOTY5|archiveurl=https://web.archive.org/web/20080118030710/http://www.boxofficeindia.com/showProd.php?itemCat=123&catName=MTk2MC0xOTY5|archivedate=18 جنوری 2008|accessdate=28 اگست 2011|website=Box Office India}}</ref> باکس آفس انڈیا کے مطابق جون 2017 میں، ''مغل اعظم'' کے دیکھنے والوں کی تعداد 10 کروڑ سے زیادہ ہو سکتی ہے، یعنی اس فلم کو بلحاظ ناظرین [[ہم آپ کے ہیں کون۔۔!|ہم آپ کے ہیں کون]]'' (1994) اور ''[[باہوبلی 2: انجام|باہوبلی 2]]'' (2017) سے زیادہ لوگوں نے دیکھا۔ مالیاتی اخبار ''منٹ'' کے مطابق، ''مغل اعظم'' کی ایڈجسٹ شدہ خالص آمدنی 2017 میں {{بھارتی روپیہ|13 بلین}} جو 2021ء میں ({{US$|{{To USD|13000|IND|year=2021|round=yes}} ملین}}) کے برابر بنتی ہے۔
سطر 174:
[[فائل:Madhubala1951.jpg|ربط=//upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/1/1f/Madhubala1951.jpg/180px-Madhubala1951.jpg|بائیں|تصغیر|213x213پکسل| [[مدھوبالا]] نے اپنی اداکاری کے ساتھ ساتھ [[فلم فیئر اعزاز برائے بہترین اداکارہ|بہترین اداکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے]] نامزد ہو کر بڑے پیمانے پر تعریفیں حاصل کیں۔]]
مغل اعظم کو ہندوستانی ناقدین کی طرف سے عالمی سطح پر کافی پذیرائی ملی۔ فلم کے ہر پہلو کو سراہا گیا۔ <ref name="bh1">{{حوالہ ویب|last=Adarsh, Taran|date=11 نومبر 2004|title=''Mughal-e-Azam''|url=http://www.bollywoodhungama.com/moviemicro/criticreview/id/504755|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131029190832/http://www.bollywoodhungama.com/moviemicro/criticreview/id/504755|archivedate=29 اکتوبر 2013|accessdate=1 جنوری 2012|website=[[بالی وڈ ہنگامہ]]}}</ref> ''
[[فلم فیئر]] جریدے میں 26 اگست 1960 {{Sfn|Akbar|2011|p=105}} کوشائع ہونے والے ایک جائزے میں مغل اعظم کو ایک "تاریخ سازفلم اور فن کی دنیا کے مختلف شعبوں کے تخلیقی فنکاروں کی ٹیم کا کام قرار دیا۔انہوں نے اس فلم کے بنانے والے جناب آصف کے تخیل، محنت اور شاہانہ پن کو بھی خراج تحسین پیش کیاانہوں نے لکھا کہ اس فلم کو اس کی شان و شوکت، اس کی خوبصورتی اور پھر فنکاروں کی پرفارمنس کے لیے اسے ہندوستانی فلموں میں ایک سنگ میل ہونا چاہیے۔" <ref>{{حوالہ ویب|title=Yesterday once more: From the Filmfare files.۔۔reviews from the 1960s|url=http://downloads.movies.indiatimes.com/site/jan2002/ifocus3.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20070907040152/http://downloads.movies.indiatimes.com/site/jan2002/ifocus3.html|archivedate=7 ستمبر 2007|accessdate=16 اگست 2013|publisher=Filmfare Print Edition}}</ref> ایک اور معاصر جریدے [[دی انڈین ایکسپریس]] نے مدھوبالا کی اداکاری اور رقص کو تحفہ قرار دیا۔2000ء سے، جائزہ نگار اس فلم کو ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایک "کلاسک"، "بینچ مارک" یا "سنگ میل" قرار دیا رہے ہیں۔ <ref name="art">{{حوالہ ویب|last=Raheja, Dinesh|date=15 فروری 2003|title=''Mughal-e-Azam'': A work of art|url=http://www.rediff.com/movies/2003/feb/15dinesh.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20121017123138/http://www.rediff.com/movies/2003/feb/15dinesh.htm|archivedate=17 اکتوبر 2012|accessdate=10 جون 2012|website=[[ریڈف ڈاٹ کوم]]}}</ref> 2011 میں، انوپما چوپڑا نے خاص طور پر پرفارمنس، باپ بیٹے کے ڈرامے اور گانوں کی ترتیب کو نوٹ کرتے ہوئےاسے "اب تک کی سب سے بہترین ہندی فلم" اور "ہندی فلم کی شکل کا دیوتا قرار دیا۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=Chopra, Anupama|date=5 مارچ 2011|title=The Eternal Five|url=http://www.openthemagazine.com/article/voices/the-eternal-five|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131029202651/http://www.openthemagazine.com/article/voices/the-eternal-five|archivedate=29 اکتوبر 2013|accessdate=15 اگست 2013|website=[[OPEN (Indian magazine)|OPEN Magazine]]}}</ref> [[ریڈف ڈاٹ کوم|ریڈف]] کے دنیش راہیجا نے فلم کو لازمی طور پر دیکھنے والی کلاسک قراردیا۔ <ref name="art" /> ''پلینیٹ بالی ووڈ'' کی سجاتا گپتا نے فلم کو دس میں سے نوسٹار، اور اسے لازمی دیکھنے والی فلم قرار دیا جس نے نسلوں سے لوگوں کی دلچسپی کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=Gupta, Sujata|date=20 اگست 1996|title=Film Review&nbsp;– Mughal-E-Azam|url=http://www.planetbollywood.com/Film/Mughal-E-Azam/|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131029202556/http://www.planetbollywood.com/Film/Mughal-E-Azam/|archivedate=29 اکتوبر 2013|accessdate=13 جولائی 2012|website=Planet Bollywood}}</ref>
