"توضیح المسائل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
'''توضیح المسائل''' [[شیعہ اثنای عشری]] کی کتاب فقہ کا نام ہے جو کہ انکے ہر آیت اللہ اپنے علم کے بنیاد پر اجتہاد سے کام لے کر نۓنئے مسائل پر لکھتا ہے ان میں سب سے مشہور آیت اللہ [[ سید علی السیستانیسیستانی]] کی لکھی ہے جن پر اکثر شیعہ لوگ عمل کرتے ہیں۔
اس کتاب میں عملی زندگی کے تمام مسائل قرٓن و سنت کی روشنی میں بیان ہوتے ہیں۔ اس کے متعدد ابواب ہیں جو عبادات اور معاملات کے دو بنیادی حصوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔
==عبادات==
===تقلید===
○ احكام تقليد
 
#ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اصول دین پر یقین رکھتا ہو اور احکام غیرضروری دین میں یا مجتہد ہو جو احکام کو دلیل سے حاصل کرسکے یا کسی مجتہد کی تقلید کرے یعنی اس کے فتوے کے مطابق عمل کرے یا احتیاط پر اس طرح عمل کرے کہ اسے یقین ہوجائے کہ میں تکلیف شرعی کو انجام دے چکا ہوں مثلاً اگر کسی عمل کو بعض مجتہدین حرام جانتے ہوں اور کچھ دوسرے مجتہدین اسی عمل کے متعلق کہتے ہوں کہ حرام نہیں ہے تو اس عمل کو انجام نہ دے اور اگر کسی عمل کو بعض واجب اور بعض مستحب سمجھتے ہوں تو اسے بجالائے تو جو اشخاص نہ مجتہد ہیں اور نہ احتیاط پر عمل کرسکتے ہیں ان پر واجب ہے کہ کسی مجتہد کی تقلید کریں۔
 
#احکام میں تقلید کسی مجتہد کے فتوے کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے اور ایسے مجتہد کی تقلید کرنی چاہئیے جو مرد، بالغ، عاقل، شیعہ اثناعشری، حلال زادہ، زندہ اور عادل ہو اور احتیاط واجب یہ ہے کہ ایسے مجتہد کی تقلید کرے جو دنیا پر حریص نہ ہو اور دوسرے مجتہدین سے اعلم ہو یعنی حکم خدا کے سمجھنے میں اپنے زمانہ کے تمام مجتہدین سے ماہر تر ہو۔
 
#مجتہد اور اعلم کو تین طریقوں سے پہچانا جاسکتا ہے۔
الف: یہ کہ خود انسان کو یقین ہوجائے یعنی یہ کہ وہ خود اہل علم میں سے ہو اور مجتہد اور اعلم کی تشخیص کرسکتا ہو۔
ب: یہ کہ دو عالم عادل جو مجتہد اور اعلم کی تشخیص کرسکتے ہوں کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں بشرطیکہ دوسرے دو عالم عادل ان کے کہے ہوئے کی مخالفت نہ کریں۔
ج: یہ کہ اہل علم کی ایک جماعت جو مجتہد اور اعلم کی تشخیص کرسکتے ہوں اور ان کے کہنے سے اطمینان بھی حاصل ہوجائے وہ کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں۔
 
#اگر اعلم کی پہچان مشکل ہوجائے تو ایسے شخص کی تقلید کرے کہ جس کے اعلم ہونے کا گمان ہو بلکہ اگر احتمال ضعیف رکھتا ہو کہ فلاں اعلم ہے اور یہ جانتا ہو کہ دوسرا اس سے اعلم نہیں ہے تو بنا بر احتیاط واجب اس کی تقلید کرے اور اگر اس کی نظر میں چند اشخاص دوسروں سے اعلم ہیں اور پس میں برابر ہوں تو ان میں سے کسی ایک کی تقلید کرے۔
 
#مجتہد کے فتوے کو معلوم کرنے کے چار راستے ہیں:
١۔ خود مجتہد سے سننا
٢۔ دو عادل اشخاص سے فتوی مجتہد کو سننا
٣۔ ایسے شخص سے سننا جو مورد اطمینان ہونے کے علاوہ سچا بھی ہو۔
٤۔ مجتہد کے رسالہ عملیہ میں دیکھا جائے جبکہ انسان کو اس رسالہ کے صحیح ہونے پر اطمینان ہو۔
 
#جب تک انسان کو مجتہد کے فتوی کے بدل جانے کا یقین نہ ہو اس کے رسالہ میں لکھے ہوئے فتوی پر عمل کرسکتا ہے اور اگر اسے احتمال ہو کہ مجتہد کا فتوی بدل گیا ہے تو جستجو لازم نہیں ہے۔
 
