"فرہنگ اصطلاحات فن خطاطی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
م درستی املا
سطر 16:
| تعلیق || عربی زبان میں لٹکانے یا معلق کرنے کو کہتے ہیں۔ خط تعلیق میں حروف ایک دوسرے سے معلق ہوتے ہیں۔ اس خط کو ایران میں ساتویں صدی ہجری میں خواجہ تاج الدین نے ایجاد کیا۔ یہ خط ایران کے قدیم خطوط مثلاً پہلوی، اوستائی اور کوفی سے اثر ق ول کرکے وجود میں آیا۔ بعد میں ضرورت کی بناء پر نیز کثرت استعمال کی وجہ سے درباروں میں رائج ہوگیا۔ اس خط کی سہل اور آسان شکل کو ترسیل کہتے ہیں۔ خط تعلیق میں تمام حروف خمیدہ اور ترچھی شکلوں کی جانب مائل نظر آتے ہیں۔
|-
| توقیع || توقيع کے لفظی معنی دستخط یا فرمان شاہی کے ہیں۔ یہ خط ثلث کی ترمیم شدہ شکل ہے، جس کے الفاظ ثلث سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کی سرکاری دستاویزات کی کتابت کے لئےلیے یہ خط مستعمل تھا۔ عموماً قرآن مجید کی کتابت کے دوران میں سورتوں کے نام اس خط میں لکھے جاتے ہیں۔ توقیع خطاط کے مختصر دستخط کو بھی کہتے ہیں جو عموماً ہر خطاط اپنے خطی نمونے کے بعد اس میں مناسب جگہ پر لکھتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی خطاط اپنی پوری فنی زندگی کے مختلف ادوار میں ایک یا ایک سے زائد توقیعات لکھتا ہے۔
|-
| ثلث || ثلث عربی میں ایک تہائی کو کہتے ہیں۔ خط ثلث تمام اسلامی خطوط میں خوبصورت ترین خط ہے۔ اسکی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ مثلاً
١) یہ مشکل ترین خط ہے اور جو شخص اس خط پر عبور حاصل کرلے وہ باقی خطوط بھی بآسانی لکھ سکتا ہے گویا ایسا شخص ایک تہائی خطاطی پر حاوی ہوجاتا ہے۔
٢) اس خط میں چھ حصوں میں سے گردش دو حصے اور سطح چار حصے ہوتی ہے۔ اسی تناسب کی وجہ سے اسے ثلث کہتے ہیں۔
٣) ثلث( تہائی )، نصف( آدھا )، ثلثين( دوتہائی ) مختلف خطوط کے نام ہیں۔ یہ نام ہر خط کو لکھنے کے لئےلیے درکار وقت کی بناء پر پڑے۔
٤))مختلف خطوط لکھنے کے لئےلیے کاغذ کے مختلف سائز مخصوص تھے۔ سب سے بڑے سائز کا کاغذ طومار کہلاتا تھا جس کی چوڑائی گھوڑے کے چوبیس بالوں کے برابر تھی۔ خط ثلث لکھنے کے لئےلیے اس کاغذ کا ایک تہائی کاغذ( یعنی آٹھ بالوں کی چوڑائی ) درکار تھی۔ اسی لئےلیے اسے ثلث کہا گیا۔
|-
| جلی || جلی کے معنی ہے صاف اور واضح۔ اگر کسی خط کو بڑے اور آسانی سے پڑھے جانے والے حروف میں لکھا جائے تو اسے جلی کہتے ہیں۔ جلی کوئی علاحدہ خط نہیں بلکہ عام طور پر خط کے نام کے بعد لکھا جاتا ہے مثلاً ثلث جلی، نستعلیق جلی، دیوانی جلی وغیرہ۔ عموماً جلی لکھنے کیلئے قلم کا قط ایک سینٹی میٹر یا اس سے زائد رکھا جاتا ہے۔
|-
|جلی دیوانی ||یہ خط دیوانی کی زیادہ پیچیدہ اور زیادہ آرائش والی شکل ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے عہد میں یہ خط، سلطان اور شاہی محل کی اہم ترین دستاویزات کی کتابت کے لئےلیے مستعمل تھا۔ اس کا پڑھنا آسان نہیں اس لئےلیے اس کو پڑھنے کے لئےلیے خاص مہارت درکار ہے۔
|-