کے کے رائے نے ''سٹارڈسٹ'' کے لیے اپنے جائزے میں کہا، "یہ کہا جا سکتا ہے کہ ''مغل اعظم'' کے شاندار اور پرانے کردار کو دہرایا نہیں جا سکتا، اور اسے اس ملک میں بننے والی سب سے اہم فلموں میں سے ایک کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔" <ref name="star">{{حوالہ ویب|last=Rai, K. K.|date=4 جنوری 2008|title=''Mughal-e-Azam'' (1960)|url=http://www.magnamags.com/content/view/584/95/lang,english/|archiveurl=https://web.archive.org/web/20120718071753/http://www.magnamags.com/content/view/584/95/lang%2Cenglish/|archivedate=18 جولائی 2012|accessdate=24 جون 2012|website=[[Stardust (magazine)|Stardust]]}}<cite class="citation web cs1" data-ve-ignore="true" id="CITEREFRai,_K._K.2008">Rai, K. K. (4 جنوری 2008)۔ [https://web.archive.org/web/20120718071753/http://www.magnamags.com/content/view/584/95/lang%2Cenglish/ "''Mughal-e-Azam'' (1960)"]۔ ''[[سٹارڈسٹ (میگزین)|Stardust]]''۔ Archived from [http://www.magnamags.com/content/view/584/95/lang,english/ the original] on 18 جولائی 2012<span class="reference-accessdate">۔ اخذکردہ بتاریخ <span class="nowrap">24 جون</span> 2012</span>۔</cite></ref> ''دی ہندو'' کے ضیاء سلام نے ''مغل اعظم'' کو ایک ایسی فلم کے طور پر بیان کیا جو لوگ بار بار دیکھنا چاہیں گے۔ ریڈیف کے راجہ سین نے اس فلم کا موازنہ ''سپارٹیکس'' (1960) سے کیا&nbsp;۔۔۔ کا&nbsp;۔۔۔!" <ref name="senraj">{{حوالہ ویب|last=Sen, Raja|date=12 نومبر 2004|title=Immortal''-e-Azam''|url=http://www.rediff.com/movies/2004/nov/12mughal.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20111104034823/http://www.rediff.com/movies/2004/nov/12mughal.htm|archivedate=4 نومبر 2011|accessdate=24 جون 2012|website=Rediff}}</ref> [[برطانوی نشریاتی ادارہ|بی بی سی]] کی لورا بشیل نے فلم کو پانچ میں سے چار ستاروں کی درجہ بندی کی، اسے "ہندوستانی سنیما اور عام طور پر سنیما کی عظمت دونوں کے لیے ایک معیار کی فلم" قرار دیا، اور کہا کہ ''مغل اعظم'' ہر لحاظ سے ایک بینچ مارک فلم تھی۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=Bushell, Laura|date=11 اکتوبر 2002|title=''Mughal-e-Azam'' (The Mogul) (1960)|url=https://www.bbc.co.uk/films/2002/10/11/mughal_e_azam_1960_review.shtml|archiveurl=https://web.archive.org/web/20090215232442/http://www.bbc.co.uk/films/2002/10/11/mughal_e_azam_1960_review.shtml|archivedate=15 فروری 2009|accessdate=25 جون 2012|website=BBC}}</ref>
[[برٹش فلم انسٹی ٹیوٹ]] کے لیے فلم کا جائزہ لیتے ہوئے نمن رام چندرن نے اس فلم میں مذہبی رواداری کی عکاسی کو نوٹ کیا <ref>{{حوالہ ویب|last=Ramachandran, Naman|title=Mughal-E-Azam|url=http://old.bfi.org.uk/sightandsound/review/1533|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131203053511/http://old.bfi.org.uk/sightandsound/review/1533|archivedate=3 دسمبر 2013|accessdate=1 دسمبر 2013|website=British Film Institute}}</ref>
 
سطر 226:
