"تھیلیسیمیا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:سائنس
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 10:
[[Image:autorecessive.svg|thumb|left|ہر بچے میں 23 [[کروموزوم]] باپ سے آتے ہیں اور 23 ماں سے۔ اگر باپ ماں دونوں تھیلیسیمیا مائینر کے حامل ہوں تو انکے 25 فیصد بچے تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو سکتے ہیں]]
== تھیلیسیمیا مائینر==
تھیلیسیمیا مائینر کی وجہ سے [[مریض]] کو کوئکوئی تکلیف یا شکایت نہیں ہوتی نہ اسکی [[زندگی]] پر کوئکوئی خاص اثر پڑتا ہے۔علامات و شکایات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی [[تشخیص]] صرف [[لیبارٹری]] کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔ ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں مگر یہ لوگ تھیلیسیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔ تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی ، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں۔
 
تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا خواتین جب حاملہ ہوتی ہیں تو ان میں [[خون]] کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
سطر 23:
==وراثت مرض==
*اگر والدین کسی بھی قسم کے تھیلیسیمیا کے حامل نہ ہوں تو سارے بچے بھی نارمل ہوتے ہیں۔
*اگر والدین میں سے کوئکوئی بھی ایک تھیلیسیمیا مائینر کا شکار ہو تو انکے 50 فیصد بچے تو نارمل ہوں گے جبکہ بقیہ 50 فیصد بچے تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہوں گے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ ایسے کسی جوڑے کےسارے بچوں کو تھیلیسیمیا مائینر ہو یا چند بچوں کو ہو یا کسی بھی بچے کو نہ ہو۔
* اگر دونوں والدین تھیلیسیمیا مائینر کا شکار ہوں تو 25 فیصد بچے نارمل، 50 فیصد بچے تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا جبکہ 25 فیصد بچے تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ہوں گے۔
*اگر والدین میں سے کوئکوئی بھی ایک تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو تو انکے سارے کے سارے بچے تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہوں گے۔
*اگر والدین میں سے کوئکوئی بھی ایک تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو اور دوسرا تھیلیسیمیا مائینر کا شکار ہو تو انکے 50 فیصد بچے تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہوں گےجبکہ بقیہ 50 فیصدبچے تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ہوں گے۔
* اگر دونوں والدین تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہوں تو سارے کے سارے بچے بھی تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ہوں گے۔
 
==پاکستان میں تھیلیسیمیا مائینر کی شرح==
حکومتی سطح پر [[پاکستان]] میں اسکے لیئے کوئلیے کوئی [[سروے]] نہیں کیا گیا ہے لیکن [[بلڈ بینک]] کے [[اعداد و شمار]] سے اندازہاندازا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بی ٹا تھیلیسیمیا پایا جاتا ہے اور بی ٹا تھیلیسیمیا مائینر کی شرح 6 فیصد ہے یعنی سن 2000 میں ایسے افراد کی تعداد 80 لاکھ تھی۔ جن خاندانوں میں یہ مرض پایا جاتا ہے ان میں لگ بھگ 15 فیصد افراد تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہیں۔
 
کراچی میں قائم تھیلیسیمیا کے علاج اور روک تھام سے متعلق ادارے عمیر ثنا فاﺅنڈیشن کے تیار کردہ تحریری مواد کے مطابق اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور ہر سال ان مریضوں میں 6 ہزار کا اضافہ ہورہا ہے۔
سطر 40:
 
==تشخیص==
خون کا ایک ٹیسٹ جسے [[ہیموگلوبن الیکٹروفوریسز]] (Hemoglobin electrophoresis) کہتے ہیں اس بیماری کی تشخیص کر سکتا ہے۔ تھیلیسیمیا کی تشخیص کے لیئے لیے یہ ٹیسٹ زندگی میں ایک ہی دفعہ کیا جاتا ہے اور چھ ماہ کی عمر کے بعد کیا جاتا ہے۔ اگست 2011 میں کراچی میں آغا خان ہسپتال کی لباریٹریاں یہ ٹسٹ 1420 روپیہ میں کرتی تھیں۔
 