|حلیہ||حلیہ یا حلیۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطاطی کے اس خوبصورت نمونے کو کہتے ہیں جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے مروی ایک روایت کی خطاطی کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف مبارکہ بیان کئے گئے ہیں۔ حلیہ لکھنے کی ابتداء قرآن مجید کی کتابت کے حوالے سے مشہور ترک خطاط حافظ عثمان( ١٦٤٢_ ١٦٩٨) نے کی۔ اس کے بعد تمام ترک خطاطوں نے حلیہ ہائے مبارکہ لکھے اور یہ روایت برابر قائم ہے۔
سطر 32:
|خط||ابتدا میں خط اس لکیر کو کہتے تھے جسے زمین پر کھود کر یا ریت پر، لکڑی کی نوک یا انگلی سے بنایا جائے۔ بعد کے ادوار میں خط کے معنی رسم کتابت کے ہوگئے یعنی عربی زبان لکھنے کا طریقہ۔ د نیا کی کسی قوم نے مسلمانوں سے زیادہ اپنے خط میں حسن و جمال کے پہلو پیدا نہیں کئے اور نہ ہی کسی قوم نے اپنے خط کی اتنی اقسام ایجاد کی جتنی مسلمانوں نے کی۔
|-
|دیوانی||دیوانی کے معنی ہیں سرکاری۔ یہ خط ترکوں کا ایجاد کردہ ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے عہد میں دیوان شاہی کے فرامین اور اہم کاغذات کی کتابت کے لئےلیے مستعمل تھا اس لئےلیے دیوانی کہلایا۔ اس خط کو خط ہمایونی بھی کہا جاتا ہے۔
|-
|رقاع||رقاع جمع ہے رقعہ( کاغذ کا پرزہ یا مکتوب ) کی۔ حسابی کام رقعوں پر اسی خط میں کیا جاتا تھا۔ نیز یہ خط رقعات و مکاتیب لکھنے کے لئےلیے بھی مستعمل تھا۔ خط رقاع کو خط اجازہ بھی کہا جاتا ہے۔
|-
|رقعہ||رقعہ مکتوب کو کہتے ہیں۔ یہ خط خطِ رقاع میں کئی تبدیلیوں کے بعد عالمِ وجود میں آیاـ اس کی ایجاد کا اصل مقصد روزمرّہ اور عام تحریر کے لئےلیے ایک ایسے خط کی ضرورت تھی جسے سہولت اور تیز رفتاری سے لکھا جاسکے ـ اس میں دیگر خطوط کی بہ نسبت سیدھا پن زیادہ ہے۔ آج کل روزمرہ خط و کتابت کے لئےلیے عرب ممالک میں یہی خط مستعمل ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات واشتہارات کی سرخیوں کے لئےلیے بھی یہی خط استعمال کیا جاتا ہے۔
|-
|ریحانی||اسے خط محقق سے اختراع کیا گیا ہے چنانچہ یہ خط محقق کے تابع اور محقق کی خوبصورت شکل ہےـ یہ خوبصورتی میں ریحان کی سی نزاکت رکھتا ہے اس نازکی اور نفاست کی وجہ سے خط ریحانی کہلایا ـ
|-
|زلفِ عروس ||اسے زلفِ عروس اس لئےلیے کہا جاتا ہے کہ اس خط کے شروع میں اور آخر میں نیم گولائی دے کر زلف کی ہیئت پیدا کی جاتی ہے ـ دیکھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ زلف کے بال حروف کے دامن سے گزر رہے ہیں ـ
|-
|مشق ________؟؟ ||زیر مشق چمڑے یا موٹے کاغذ کی اس تہہ کو کہتے ہیں جس پر کاغذ پھیلا کر کتابت کی جاتی ہے ـ
سطر 61:
اس میں کاغذ کے ایک جانب یا تو ایک خط( مثلاً نسخ یا تعلیق ) یا دو خطوط( مثلاً ثلث+نسخ یا محقق +ریحانی) میں خطاطی کی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ ثلث + نسخ میں قطعے لکھے گئے۔ قطعے کے درمیان میں اور چاروں طرف خوبصورت رنگین نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اسے گتے پر چسپاں کر کے فریم کر دیا جاتا ہے۔
|-