#اگر مجتہد اعلم کسی مسئلہ میں فتوی دے تو اس کی تقلید کرنے والا اس مسئلہ میں دوسرے مجتہد کے فتوی پر عمل نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر مجتہد اعلم فتوی نہ دے اور یہ کہے کہ احتیاط اس طرح عمل کرنے میں ہے مثلاً یہ کہے کہ احتیاط یہ ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ یعنی سبحان ا والحمد ولا الہ الا ا وا اکبر کو تین مرتبہ کہیں تومقلد یا تو اس احتیاط پر عمل کرے کہ جسے احتیاط واجب کہتے ہیں اور تین مرتبہ پڑھے یا دوسرے مجتہد کے فتوی پر عمل کرے اور بنا بر احتیاط واجب اس مجتہد کے فتوی پر عمل کرے جو مجتہد اعلم سے کم اور باقی مجتہدوں سے زیادہ علم رکھتا ہو۔ پس اگر وہ ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کو کافی سمجھتا ہو تو ایک ہی مرتبہ کہے اور یہی صورت ہے اگر مجتہد اعلم کسی مسئلہ میں کہے کہ یہ مسئلہ محل تامّل یا محل اشکال ہے۔
 
#اگر مجتہد اعلم کسی مسئلہ میں فتوی کے بعد احتیاط کہے مثلاً نجس برتن کے متعلق کہے کہ ایک مرتبہ پانی میں دھونے سے پاک ہوجاتا ہے اگرچہ احتیاط تین مرتبہ دھونے میں ہے تو اس کا مقلد اس مسئلہ میں دوسرے مجتہد کے فتوی پر عمل نہیں کرسکتا بلکہ اسے چاہیئے کہ یا اس کے فتوی پر عمل کرے یا فتوی کے بعد والی احتیاط پر کہ جسے احتیاط مستحبی کہتے ہیں مگر یہ کہ دوسرے مجتہد کا فتوی احتیاط سے زیادہ قریب ہو۔
 
#اگر وہ مجتہد جس کی کسی نے تقلید کی ہوئی ہے فوت ہوجائے تو اسے مجتہد زندہ کی تقلید کرنے چاہیئے ہاں اگر اس نے اپنے مجتہد کے فتوی کے مطابق بعض مسائل پر عمل کیا ہو تو اس کے مرنے کے بعد تمام مسائل میں اس کی تقلید کرسکتا ہے۔
 
#اگر کسی مسئلہ میں کسی مجتہد کے فتوی کے مطابق عمل کیا ہو اور اس کے مرنے کے بعد اسی مسئلہ میں زندہ مجتہد کے فتوی کے مطابق عمل کرے تو دوبارہ مردہ مجتہد کی طرف رجوع نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر زندہ مجتہد کسی مسئلہ میں فتوی نہ دے اوراحتیاط کرے اورمقلد ایک مدت تک اس احتیاط پر عمل کرتا رہا ہو تو دوبارہ وہ مُردہ مجتہد کے فتوی کے مطابق عمل کرسکتا ہے مثلاً اگر مجتہد سبحان ا والحمد ولا الہ الا ا وا اکبر کو تیسری اور چوتھی رکعت میں ایک مرتبہ کافی سمجھتا ہو اور مقلد ایک مدت تک اس فتوی کے مطابق عمل کرتا رہا ہو۔ اب اگر وہ مجتہد مرجائے اور زندہ مجتہد احتیاط واجب کے طور پر تین مرتبہ کہنے کو ضروری سمجھے اور مقلد ایک مدت تک اس احتیاط پر عمل کرتے ہوئے تین مرتبہ کہتا رہا ہو تو دوبارہ وہ مردہ مجتہد کے فتوی کے مطابق ایک مرتبہ پڑھ سکتا ہے۔
 
#جن مسائل کی انسان کو عموماً ضرورت پڑتی ہے ان کا سیکھنا واجب ہے۔
 
#اگر انسان کو کوئی مسئلہ درپیش ہو کہ جس کا حکم وہ نہیں جانتا تو وہ مجتہد اعلم کے فتوی کو معلوم کرنے تک صبر کرسکتا ہے اور اگر احتیاط ممکن ہو تو احتیاط پر عمل کرے بلکہ اگر احتیاط ممکن نہ ہو تو اگر اس عمل کے انجام دینے میں کوئی خوف نہ ہو تو ایک طرف پر بنا رکھے جب تک علم حاصل کرے پھر اگر معلوم ہو کہ اس کا عمل مخالف واقع یا مخالف فتوی مجتہد تھا تو اسے دوبارہ انجام دے۔
 
#اگر کوئی شخص کسی مجتہد کا فتوی دوسرے کو بتائے اور پھر مجتہد کا فتوی بدل جائے تو بتانے والے پر لازم نہیں ہے کہ اسے جا کر فتوی کے بدلنے کی اطلاع دے۔ ہاں اگر فتوی نقل کرنے کے بعد اسے معلوم ہو کہ میں نے اشتباہ کیا تھا۔ اب اگر ممکن ہو تو اس اشتباہ کو دور کرے۔
 
#اگر کوئی شخص ایک مدت تک بغیر تقلید کے اعمال بجالاتا رہا ہو تو اس کے اعمال تب صحیح ہوسکتے ہیں جب اسے یقین ہو کہ وہ واقع کے مطابق یا جس مجتہد کی اسے اس وقت تقلید کرنی تھی اس کے فتوی کے مطابق ہوں مگر یہ کہ اس نے اس طرح عمل کیا ہو کہ اس کا عمل ان کے فتوی کے بہ نسبت احتیاط کے زیادہ قریب ہو تو اس صورت میں بھی اس کا عمل صحیح ہے۔
 
==معاملات==
 
[[زمرہ:اہل تشیع]]