"دوران حج حادثات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ مساوی زمرہ جات (22): + 5 زمرہ
انگریزی مضمون کا ترجمہ
سطر 1:
حج کے دوران بہت سارے سنگین حادثات ہوتے رہے ہیں اور ان سے ہزاروں انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہر صاحبِ حیثیت مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک بار حج ادا کرنے کے لیے مکہ پہنچے۔ حج کے مہینے میں مکہ میں لگ بھگ 40 لاکھ عازمینِ حج آتے ہیں۔
{{خالی قطعہ|}}
 
ہوائی سفر کی وجہ سے حاجیوں کا مکہ تک کا سفر بہت آسان ہو گیا ہے اور پوری دنیا سے لوگ فریضہ حج ادا کرنے آتے ہیں۔ نتیجتاً حج کے دوران حاجیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ شہری حکام کو لاکھوں عازمینِ حج کے لیے خوراک، رہائش، نکاسی آب اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے حادثات سے یکسر بچاؤ ممکن نہیں۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران زیادہ تر حادثات ہوتے ہیں کیونکہ حجاج دو منزلہ پل سے گذرتے ہوئے یہ فرض سرانجام دیتے ہیں۔
 
بعض اوقات بڑھتے ہوئے ہجوم جب ایک مناسک حج سے دوسرے کو سفر کرتے ہیں تو ان میں بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ لوگ گھبرا جاتے ہیں اور کچلے جانے سے بچنے کی نیت سے لوگ بھاگنے لگتے ہیں اور سینکڑوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ رمی کے دوران سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک ذیل میں دیے گئے ہیں:
 
* 2 جولائی 1990: مکہ سے منیٰ اور میدانِ عرفات کی طرف جانے والی ایک سرنگ کہ جس سے لوگ پیدل سفر کرتے ہیں، میں بھگدڑ مچی اور 1٫426 افراد جاں بحق ہوئے۔ زیادہ تر کا تعلق ملائیشیا، انڈونیشیا اور پاکستان سے تھا۔
* 23 مئی 1994 کو رمی کے دوران مچنے والی بھگدڑ سے کم از کم 270 حاجی جاں بحق ہوئے۔
* 9 اپریل 1998 کو جمرات کے پل پر ہونے والے ایک حادثے میں 118 افراد جاں بحق اور 180 زخمی ہوئے ۔
* 5 مارچ 2001 کو رمی کے دوران 35 حاجی کچلے جانے سے جاں بحق ہوئے۔
* 11 فروری 2003 کو رمی کے دوران 14 افراد جاں بحق ہوئے۔
* یکم فروری 2004 کو منیٰ میں رمی کے دوران بھگدڑ سے 251 جاں بحق اور 244 زخمی ہوئے۔
* 12 جنوری 2006 کو حج کے آخری دن رمی الجمرات کے دوران کم از کم 346 افراد کچل کر جاں بحق ہوئے اور 289 زخمی ہوئے۔ یہ حادثہ دن کے 1 بجے کے بعد پیش آیا جب عازمینِ حج سے بھری ایک بس کے عازمینِ حج پل جمرات کے مشرقی راستے پر پہنچے تو کچھ افراد گر گئے اور یہ حادثہ شدت اختیار کر گیا۔ اس وقت لگ بھگ 20 لاکھ افراد مناسک حج ادا کر رہے تھے۔
 