اس فلم کو رنگین کرنے کے لیے پہلا قدم اصل نیگیٹیوز کی بحالی تھی، جو اصل تھیٹر میں ریلیز کے دوران میں نیگیٹیوز کی وسیع پرنٹنگ کی وجہ سے خراب حالت میں تھے۔اس فلم کو رنگین بنانے سے پہلے ان نیگیٹیو پر بہت زیادہ خرچ اور محنت کرنے کی ضرورت تھی۔فلم کو رنگین بنانے کے لیے پہلے نیگیٹیوز پر سے پھپھوندی کو صاف کیا گیااور پھر خراب حصوں کو بحال کیا گیا۔اس کے بعد فریم کے گمشدہ حصوں کو دوبارہ سیٹ کیا گیا۔ <ref name="colrer">{{حوالہ ویب|date=6 اکتوبر 2004|title=The colourful re-entry of ''Mughal-e-Azam''|url=http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20150205114536/http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html|archivedate=5 فروری 2015|accessdate=27 جون 2012|website=Sify}}</ref>صفائی کے بعد نیگیٹیوز کے 300,000 فریموں میں سے ہر ایک کو 10 [[میگابائٹ|میگا بائٹ]] سائز کی فائل میں سکین کیا گیا اور پھر انہیں ڈیجیٹل طور پر بحال کیا گیا۔ بحالی کا پورا کام ایکریس لیب، چنئی نے کیا تھا۔ <ref>{{حوالہ ویب|date=11 ستمبر 2010|title=Mughal-e-Azam, 50 years later|url=http://www.tribuneindia.com/2010/20100911/saturday/main2.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131029191606/http://www.tribuneindia.com/2010/20100911/saturday/main2.htm|archivedate=29 اکتوبر 2013|website=The Tribune, Saturday Extra}}</ref> اصل ساؤنڈ ٹریک کے مکالمے بھی خراب حالت میں تھے، ریاستہائے متحدہ میں واقع چیس اسٹوڈیو میں آواز کو صاف کیا گیا۔ بیک گراؤنڈ اسکور اور پورے میوزیکل ٹریک کو نوشاد اور اتم سنگھ نے دوبارہ بنایا تھا۔ گانوں کے لیے، لتا منگیشکر، بڑے غلام علی خان اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کی اصل آوازیں اصل مکس ٹریک سے نکالی گئیں اور انہیں 6.1 سراؤنڈ ساؤنڈ میں دوبارہ ریکارڈ شدہ اسکور کے ساتھ دوبارہ بنایا گیا۔ <ref>{{حوالہ ویب|title=Mughal-E-Azam Website|url=http://www.mughaleazam.in/|archiveurl=https://web.archive.org/web/20150621094302/http://www.mughaleazam.in/|archivedate=21 جون 2015|accessdate=17 جون 2015|publisher=Shapoorji Pallonji & Co. Ltd}}</ref>
اس فلم کو رنگین بنانے کا کام کافی تحقیق کے بعد شروع کیا گیا۔ فلم کی آرٹ ٹیم نے مختلف عجائب گھروں کا دورہ کیا اور اس وقت پہنے جانے والے لباس کے مخصوص رنگوں کے پس منظر کا خصوصی معائنہ کیا۔ صدیقی نے بلیک اینڈ وائٹ ہالی ووڈ کلاسیکی فلموں کو رنگین بنانے والی ٹیکنالوجی کا مطالعہ کیا۔ ٹیم نے رہنمائی اور تجاویز کے لیے متعدد ماہرین سے بھی رابطہ کیا، جن میں دلیپ کمار، پروڈکشن ڈیزائنر نتن چندرکانت دیسائی، اور دہلی کی [[جواہر لعل نہرو یونیورسٹی|جواہر لال نہرو یونیورسٹی]] کے ایک مورخ شامل ہیں۔ رنگ سازی کو شروع کرنے کے لیے، صدیقی نے تقریباً 100 افراد کی ایک ٹیم کو جمع کیا، جن میں کمپیوٹر انجینئرز اور سافٹ ویئر پروفیشنلز شامل تھے، اور آرٹ کے متعدد شعبوں کو منظم کیا۔ اس پورے پروجیکٹ کو دیپیش سالگیا نے مربوط کیا، جس نے رنگ سازی کو انجام دینے کے لیے آئرس انٹرایکٹیو اور راج تارو سٹوڈیو کے ساتھ بھی شراکت داری کی۔ پروڈیوسر خود اس کام کی نگرانی کر رہے تھے، جنہیں روزانہ کام کے حوالے سے رپورٹ دی جاتی تھی۔ <ref name="color1" />
فلم کو رنگین کرنے کے لیے جو سافٹ وئیر استعمال کیا گیا اسے "ایفیکٹس پلس" کا نام دیا گیا۔ اس کی تیاری میں 18 ماہ صرف ہوئے۔ یہ سافٹ وئیر یا پروگرام صرف اصل فلم میں موجود سرمئی رنگ سے ملتے جلتے شیڈز کو ہی قبول کرتا تھا۔ ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ فلم کے رنگ حقیقت سے قریب تر ہوں۔ رنگ کاری <ref name="colrer">{{حوالہ ویب|date=6 اکتوبر 2004|title=The colourful re-entry of ''Mughal-e-Azam''|url=http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20150205114536/http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html|archivedate=5 فروری 2015|accessdate=27 جون 2012|website=Sify}}<cite class="citation web cs1" data-ve-ignore="true">[https://web.archive.org/web/20150205114536/http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html "The colourful re-entry of ''Mughal-e-Azam''"]۔ ''Sify''۔ 6 اکتوبر 2004. Archived from [http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html the original] on 5 فروری 2015<span class="reference-accessdate">۔ اخذکردہ بتاریخ <span class="nowrap">27 جون</span> 2012</span>۔</cite></ref> کے اصل رنگوں کی تصدیق اس وقت ہوئی جب فلم میں استعمال شدہ لباس ایک گودام سے ملے۔ ان کا رنگ وہی تھا، جنہیں فلم کو رنگین کرتے ہوئے استعمال کیا گیا تھا۔