"افراط زر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م حوالہ جات ٹیگ کا خودکار اندراج
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 28:
کینز Keynes کے پیش کردہ نظریہ ترجیح سیال کا گرم با زاری کا پہلو برطانیہ میں 47۔ 1945 میں پایا ثبوت کو پہنچا۔ 1945 میں انگلینڈ کے مرکزی بینک کی مروجہ شرح 3 فیصد تھی، اس کو گھٹا کر ڈھائی فیصد کردیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا اور دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا، اس لیے ہر چیز کی کمی تھی اور سرمایا کاری کا زرین موقع تھا، کینز Keynes کے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’اختتامی کارکردگی اصل‘ Marginal Efficiency of Capital بڑھ گئی تھی۔ سرمایا کار اپنا سرمایا لگانے کو تیار بیٹھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اختتامی کارکردگی میں اضافہ کے باعث زیادہ شرح سودپر سرمایادار قرض لینے پر بھی مائل تھے۔ ان کے پاس سرکاری کفالتیں بھی تھیں، اگر انگلینڈ کا مرکزی بینک شرح کٹوتی میں اضافہ کردیتا تو سرمایاکار نقصان کے خوف سے کفالتیں نہیں بھناتے اور نہ تجارتی بینکوں کے پاس قرض کی خاطر جاتے۔ لیکن بینک آف انگلینڈ نے شرح سود گھٹا کر ڈھائی فیصد کردی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن اشخاص کے پاس سرکاری کفالتیں تھیں، انہوں نے یا تو وہ فروخت کردیں یا تو ان کو بھنالیا۔ کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کفالتوں کے پیسے سے کوئی کارو بار کریں، کیوں کہ گرم بازاری کا دور تھا اور اختتامی کارکردگی بڑھی ہوئی تھی۔ اس طرح بینک آف انگلینڈ کو ایک سال سے کچھ زیادہ مدت میں 90 کروڑ پونڈ اسٹرلنگ بازار زر میں لانے پڑے۔ لیکن بازارکے جذبات نہیں سرد ہوئے اور آخر کار بینک آف انگلنیڈ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ بینک آف انگلینڈ کی شرح سود پھر ۳ فیصد بلکہ اس سے زیادہ ہوگئی۔ یہ ایک طرف بینک آف انگلینڈ کی حکمت عملی کی ناکامی تھی، دوسری طرف کینز Keynes کے نظریہ ترجیح سیال کی کامیابی کا ثبوت تھا۔
 
آر ایس سیرز R S sayers اپنی کتاب جدید بینکاری Modern Banking میں لکھتا ہے کہ 47۔ 1945 میں یہ بات نہیں تھی کہ حکام شرح سود گھٹانے میں عجلت کررہےکر رہے تھے۔ جو کے ان حالات میں گھٹنے والی تھی اور یہ احساس کہ سرکاری پالیسی معاشیات کے وقتی تقاضوں کے منافی تھی، افراط زر کے ظہور کا باعث ہوا، جس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا یا اس کوشش میں سارا مالیاتی نظام Monetary System بدنام ہوکررہ گیا۔
بڑے پیمانے پر تخلیق زر کی یہ کوششیں جو تمام بڑے ملکوں کی حکومتوں نے اختیار کیں، تجارتی بینکوں کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیئں۔ سرمایا کار ان سے قرض لینے نہیں آرہے تھے۔ آر۔ ایس۔ سیرز R S sayers اپنی کتاب’متحرک اقتصادیات کی راہ پر‘Towards Dynamic Ecnomice میں لکھتا ہے کہ موجودہ صدی میں خصوصا 1920 سے بینک کاری کے اعداد شمار کی ایک خصوصیت (کرنسی کی گھٹتی ہوئی قیمت کو ملحوظ رکھ کر) بینک کے قرضوں میں نشیبی کا رجحان رہا ہے۔ اس تحریک کے نتائج اتنے دور رس ہیں کہ ان پر خصوصی بحث کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف انگلینڈ بلکہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور کنیڈا میں بھی بہت نمایاں ہے اور اس کا اثر کافی سنگین ہے۔ جب کہ بینکاری کے دوسرے نظام بھی کم و بیش اسی تجربہ سے دوچارہیں۔
سطر 34:
== توسیع زر اور التباس زر ==
پروفیسر ہن سن Per Hansen اپنی کتاب ’مالی نظریہ اور مالیاتی پالیسی‘Monetary Theory and Fiscal Policy میں لکھتا ہے جب آپ زیادہ قومی آمدنی اور کامل روز گار کے خیال سے اپنی معیشت کی
ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ تب آپ کو رسد زر یا مقدار زر میں اضافہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو نوٹوں کے جاری کرنے کے موجودہ طریقہ کار میں مرکزی بینک کو حامل سود کفالتیں دیتی ہے کہ نوٹ چھاپے جائیں اور جب مرکزی بینک یہ محسوس کرتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ نوٹ گردش کررہےکر رہے ہیں تو وہ نوٹوں کی واپسی کے لیے مرکزی بینک سرکاری کفالتیں تجارتی بینکوں کو فروخت کردیتا ہے۔
ہن سن Hansenکا کہنا ہے کہ ’یہ درست ہے ہم اپنے مالی اداروں کو کلی طور پر بدل سکتے تھے، ہم پرانے طریق کار کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ جب کہ حکومت بغیر اپنی کفالت کے خودکاغذی نوٹ چھاپتی تھی۔ جدید بادی النظر میں معقول طریقہ سرکاری کفالتوں کی بنا پر مرکزی بینک کی طرف سے کاغذی نوٹ چھاپتا ہے۔ وفاقی محفوظ بینک (امریکہ کا مرکزی نظام بینکاری) سرکاری کفالتیں بازار سے خرید کرلوگوں کے پاس نوٹوں کی تعداد یا بینکوں کے پاس نقد روپیہ بڑھا سکتا ہے۔ یہ سرکاری کفالتیں بغیر سود کے ہونا چاہیے۔ اس طریق کار میں بمقابلہ دوران جنگ کے مروجہ تقلیدی طریقہ کار کے جس میں وفاقی بینک اور تجارتی بینک دونوں نے سرکاری کفالتوں کی خریداری میں حصہ لیا تھا، کچھ اچھائیاں اور بہت سی برائیاں ہیں‘۔