"زرمبادلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 15:
 
ایک اطالوی معاشین پرٹیو Pareto نے 1893 میں اپنی کتابCourse d, Ecnomic Politique میں بین الاقومی قیمتوں میں توازن کانظریہ پیش کیا تھا۔ اسی زمانے میں ایک انگریز معاشین ایجورتھ
Edgegeworth نے اپنے ایک مضمون ”بین الاقومی قیمتوں کا خالص نظریہ“ میں یہ خیال ظاہر کیا کہ جیون Jevon کے نظریہ مبادلہ Theory of Exchange اور مارشل کے پیش کردہ نظریہ ”رسد و طلب کی طاقتوں میں توازن“ سے بین الاقوامی تجارت کے بنیادی اصول وضع کئے جاسکتے ہیں۔ جو توازن کا نظریہ کہ بہت سے معاشیاتی مسائل کی تہہ میں موجود ہے۔ توازن رسد و طلب کے اس نظریہ نے برطانوی اور امریکی معاشین کے نظریات برائے بین الاقوامی تجارت میں رسوخ حاصل کرلیا۔کر لیا۔ حتیٰ 1933 میں برطانیہ کی رائل اکنامک سوسائٹی Royal Ecnomice Sosity کے اجلاس کے میں ایڈون کینن Edwin Cannan نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ ریکارڈو Ricardo کے وقت سے اس وقت سے اس وقت تک خاص غلطی یہ ہوئی ہے، کہ وہ بین الاقوامی تجارت کے لیے جو نظریہ قائم کرتے ہیں وہ اس نظریہ سے بہت مختلف ہوتا ہے جو کوئی ملک اپنی اندرونی تجارت کے لیے اختیار کرتا ہے۔ اس نے اس کے بعد یہ مان لیا گیا کہ شرح زرمبادلہ کا دارو مدار کسی ملک کی کرنسی کی طلب و رسد یا اس کے توازن ادائیگی Balance of Payments پر ہوتا ہے۔ کسی ملک کی اندرونی تجارت کا نظریہ جو جیون Jevon اور مارشل نے پیش کیا تھا کہ اصول رسد و طلب یا مسابقت Competition ہی اشیاء کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔ 1933 مختلف ملکوں کی کرنسیوں کے شرح مبادلہ کے لیے بھی یہی نظریہ قبول کرلیاکر لیا گیا۔ دنیا کے اقتصادی نظام میں اصول و رسد و طلب کی ایک اور بڑی فتح تھی۔
 
[[دوسری جنگ عظیم]] میں محاربہ ممالک نے جنگ کی تیاری کی وجہ سے پیداشدہ توازن ادائیگی Balance of Payments کی غیر متوازنیت کے مد نظر غیر ملکی زرمبادلہ پر کنٹرول نافذ کردیا تھا اور وہ اپنے اپنے ملک کی شرح مبادلہ زر مقرر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ تاہم یہ بہت افسوس کی بات ہے لڑائی کے نو سال کے بعد بھی غیر ملکی زرمبادلہ پر کنٹرول ابھی (جب یہ تحریر لکھی گئی تھی) تک نافذ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک دنیا جنگ کے تباہ کن اثرات سے سنبھل نہیں سکی اور محاربہ ممالک کے توازن ہا ادائیگی موافق یا متوازن Payments Balance of نہیں ہوئے ہیں۔ شرح مبادکہ میں استحکام پیدا کرنے اور مبادلہ زر کے کنٹرول کو ختم کرنے کی غرض سے 1945 میں جنگ ختم ہونے کے بعد ایک بین الاقوامی ادارہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ International Monetary Fund کے نام سے قائم کیاگیا۔ اس بات کااحساس ہوا کہ مختلف کرنسیوں کا آزادانہ تبادلہ ڈالر کی قلت کی وجہ سے نہیں ہوسکتا ہے اور ڈالر کی قلت اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی، تا وقتیکہ امریکہ میں محصول درآمد کی گراں شرح کو کم کیا جائے۔ دوسرے ممالک امریکی ڈالر زیادہ مقدار میں اس وجہ سے حاصل نہیں کرسکتے ہیں کہ امریکی حکومت نے سامان درآمد پر بھاری محصول لگارکھا تھا اور یہ ان کے مال کی برآمد میں جس سے وہ ڈالر حاصل کرنے میں بڑی رکاوٹ تھی۔
سطر 21:
 
محصولات درآمد و تجارت کا عام معاہدہGeneral Agreemenet on Tariffs and Trad - (GATT) کے معاہدہ عام کا اجلاس اکتوبرمیں جینوا میں منقد ہوا تھا۔ اس اجلاس سے دنیا کے مختلف ممالک کی
کرنسی کے آزادانہ تبادلہ کو مزید تقویت پہنچی۔ گیٹ کے صدر ولگریسس Wilgracess نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ہم ان ممالک کی کرنسیوں کے آزاادانہ تبادلہ کو مستقبل قریب میں دیکھ لیں گے، جو ممالک دنیا کی تجارت میں حصہ لیتے ہیں اور کرنسیوں کے آزادانہ تبادلے سے کثیر النوع تجارت اور ادائیگی زر کے راستے صاف ہوجائیں گے۔ پھر درآمدی پابندیوں کی ضرورت نہیں رہے گی، جو ہم لڑائی کے زمانے سے برداشت کررہےکر رہے ہیں۔
کینزKwynes بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی اپنی تجویز میں قرض خواہ ملک کے واجب الوصول قرض پر ایک فیصدی کا سالانہ جرمانہ لگانا چاہتا تھا۔ کیوں کہ بین الاقوامی تجارت کے بگاڑنے میں وہ قرض خواہ ملک کو بھی اتنا ہی ذمہ دار سمجھتا تھا کہ جتنا کہ قرض لینے والے ملک کو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرض خواہ ملک محصول درآمد میں اضافہ کرکے مقروض ملک کا سامان تجارت روک سکتا ہے اور اگر جرمانے کی شق لگی ہو توممکن ہے اپنے محصولات درآمد میں تخفیف کردے اور اس طرح بین الاقوامی تجارت میں رخنہ نہ پڑے۔