ریل کے ہر شاٹ کو آخر کار ہاتھ سے درست کیا گیا تاکہ بہترین نظر آئے۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=K Jha, Subhash|date=2 نومبر 2004|title=''Mughal-e-Azam'' goes colour|url=http://www.sify.com/movies/mughal-e-azam-goes-colour-news-bollywood-kkfvFoegiag.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20120524181601/http://www.sify.com/movies/mughal-e-azam-goes-colour-news-bollywood-kkfvFoegiag.html|archivedate=24 مئی 2012|accessdate=27 جون 2012|website=Sify}}</ref> رنگ کاری کے اصل عمل کو مکمل ہونے میں مزید 10 ماہ لگے۔ <ref name="colrer" /> صدیقی کے مطابق یہ دن رات مسلسل کرنے والا کافی محنت طلب کام تھا <ref name="reellink" /> اس فلم کو رنگین بنانے میں جو رقم خرچ ہوئی اس کی صحیح لاگت منتازعہ ہے، {{INRConvert|20|m}} <ref name="reellink">{{حوالہ ویب|last=Doval, Nikita|date=23 نومبر 2004|title=''Mughal-e-Azam''، reel link to past|url=http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2004-11-23/news-interviews/27164695_1_naya-daur-colour-mughal-e-azam|archiveurl=https://archive.today/20130103095516/http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2004-11-23/news-interviews/27164695_1_naya-daur-colour-mughal-e-azam|archivedate=3 جنوری 2013|website=[[دی ٹائمز آف انڈیا]]|accessdate=27 جون 2012}}</ref> اس فلم کو رنگین بنانے کی لاگت 2 کروڑ {{بھارتی روپیہ}} یا ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر سے یا 5 کروڑ {{بھارتی روپیہ}} یا 10 کروڑ {{بھارتی روپیہ}} بتائی جاتی ہے۔ <ref>{{حوالہ ویب|date=اگست 2004|title=Resurrection of ''Mughal-e-Azam''|url=http://specials.rediff.com/money/2004/aug/07wk1.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131021150755/http://specials.rediff.com/money/2004/aug/07wk1.htm|archivedate=21 اکتوبر 2013|accessdate=2 مئی 2013|website=Rediff}}</ref>
 
== دوبارہ اجرا ==
مغل اعظم کا رنگین 12 نومبر 2004ء کو تھیٹر میں ریلیز کیا گیا تھا، ہندوستان بھر میں اس کے150 پرنٹس جاری کیے گئے۔ ان میں سے 65 پرنٹس صرف [[مہاراشٹرا|مہاراشٹر]] میں جاری کیے گئے۔رنگین مغل اعظم کا پریمیئر ممبئی کے ایروس سنیما میں ہوا۔ دلیپ کمار، جو 1960ء میں بلیک اینڈ وائٹ مغل اعظم کے پریمیر میں شریک نہیں ہوئے تھے، اب حاضرین میں شامل تھے۔مغل اعظم کا بلیک اینڈ وائٹ ورژن 197 منٹ کا تھا اس کے مقابلے میں رنگین ورژن کو 177 منٹ تک محدود کر دیا گیا۔ <ref name="colrer">{{حوالہ ویب|date=6 اکتوبر 2004|title=The colourful re-entry of ''Mughal-e-Azam''|url=http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20150205114536/http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html|archivedate=5 فروری 2015|accessdate=27 جون 2012|website=Sify}}<cite class="citation web cs1" data-ve-ignore="true">[https://web.archive.org/web/20150205114536/http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html "The colourful re-entry of ''Mughal-e-Azam''"]۔ ''Sify''۔ 6 اکتوبر 2004. Archived from [http://www.sify.com/movies/the-colourful-re-entry-of-mughal-e-azam-news-bollywood-kkfvHnjdhgf.html the original] on 5 فروری 2015<span class="reference-accessdate">۔ اخذکردہ بتاریخ <span class="nowrap">27 جون</span> 2012</span>۔</cite></ref> <ref name="newrt">{{حوالہ ویب|title=Mughal-E-Azam|url=https://www.bbfc.co.uk/releases/mughal-e-azam-1970|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131029191625/http://www.bbfc.co.uk/releases/mughal-e-azam-1970|archivedate=29 اکتوبر 2013|accessdate=17 اگست 2013|website=[[British Board of Film Classification]]}}</ref>۔ <ref name="zulm">{{حوالہ ویب|title=Mughal-E-Azam DVD preview|url=http://www.zulm.net/modules.php?op=modload&name=News&file=article&sid=414&mode=&order=0|archiveurl=https://web.archive.org/web/20120810210614/http://www.zulm.net/modules.php?op=modload&name=News&file=article&sid=414&mode=&order=0|archivedate=10 اگست 2012|accessdate=17 اگست 2013|website=zulm.net}}</ref> نئی رنگین ریلیز میں وہ ساؤنڈ ٹریک بھی شامل کیا گیا ہے جس پر ڈیجیٹلی دوبارہ کام کیا گیا تھا۔