چھ ماہ سے زیادہ عمر کے نارمل افراد میں [[ہیموگلوبن]] کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ہیموگلوبن A سب سے زیادہ ہوتا ہے یعنی 96%۔ ہیموگلوبن A2 صرف 3% ہوتا ہے جبکہ ہیموگلوبن F محض ایک فیصد ہوتا ہے۔ ہیموگلوبن A2 اور ہیموگلوبن F میں beta chain نہیں ہوتی. ہیموگلوبن A2 دو الفا اور دو ڈیلٹا زنجیروں سے ملکر بنتا ہے جبکہ ہیموگلوبن F دو الفا اور دو گاما زنجیروں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے α<sub>2</sub>γ<sub>2</sub> سے ظاہر کرتے ہیں۔ پیدائش سے پہلے بچے کے خون میں 95% تک ہیموگلوبنF ہوتا ہے مگر 6 مہینے کی عمر تک اسکی مقدار کم ہوتے ہوتے ایک فیصد تک رہ جاتی ہے اور اسکی جگہ ہیموگلوبن A لے لیتا ہے۔ ( A برائے adult اور F برائے foetal۔)
سطر 47:
<br />
تھیلیسیمیا مائینر کے حامل افراد کے خون کے خلیئے یعنی [[RBC]] جسامت میں چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس حالت کو microcytosis کہتے ہیں۔<br />
تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا بچوں کی تلی (spleen) بہت بڑی ہوتی ہے جسکیجس کی وجہ سے انکا پیٹ پھولا ہوا ہوتا ہے۔
 
==علاج==
سطر 53:
اگر خون کی کمی ہو تو تھیلیسیمیا مائینر کے حامل افراد کو روزانہ ایک ملی گرام فولک ایسڈ (Folic acid) کی گولیاں استعمال کرتے رہنا چاہیے تاکہ ان میں خون کی زیادہ کمی نہ ہونے پائے۔ خواتین میں حمل کے دوران اسکی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
 
بی ٹا تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا افراد کو ہر دو سے چار ہفتوں کے بعد خون چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک بوتل خون میں تقریباً 250 ملی گرام لوہا (Iron) موجود ہوتا ہے جسے انسانی جسم پوری طرح خارج نہیں کر سکتا۔ بار بار خون کی بوتل چڑھانے سے جسم میں Iron کی مقدار نقصان دہ حد تک بڑھ جاتی ہے اور اسطرح [http://en.wikipedia.org/wiki/Hemosiderosis Hemosiderosis] کی بیماری ہو جاتی ہے جو [[دل]] اور [[جگر]] کو بہت کمزور کر دیتی ہے۔ اس لیئے لیے بار بار خون لگوانے والے مریضوں کو iron chelating دوائیں استعمال کرنی پڑتی ہیں جو جسم سے زائید iron خارج کر دیتی ہیں۔ ایسی ایک دوا کا نام desferrioxamine ہے جو ڈرپ میں ڈال کر لگائ جاتی ہے۔ اسکی قیمت تقریباً 5000 روپیہ ماہانہ پڑتی ہے۔ یہ ہفتے میں پانچ دن لگانی پڑتی ہے اور ہر ڈرپ آٹھ سے دس گھنٹے میں ختم ہوتی ہے۔[http://www.biomedcentral.com/1756-0500/4/287]<br />
 
جسم سے آئرن کم کرنے کے لیئے لیے کھانے کی گولیاں بھی دستیاب ہیں مگر وہ بہت مہنگی پڑتی ہیں مثلاً deferasirox) Exjade) اور (Ferriprox (deferiprone
[[File:Spleen after spleenectomy.jpg|thumb|بی ٹا تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ایک بچے کی تلی جراحی کر کے نکال دی گئی ہے۔ یہ تلّی اپنی نارمل سائز سے 15 گنا زیادہ بڑی ہے۔]]