اس حادثے کے بعد جمرات کا پل اور شیطان والے ستون ہٹا کر دوبارہ بنائے گئے ہیں۔ ایک زیادہ وسیع اور کئی منزلہ پل بنایا گیا ہے اور شیطان کے ستون بھی نئے اور بڑے بنائے گئے ہیں۔ اب ہر منزل پر آنے اور جانے کے راستے محفوظ تر ہیں۔ مزید برآں رمی کے لیے الگ سے نظام الاوقات بنا دیے گئے ہیں تاکہ اس طرح کے حادثات سے بچا جا سکے۔ جمرات کے میدان کو گول سے بیضوی شکل میں تبدیل کر دیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آسانی سے رمی کر سکیں۔ اس کے علاوہ نئے انتظامات کے تحت آنے اور جانے کے راستے الگ کر دیے گئے ہیں۔
== آتش زدگی ==
* دسمبر 1975 میں گیس کا سلنڈر پھٹنے سے خیمہ بستی میں آگ لگ گئی تھی اور 200 حاجی جاں بحق ہوئے۔
* 5 اپریل 1997کو منیٰ میں 8 ذوالحجہ کو لگنے والی آگ سے 343 حاجی جاں بحق اور 1500 زخمی ہوئے۔ یہ آگ صبح دس سے رات بارہ بجے تک لگی رہی۔ تب سے خیمے آگ سے محفوظ بنائے جاتے ہیں۔
* یکم نومبر 2011 کو دو میاں بیوی کوچ میں لگنے والی آگ سے جاں بحق ہوئے۔
== مظاہرے اور تشدد ==
* 31 جولائی 1987 کو ایرانی مظاہرین اور سعودی فوج کے مابین ہونے والی جھڑپ سے 400 سے زیادہ حجاج جاں بحق جبکہ کئی ہزار زخمی ہوئے۔
* 9 جولائی 1989 کو دو بم پھٹے جن سے ایک حاجی جاں بحق اور 16 زخمی ہوئے۔ سعودی حکام نے 16 کویتی شیعہ افراد کو بم دھماکوں میں ملوث ہونے اور شیعہ ایجنٹ ہونے کے الزام میں سزائے موت دی۔
== بیماریاں ==
بہت سارے ممالک سے آنےو الے عازمین حج کا آزادانہ میل ملاپ ہونے کی وجہ سے غریب ممالک کے حجاج جن کے پاس صحت کی بہتر سہولیات نہیں ہوتیں، عام بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات یہ بیماریاں وبائی حالت اختیار کر لیتی ہیں۔ ایسے حجاج اپنے گھروں کو واپسی پر بیماری ساتھ لے جاتے ہیں۔ 1987 کے حج کے بعد گردن توڑ بخار نے اس وقت عالمی وبا کی شکل اختیار کر لی جب حجاج اس بیماری کو اپنے اپنے ممالک میں واپس لے گئے۔ اب یہ ویزہ کی لازمی شرط ہے کہ مخصوص بیماریوں کے خلاف ویکسین کرا لی جائے۔ 2010 کی شرائط میں ییلو فیور، پولیو اور انفلوئنزا کی ویکسین بھی لازمی قرار دی گئی ہیں۔
== میرس (مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم کورونا وائرس) ==
2013 میں سعودی حکومت نے شدید بیمار اور بوڑھے افراد کو اس سال حج ملتوی کرنے کی درخواست کی اور اس بیماری کی وجہ سے حجاج کی کل تعداد میں بھی کمی کر دی۔ یکم نومبر 2013 کو ایک خاتون جب حج ادا کر کے واپس سپین پہنچی تو اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ اگرچہ یہ بیماری حجاج میں پھیلی تو نہیں لیکن اس کے پھیلنے کے خطرات کافی ہیں۔
== قدیم وبائیں ==
1905 میں مصر میں 6 حجاج کو جب قرنطینہ میں رکھا گیا تو ان میں ہیضے کی علامات پائی گئیں۔
== ال غزہ ہوٹل کا حادثہ ==
5 جنوری 2006 کو مسجد الحرام کے پاس ایک کثیر منزلہ ہوٹل کی پختہ عمارت گر گئی۔ا س ہوٹل میں ایک سٹو اور ایک ریستوران بھی تھے۔ ہوٹل حجاج کو ٹھہرایا جانا تھا۔ حجاج کی تعداد کے بارے تو علم نہیں لیکن اس حادثے میں کل 76 افراد جاں بحق اور 64 زخمی ہوئے۔
== دیگر مہلک حادثات ==
دسمبر 2006 کے حج کی ابتداء سے پہلے 243 حجاج جاں بحق ہو گئے۔ سعودی حکومت کے مطابق اموات کی وجوہات میں دل کے امراض اور بوڑھے لوگوں کا گرمی اور سخت محنت برداشت نہ کر سکنا تھا۔ حج کے بعد نائجیرین حکومت نے اعلان کیا کہ ان کے 33 باشندے فشارِ خون، ذیابیطس اور دل کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور یہ بھی کہ یہ ہلاکتیں کسی وبائی مرض سے نہیں ہوئیں ۔اسی طرح 22 فلپائنی بھی جاں بحق ہوئے۔ پاکستان کے 130 حاجی جاں بحق ہوئے جن کی اکثریت بہت بوڑھی اور کمزور تھی اور نمونیا اور دل کے امراض سے جاں بحق ہوئے۔
 
دسمبر 2006 کے اوائل میں حجاج کو مدینہ سے مکہ لے جانے والی ایک کوچ کو حادثہ پیش آیا جس سے 3 برطانوی شہری جاں بحق اور 34 زخمی ہوئے۔
نومبر 2011 میں بیماریوں اور ٹریفک حادثات کے سبب 13 افغان جاں بحق اور درجن بھر زخمی ہوئے۔
== جیب تراشی ==
حالیہ برسوں میں حجاج کو جیب تراشوں سے کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ سیو مدینہ فاؤنڈیشن کے مطابق 2010 کے حج میں 321 وارداتیں ہوئیں۔
== سرکاری ردِ عمل ==
سعودی حکومت نے سی سی ٹی وی کیمروں کا ایک جال بچھایا ہوا ہے جس سے سکیورٹی کا انتظام بہتر ہوگا۔
 
ناقدین کے مطابق ایسی صورتحال سے بچاؤ کے لیے سعودی حکومت کو مزید اقدامات کرنے چاہیے تھے۔سعودی حکومت کے مطابق اس طرح کے عظیم اجتماعات کے دوران لوگوں کو کنٹرول کرنا بہت مشکل اور خطرناک ہو جاتا ہے اور یہ کہ انہوں نے اس مسئلے سے بچاؤ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
 
سب سے بڑا اور سب سے متنازعہ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ رجسٹریشن، پاس پورٹ اور ویزوں کے لیے نیا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ اس نظام کے تحت پہلی بار آنےو الے افراد کے لیے سہولیات ہوں گی تو بار بار آنے والے افراد کی آمد کو کم کیا جا سکے گا۔ صاحبِ حیثیت افراد جو ایک سے زیادہ حج کرنا چاہتے ہیں، نے اس پر احتجاج کیا ہے لیکن سعودی حکومت کے مطابق یہ کام بہت ضروری ہے۔
 
2004 کی بھگدڑ کے بعد سعودی حکومت نے جمرات کے پل کے آس پاس بہت بڑا تعمیراتی منصوبہ شروع کیا ہے۔ اضافی راستے اور ہنگامی صورتحال میں نکلنے کے اضافی راستے بنائے گئے ہیں۔ شیطان والے تین ستونوں کی جگہ اب دیواریں لگائی گئی ہیں تاکہ رمی آسان ہو سکے۔ اس کے علاوہ رمی کے لیے پل کی پانچ منزلیں بنانا بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔
[[زمرہ:سعودی عرب میں بیسویں صدی]]
[[زمرہ:سعودی عرب میں اکیسویں صدی]]