اس ساؤنڈ ٹریک کو اصل موسیقار نوشاد کی مدد سے تیار کیا گیا۔مغل اعظم کو [[دیوالی]] کے تہوار پر ریلیز کیا گیا۔ اس ویک اینڈ پر تین دیگر بڑی فلمیں [[ویر-زارا|ویر زارا]]، [[اعتراض (فلم)|اعتراض]] اور ''ناچ'' بھی ریلیز ہوئی۔ رنگین مغل اعظم کمائی میں اعتراض اور ''ویر زارا سے تو پیچھے رہی لیکن ناچ سے زیادہ کمائی کی۔ اس سال وہ سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں کی فہرست میں 19ویں نمبر پرتھی۔ <ref>{{حوالہ ویب|title=Box Office 2004|url=http://www.boxofficeindia.com/showProd.php?itemCat=210&catName=MjAwNA==|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131014132208/http://boxofficeindia.com/showProd.php?itemCat=210&catName=MjAwNA%3D%3D|archivedate=14 اکتوبر 2013|accessdate=25 جولائی 2012|website=Box Office India}}</ref>
 
مغل اعظم وہ پہلی فلم بھی بن گئے جسے رنگین کرنے کے بعد تھیٹر میں ریلیز کیا گیا یا جسے تھیٹر میں ریلیز کرنے کے لیے رنگین کیا گیا۔ اگرچہ اس سے پہلے کچھ ہالی ووڈ فلموں کو پہلے رنگین کیا گیا تھا لیکن وہ صرف گھریلو میڈیا کے لیے دستیاب تھیں۔ اس کے بعد مغل اعظم کو سات بین الاقوامی فلمی میلوں کے لیے منتخب کیا گیا، جس میں 55واں برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول بھی شامل ہے۔ ریلیز ہونے پر، فلم نے سنیما گھروں میں فلمی شائقین کو اپنی طرف راغب کیاسینماؤں میں شائقین کا مغل اعظم کی طرف رجحان تقریباً 90 فیصد تھا۔ <ref name="reellink">{{حوالہ ویب|last=Doval, Nikita|date=23 نومبر 2004|title=''Mughal-e-Azam''، reel link to past|url=http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2004-11-23/news-interviews/27164695_1_naya-daur-colour-mughal-e-azam|archiveurl=https://archive.today/20130103095516/http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2004-11-23/news-interviews/27164695_1_naya-daur-colour-mughal-e-azam|archivedate=3 جنوری 2013|website=[[دی ٹائمز آف انڈیا]]|accessdate=27 جون 2012}}<cite class="citation web cs1" data-ve-ignore="true" id="CITEREFDoval,_Nikita2004">Doval, Nikita (23 نومبر 2004)۔ [https://archive.today/20130103095516/http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2004-11-23/news-interviews/27164695_1_naya-daur-colour-mughal-e-azam "''Mughal-e-Azam''، reel link to past"]۔ ''[[دی ٹائمز آف انڈیا|The Times of India]]''۔ Archived from [http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2004-11-23/news-interviews/27164695_1_naya-daur-colour-mughal-e-azam the original] on 3 جنوری 2013<span class="reference-accessdate">۔ اخذکردہ بتاریخ <span class="nowrap">27 جون</span> 2012</span>۔</cite></ref> یہ فلم 25 ہفتوں تک سینماؤں پر لگی رہی۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=Chanchal, Anu|date=8 نومبر 2012|title=Top 12: Bollywood Diwali Releases|url=http://www.indiatimes.com/bollywood/top-12-bollywood-diwali-releases-46448-2.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20130610044432/http://www.indiatimes.com/bollywood/top-12-bollywood-diwali-releases-46448-2.html|archivedate=10 جون 2013|accessdate=4 جون 2013|website=The Times of India}}</ref>کچھ نقادوں رنگین فلم کے رنگوں کو غیر فطری قرار دیا جبکہ دیگر نے اس کوشش کو تکنیکی کامیابی قرار دیا۔ <ref name="reellink" /> ''لاس اینجلس ٹائمز'' کے فلمی نقاد کیون تھامس نے تبصرہ کیا کہ اگرچہ زیادہ تر بلیک اینڈ وائٹ کلاسک فلموں کے لیے رنگ کاری اچھا خیال نہیں تھا، لیکن اس خاص موقع یا فلم مثال میں یہ بالکل مکمل اور درست تھا۔ انہوں نے اس کا موازنہ سیسل بی ڈی مل کی ''گون ود دی ونڈ'' (1939) سے کیا۔ ''[[دی گارڈین]]'' نے کہا کہ اگرچہ نیا ورژن ایک بہتری ہے، "جعلی رنگ چپٹے اور چمکدار نظر آتے ہیں، جو سنیماٹوگرافر آر ڈی ماتھر کے خوبصورت انداز میں بنائے گئے شاٹس سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔" بی بی سی کے جسپریت پنڈوہر نےفلم میں دلکش کینڈی رنگوں اور اعلیٰ معیار کی آواز کو "گون ود ''دی ونڈ'' اور ''بین حر'' کے درمیان میں کراس کی طرح قرار دیا۔ <ref name="BBC">{{حوالہ ویب|last=Pandohar, Jaspreet|date=29 مارچ 2005|title=Mughal-E-Azam (The Great Mughal) (2005)|url=https://www.bbc.co.uk/films/2005/03/21/mughal_e_azam_2004_review.shtml|archiveurl=https://web.archive.org/web/20121106180938/http://www.bbc.co.uk/films/2005/03/21/mughal_e_azam_2004_review.shtml|archivedate=6 نومبر 2012|accessdate=12 اگست 2013|website=BBC Home}}</ref> کئی ناقدین نے کہا کہ وہ رنگین پر بلیک اینڈ وائٹ فلم کو ترجیح دیتے ہیں۔