|کراسہ||موجودہ عربی زبان میں کراسہ نوٹ بک یا کاپی کو کہتے ہیں۔ فن خطاطی میں کراسہ خطاطی سیکھنے کے لئےلیے رہنما کتاب کو کہا جاتا ہے جس میں مفردات اور مرکبات اصول کے تحت لکھنے کے لئےلیے رہنمائی کی گئی ہو۔ مختلف عربی خطوط سیکھنے کے لئےلیے جو کراسے معروف ہیں ان میں محمد شوقی آفندی، شیخ عبد العزیز الرفاعی، مصطفی عزت، ہاشم محمد بغدادی، سید ابراہیم وغیرہ کے کراسے فنی حیثیت سے بلند مقام کے حامل ہیں۔ لاہوری طرز نستعلیق سیکھنے والوں کے لئےلیے تاج الدین زریں رقم کی معروف کتاب "مرقع زریں" بھی کراسہ کہی جا سکتی ہے۔
|-
|کوفی ||خط کوفی شہر کوفہ میں ایجاد ہوا اسی لئےلیے کوفی کہلایا۔ یہ مروجہ عربی خطوط میں قدیم ترین ہے۔ اسے خلیل بن احمد بصری نے ٦٠ھ میں خط حری میں اصلاح کے بعد ایجاد کیا۔ اس زمانے سے قرآن مجید کی کتابت خط کوفی میں ہونے لگی نیز مساجد و عمارات میں بطور تزئینی خط کے بھی اس کا استعمال شروع ہوا۔ خط کوفی کے اجزاء میں مستقیم سطور اور مختلف زاویے شامل ہیں۔ خط کوفی کے بے شمار اقسام ہیں جن میں کوفی اولیہ، کوفی سادہ، کوفی بنایی، کوفی تربیعی، کوفی تزئینی، کوفی جمیل، کوفی مبسوط، کوفی مورق، کوفی مشجر، کوفی مشکول، کوفی موشح وغیرہ شامل ہیں۔
|-
|گلزار ||اس خط میں حروف کے داخلی حصہ کو گل بوٹوں اور پتوں سے ماہرانہ انداز میں مزین کیا جاتا ہے۔ گویا کہ ایک گلزار کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس خط کے لکھنے کے دوران میں اس نے بات کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ خوش نویسی کے اصول کی رعایت باقی رہے۔ عموماً نستعلیق ہی میں لکھا جاتا ہے۔
|-
|متعاکس۔.۔ متناظر ||کسی بھی خط کو اگر اس طرح لکھا جائے کہ ایک طرف اصل خط اور دوسری طرف اس کا عکس الٹی لکھائی کی صورت میں لکھا جائے تو اسے متعاکس یا متناظر کہتے ہیں۔ ایسا لکھنے کے لئےلیے انتہائی مہارت درکار ہے کیونکہ ایک جانب لکھے حروف کو بالکل الٹ اسی طرح لکھنا کہ کوئی فرق نہ نظر آئے نہایت مشکل کام ہے۔
|-
|محقق ||یہ خط ثلث سے ماخوذ ہے۔ پڑھنے میں صاف ہونے کی بنا پر محقق کہلایا۔ یہ خط اسناد اور دستاویزات کی کتاب کے لئےلیے مستعمل تھا۔
|-
|مرقع||مرقع اس البم کو کہتے ہیں جس میں کئی قطعے یا خطاطی کے دیگر نمونے ترتیب سے رکھے گئے ہوں۔ مرقع میں تمام نمونے علاحدہ علاحدہ یا یکجا ہوتے ہیں۔
سطر 79:
|نزول مجازی||قلم کی حرکت اوپر سے نیچے ہو لیکن خط۔ مستقیم میں نہ ہو تو یہ نزول مجازی کہلاتا ہے۔
|-
| نسخ || قخط نسخ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دو آراء پائی جاتی ہے۔ پہلی رائے کے مطابق خط نسخ کی ایجاد سے قبل کتابت قرآن مجید خط کوفی میں ہوتی تھی۔ خط نسخ نے خط کوفی کو منسوخ کر دیا اس لئےلیے یہ نسخ کہلایا۔ اس کے بعد کتابت قرآن مجید اسی خط میں ہونے لگی۔ دوسری رائے کے مطابق چونکہ قرآن مجید کی کتابت ایک نسخے سے دوسرے کو نقل کر کے کی جاتی تھی اس لئےلیے یہ نسخ(یعنی نقل کرنا) کہلایا۔ یہ وہ معروف ترین خط ہے جو تقریباً ایک ہزار سال سے اپنی خوبیوں کی بنا پر کتابت قرآن مجید کے لئےلیے مستعمل اور پسندیدہ ہے۔ اس خط کی خوبی یہ ہے کہ الفاظ کا عرض طوالت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے اس لئےلیے حروف پر اعراب و نقاط اپنے صحیح مقام پر بآسانی لگائے جاسکتے ہیں۔
 
|-