"ضلع ارریہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستگی
درستگی
سطر 79:
آرتھر ہینری فاربس نے والد کے فوت ہوجانے کے بعد حکومت سنبھالی اسی کے وقت میں سلطان پور کا نام بدل کر فاربس گنج رکھا گیا یہ ظالم قسم کا انسان تھا اسی نے ڈگڈگی پٹوائی کہ سلطان پور کا کوئی بھی باشندہ اپنے رہنے کے لئے پکا مکان نہیں بناۓ گا،  
 
اس خاندان کا آخری وارث مسٹر مکائی تھا،  1947ء کے بعد یہ خاندان انگلینڈ چلا گیا،  اور آزادی کے بعد سے سنہ 1990ء تک موجودہ ارریہ [[پورنیہ ضلع]] کا حصہ بنا رہا،  14 جنوری 1990ء کو یہ ایک نئے ضلع کے طور پر رونما ہوا تب سے یہ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔<ref group="bih.ininc.in" name=":0">bih.inc.in</ref> 
 
سن 1864ء میں ارریہ برگاچھی کے قریب گرائنی کوٹھی میں ارریہ سب ڈویژن قائم کیا گیا تھا،<ref name=":0">jagran.com 17nov. 2013</ref>  
 
سیلاب کی وجہ سے سن 1875ء سب ڈویژن کچہری کو موجودہ مقام پر منتقل کر دیا گیا لیکن جس مقام سے حکومت نے اپنی شروعات کی تھی آج وہ جگہ اجاڑ اور نظر انداز کی ہوئی ہے،  ماضی کے کئی حاکموں نے یہاں نہ مٹنے والی نشانیاں چھوڑی ہیہیں<ref name=":0" />ں۔  
 
دوسری طرف  اٹھارہ1860ء ساٹھکے  آس پاس میر صاحب کا انتقال ہوگیا ان کا کوئی وارث نہیں تھا،  نتیجتانتیجتاً دھیرے دھیرے ان کی بھی زمینداری الیک زینڈر فاربس کی زمینداری میں شامل ہو گئی یا کر دی گئی،  الیک زینڈر فاربس نے پورے پرغنے میں نیل کی کھیتی کروائی جب یوروپ میں کیمیائی طور پر نیل بننے لگا تو نیل کی کھیتی بند کروا دی گئی 1890ء میں الیک زینڈر فاربس اور اس کی بیوی ڈائینا کی ملیریا کے سبب موت ہوگئی، اس کے انتقال تک سلطان پور کی زمینداری پورنیہ ضلع کی سب سے بڑی زمینداری بن گئی تھی۔تھی،  
 
آرتھر ہینری فاربس نے والد کے فوت ہوجانے کے بعد حکومت سنبھالی اسی کے وقت میں سلطان پور کا نام بدل کر فاربس گنج رکھا گیا یہ ظالم قسم کا انسان تھا اسی نے ڈگڈگی پٹوائی کہ سلطان پور کا کوئی بھی باشندہ اپنے رہنے کے لئے پکا مکان نہیں بناۓ گا،  
 
اس ونشخاندان کا آخری وارث مسٹر مکائی تھا،  1947ء کے بعد یہ خاندان انگلینڈ چلا گیا،  اور آزادی کے بعد سے سنہ 1990ء تک موجودموجودہ ارریہ ضلع [[پورنیہ ضلع]] کا حصہ بنا رہا،  14 جنوری 1990ء کو یہ ایک نئے ضلع کے طور پر رونما ہوا تب سے یہ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے <ref name=":0" group="bih.inc.in" /> 
 
سن 1864ء میں ارریہ برگاچھی کے قریب گرائنی کوٹھی میں ارریہ سب ڈویژن قائم کیا گیا تھا۔تھا،  
 
سیلاب کی وجہ سے سن 1875ء سب ڈویژن کچہری کو موجودہ مقام پر منتقل کر دیا گیا لیکن جس مقام سے حکومت نے اپنی شروعات کی تھی آج وہ جگہ اجاڑ اور نظر انداز کی ہوئی ہے،  ماضی کے کئی حاکموں نے یہاں نہ مٹنے والی نشانیاں چھوڑی ہیں۔  <ref>jagran.com 17 nov.   2013</ref>13
 
نیپال کی قومی سر حد کے پاس بسے ارریہ ضلع میں  آزادی کی جد و جہد کی تاریخ سنہری رہی ہے سن 1857ء کی پہلی جنگ آزادی سے لیکر 1942ء کی اگست کرانتی تک ارریہ کے بہادروں نے ورہر موقع پر اپنی شہادت دی اور دیشرکودیش کو غلامی کی زنجیر سے آزاد کرانے میں زبردست مدد دی ضلع کے باشندوں کو ان بہادروں پر فخر ہے،  تاریخی آ اوراق کے مطابق 1857ء میں جب آ انگریزوں کے غلاف بغل بچا تو  جلپائی گڑی اور  ڈھاکہ میں تعینات بھارتی جوانوں نے ارریہ ضلع کے ناتھ پور میں انگریزی بندوقوں کا بہادری سے سامنا کیا انگریزوں کو دھول چٹاتے ہوے بھارتی فوجیوں نے نیپال کی چترا گدھی میں [[کوسی ندی]] پار کی اور ترائی جنگل مارک سے اودھ کی بیگم حضرت محل کا ساتھ دینے کیلئے آگے بڑھ گیۓ حالانکہ اس دوران انہیں کوسی ندی کی تیز دھارا میں اپنے کئی گھوڑے اور سامان گنوانے پڑے لیکن دوسری اور کھڑا میجر رچارڈ سن ان کا بال بھی بانکا نہ کر سکا۔  بہر حال 1857ء کے ان بہادروں نے جس جذبہ سے آزادی کا بیج بویا اس کا پھل بیسویں صدی میں دیکھنے کو ملا۔
 
ضلع کی تحریک آزادی کا بانی رام دینی تواری دوجدینی کو مانا جاتا ہے ان کی اور بابو بسنت سنگھ کی ماتحتی میں بہادروں کی جو فوج اس علاقہ میں تیار ہوئی اس نے انگریزوں کو ہر وقت ناک میں دم کیے رکھا۔  اور گاندھی جی کے درسی ساتھی رام لال منڈل جنہوں نے ڈانڈی یاترا میں حصہ لیا تھا اور جن کی آواز سریلی تھی باپو کو رامائن سنایا کرتے تھے  اسی ضلع کے بھوڑ ہڑ گاؤ کے باشندہ تھے۔<ref>bharatdiscovery.org</ref> 
 
bharatdiscovery.org
 
ارریہ ابتدائی طور پر ایک دیہاتی ضلع ہے اس کی تقریباً ۹۳ فیصد آبادی دیہاتی علاقوں میں رہتی ہے ضلع کل ۹ تحصیل ہیں جن ميں سے دو ارریہ شہر اور فاربس گنج شہری حیثیت کے حامل ہیں