2006 میں، ''مغل اعظم'' [[پاکستانی سنیما|1965 میں ہندوستانی سنیما پر پابندی]] کے بعد سے پاکستان میں نمائش کے لیے چوتھی ہندوستانی فلم بن گئی۔ مغل اعظم کو [[لاہور]] میں ایک پریمیئر کے ساتھ ریلیز کیا گیا۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=Adarsh|first=Taran|date=13 فروری 2006|title='Mughal-E-Azam' censored in Pakistan|url=http://www.sify.com/movies/mughal-e-azam-censored-in-pakistan-news-bollywood-kkfvtdefjcd.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20161103131938/http://www.sify.com/movies/mughal-e-azam-censored-in-pakistan-news-bollywood-kkfvtdefjcd.html|archivedate=3 نومبر 2016|accessdate=1 جولائی 2012|website=Sify}}</ref> اسے ندیم مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ نے آصف کے بیٹے اکبر آصف کی درخواست پر ڈسٹری بیوٹ کیا تھا۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=[[United News of India|UNI]]|date=23 اپریل 2006|title=Mughal-e-Azam releases in Pakistan: will others follow suit?|url=http://www.oneindia.com/2006/04/23/mughal-e-azam-releases-in-pakistan-will-others-follow-suit-1145777672.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20160303234820/http://www.oneindia.com/2006/04/23/mughal-e-azam-releases-in-pakistan-will-others-follow-suit-1145777672.html|archivedate=3 مارچ 2016|accessdate=1 جولائی 2012|website=OneIndia}}</ref>
 
== ورثہ ==
مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف نے مغل اعظم سمیت دو فلمیں ہی ڈائریکٹ کی تھیں۔ ان کی دوسری نامکمل فلم کو ان کی وفات کے بعد خراج تحسین کے طور پر ریلیز کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغل اعظم بالی وڈ میں ایک استعارہ بن گیا، جو ایسے پراجیکٹ کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے مکمل ہونے میں بہت وقت لگتا ہو۔آرٹ ڈائریکٹر اومنگ کمار، جنہوں نے بڑی ہندوستانی فلموں جیسے کہ ''بلیک'' (2005) اور ''ساوریا'' (2007) کے سیٹ ڈیزائن کیے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے شعبے میں دیگر لوگ ''مغل اعظم'' کو آرٹ ڈائریکشن کے لیے ایک تحریک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسے کامل محبت کی کہانی کے ماڈل کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے، جس کے لیے ہدایت کاروں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ محبت کرنے والوں کی رکاوٹوں کو دور کریں۔ <ref name="lasting" /> فلم میں اپنی کامیابی کے بعد، مدھوبالا مزید اہم کرداروں میں کام کر سکتی تھیں، لیکن انہیں دل کی حالت کی وجہ سے زیادہ کام نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا، اور انہیں کچھ پروڈکشنز سے دستبردار ہونا پڑا جو پہلے سے جاری تھیں۔ <ref name="art">{{حوالہ ویب|last=Raheja, Dinesh|date=15 فروری 2003|title=''Mughal-e-Azam'': A work of art|url=http://www.rediff.com/movies/2003/feb/15dinesh.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20121017123138/http://www.rediff.com/movies/2003/feb/15dinesh.htm|archivedate=17 اکتوبر 2012|accessdate=10 جون 2012|website=[[ریڈف ڈاٹ کوم]]}}</ref><ref>{{حوالہ ویب|last=Raheja, Dinesh|date=18 اکتوبر 2002|title=Madhubala: a sweet seduction|url=http://www.rediff.com/entertai/2002/oct/18dinesh.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20120707065755/http://www.rediff.com/entertai/2002/oct/18dinesh.htm|archivedate=7 جولائی 2012|accessdate=29 جولائی 2012|website=Rediff}}</ref>
 
''دی گارڈین'' نے 2013 میں ''مغل اعظم'' کو اس کی تاریخی غلطیوں کے باوجود "سینما کا سنگ میل" قرار دیا، اور بی بی سی نے 2005 میں کہا کہ اسے "بڑے پیمانے پر بالی ووڈ کی سب سے مشہور فلموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے"۔ <ref name="BBC">{{حوالہ ویب|last=Pandohar, Jaspreet|date=29 مارچ 2005|title=Mughal-E-Azam (The Great Mughal) (2005)|url=https://www.bbc.co.uk/films/2005/03/21/mughal_e_azam_2004_review.shtml|archiveurl=https://web.archive.org/web/20121106180938/http://www.bbc.co.uk/films/2005/03/21/mughal_e_azam_2004_review.shtml|archivedate=6 نومبر 2012|accessdate=12 اگست 2013|website=BBC Home}}<cite class="citation web cs1" data-ve-ignore="true" id="CITEREFPandohar,_Jaspreet2005">Pandohar, Jaspreet (29 مارچ 2005)۔ [https://www.bbc.co.uk/films/2005/03/21/mughal_e_azam_2004_review.shtml "Mughal-E-Azam (The Great Mughal) (2005)"]۔ ''BBC Home''۔ [https://web.archive.org/web/20121106180938/http://www.bbc.co.uk/films/2005/03/21/mughal_e_azam_2004_review.shtml Archived] from the original on 6 نومبر 2012<span class="reference-accessdate">۔ اخذکردہ بتاریخ <span class="nowrap">12 اگست</span> 2013</span>۔</cite></ref> 2010 میں ''ٹائمز آف انڈیا'' کے امتیاز علی نے اسےآنے والی فلموں کے لیے معیار قرار دیا۔ ناقدین مغل اعظم کو ہندوستان میں ''گون ود دی ونڈ کے مساوی سمجھتے ہیں۔ {{Sfn|Mahbubani|2009|p=171}} فلم ساز [[سبھاش گھئی]] نے 2010 میں کہا کہ اس طرح کی فلم کو دوہرایا نہیں جا سکتا۔ ''مغل اعظم'' ایک ہمہ وقتی کلاسک ہے اور ہندی سنیما میں ہر سطح پر آخری محبت کی کہانی رہی ہے۔ اس لیے یہ آنے والی نسلوں تک ہمیشہ زندہ رہے گا۔" فلم کی سالگرہ کی یاد میں، اداکار اور پروڈیوسر [[شاہ رخ خان]] نے اپنی کمپنی [[ریڈ چیلیز انٹرٹینمنٹ|ریڈ چلیز انٹرٹینمنٹ]] کے تحت ایک دستاویزی فلم تیار کیا، جس کا عنوان ”مغل اعظم: - بیٹے کی طرف سے اپنے باپ کو خراج تحسین”۔ اس دستاویزی فلم میں خان نے ہی میزبانی کی۔ انہوں نے اس میں آصف کے خاندان اور بالی ووڈ ستاروں کے انٹرویوز شامل ہیں۔ آرٹسٹ [[ایم ایف حسین]] نے ویڈیو کے لیے پینٹنگز کا ایک سلسلہ بنایا، جس میں انھوں نے کچھ یادگار مناظر کی دوبارہ تصویر کشی کی۔ فلم کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوئے، خان نے بتایا کہ ان کے والد کو اصل میں فلم میں کاسٹ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اسے مکمل نہیں کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ''مغل اعظم'' کو دوبارہ بنایا جائے تو انہوں نے جواب دیا: "یہ تمام فلموں کی ماں ہے، ماؤں کو دوبارہ نہیں بنایا جا سکتا"۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=Ahmed, Afsana|date=25 فروری 2011|title=SRK dons new role with Mughal-E-Azam|url=http://timesofindia.indiatimes.com/entertainment/hindi/bollywood/news/SRK-dons-new-role-with-Mughal-E-Azam/articleshow/7569361.cms?|archiveurl=https://web.archive.org/web/20170519011343/http://timesofindia.indiatimes.com/entertainment/hindi/bollywood/news/SRK-dons-new-role-with-Mughal-E-Azam/articleshow/7569361.cms|archivedate=19 مئی 2017|accessdate=3 جولائی 2012|website=The Times of India}}</ref> مغل اعظم کے کوئی سیکوئل تو نہیں بنائے گئے، لیکن ''مان گئے مغل اعظم'' (2008) نے اپنے ٹائٹل اور کہانی میں پلاٹ کا کچھ حصہ شامل کر کے اسے خراج تحسین پیش کیا ہے تاہم اسے ناقدین کی طرف سے انتہائی ناقص ریٹنگ ملی۔ اکتوبر 2016 میں، پروڈیوسر [[فیروز عباس خان]] نے ممبئی کے این سی پی اے تھیٹر میں 70 سے زیادہ اداکاروں اور رقاصوں کی کاسٹ کے ساتھ فلم پر مبنی ایک ''اسٹیج ڈرامے'' کا پریمیئر کیا۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=Chhabra, Aseem|date=27 اکتوبر 2017|title=''Mughal-e-Azam'': A world class Indian production at last|url=http://www.rediff.com/movies/report/mughal-e-azam-a-world-class-indian-production-at-last/20161027.htm|archiveurl=https://web.archive.org/web/20170908141720/http://www.rediff.com/movies/report/mughal-e-azam-a-world-class-indian-production-at-last/20161027.htm|archivedate=8 ستمبر 2017|accessdate=24 اکتوبر 2017|website=[[ریڈف ڈاٹ کوم]]}}</ref>
 
''مغل اعظم'' سرفہرست ہندوستانی فلموں کی فہرست میں شامل ہے، 2002 کے برٹش فلم انسٹی ٹیوٹ کے سروے میں بھی مغل اعظم سرفہرست 10 ہندوستانی فلموں میں شامل ہے۔ <ref name="bfipoll">{{حوالہ ویب|year=2002|title=Top 10 Indian Films|url=http://www.bfi.org.uk/features/imagineasia/guide/poll/india|archiveurl=https://web.archive.org/web/20110515101729/http://www.bfi.org.uk/features/imagineasia/guide/poll/india/|archivedate=15 مئی 2011|accessdate=12 جولائی 2012|website=British Film Institute}}</ref> یہ انوپما چوپڑا کی 2009 کی بہترین بالی ووڈ فلموں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ <ref>{{حوالہ ویب|last=Anupama Chopra|date=24 فروری 2009|title=The Best Bollywood Films|url=http://www.thedailybeast.com/articles/2009/02/24/the-best-bollywood-films.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20120724164748/http://www.thedailybeast.com/articles/2009/02/24/the-best-bollywood-films.html|archivedate=24 جولائی 2012|accessdate=13 جولائی 2012|website=[[The Daily Beast]]}}</ref> یہ آئی بی این لائیو کی 2013 کی "اب تک کی 100 عظیم ترین ہندوستانی فلموں" کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ <ref>{{حوالہ ویب|date=17 اپریل 2013|title=100 Years of Indian Cinema: The 100 greatest Indian films of all time|url=http://www.news18.com/photogallery/movies/100-years-of-indian-cinema-the-100-greatest-indian-films-of-all-time-903065.html|archiveurl=https://web.archive.org/web/20130425234818/http://ibnlive.in.com/photogallery/13200-56.html|archivedate=25 اپریل 2013|accessdate=12 فروری 2014|website=[[IBN Live]]|page=36}}</ref> [[روٹن ٹماٹوز]] نے 10 جائزہ لینے والوں کا نمونہ لیا، ان میں سے 91% نے فلم کے لیے مثبت تجزیہ پیش کیا، جس کی اوسط درجہ بندی 10 میں سے 7.9 ہے <ref>{{حوالہ ویب|title=Mughal E Azam|url=https://www.rottentomatoes.com/m/mughal-e-azam/|archiveurl=https://web.archive.org/web/20161103132958/https://www.rottentomatoes.com/m/mughal-e-azam/|archivedate=3 نومبر 2016|accessdate=22 اگست 2013|website=[[روٹن ٹماٹوز]]}}</ref> یہ باکس آفس انڈیا کی ہندی سنیما میں اب تک کی سب سے بڑی بلاک بسٹرز کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے، <ref>{{حوالہ ویب|title=The Biggest Blockbusters Ever in Hindi Cinema|url=http://www.boxofficeindia.com/showProd.php?itemCat=350&catName=QmlnZ2VzdCBCbG9ja2J1c3RlcnMgRXZlcg==|archiveurl=https://web.archive.org/web/20131021185350/http://www.boxofficeindia.com/showProd.php?itemCat=350&catName=QmlnZ2VzdCBCbG9ja2J1c3RlcnMgRXZlcg%3D%3D|archivedate=21 اکتوبر 2013|accessdate=4 اکتوبر 2012|website=Box Office India}}</ref> اور جولائی 2013 میں برطانوی ایشیائی ہفتہ وار اخبار ''ایسٹرن آئی'' کی طرف سے ہندوستانی سنیما کے 100 سال منانے والے پول کے ذریعے اسے اب تک کی سب سے بڑی بالی ووڈ فلم قرار دیا گیا تھا۔ یہ فلموں کے ایک چھوٹے سے مجموعے سے تعلق رکھتی ہے جس میں ''قسمت'' (1943)، ''[[مدر انڈیا]]'' (1957)، ''[[شعلے]]'' (1975)، اور ''[[ہم آپ کے ہیں کون۔۔!]]'' (1994)، جسے ہندوستان بھر میں بار بار دیکھا جاتا ہے اور ثقافتی اہمیت کی حتمی ہندی فلموں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ [143] فلم کے بارے میں کتابیں لکھی گئی اور دستاویزی فلمیں بنائی گئی، جن میں شکیل وارثی کی ''مغل اعظم: ایک لافانی محبت کی کہانی'' شامل ہیں۔اسے 2009 میں روپا نے شائع کیا۔ <ref name="bh2">{{حوالہ ویب|last=Tuteja, Joginder|date=14 ستمبر 2009|title=Book Review: Mughal-E-Azam&nbsp;– An Epic of Eternal Love|url=http://www.bollywoodhungama.com/news/features/book-review-mughal-e-azam-an-epic-of-eternal-love/|archiveurl=https://web.archive.org/web/20161104035614/http://www.bollywoodhungama.com/news/features/book-review-mughal-e-azam-an-epic-of-eternal-love/|archivedate=4 نومبر 2016|accessdate=19 اگست 2013|website=Bollywood Hungama}}</ref>