"سورہ الاخلاص" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م حوالہ جات ٹیگ کا خودکار اندراج
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 19:
}}
 
== نام ==
الاِخلَاص اس سورہ کا محض نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے کیوں کہ اس میں خالص توحید بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں تو بالعموم کسی دوسرے لفظ کو اُن کا نام قرار دیا گیا ہے جو ان میں وارد ہوا ہو، لیکن اس سورہ میں لفظ اِخلاص کہیں وارد نہیں ہوا ہے۔ اس کو یہ نام اس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے۔ جو شخص بھی اس کو سمجھ کر اِس کی تعلیم پر ایمان لے آئے گا، وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا۔<h2>شماریات</h2>سورہ الاخلاص میں 4 آیات، 25 کلمات اور 78 حروف موجود ہیں۔<ref>امام خازن: تفسیر الخازن، جلد 4 صفحہ 496۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1424ھ۔</ref>
 
== زمانۂ نزول ==
اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔، اور یہ اختلاف اُن روایات کی بنا پر ہے جو اس کے سببِ نزول کے بارے میں منقول ہوئی ہیں۔ ہم ان کو سلسلہ وار درج کرتے ہیں۔
۱1)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔ (1) اس پر یہ سورت نازل ہوئی (طَبرانی)۔
۲2)۔ ابو العالیہ نے حضرت اُبَی بن کعبؓ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ مشرکین نے رسول اللہؐ سے کہا کہ کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی (مسند احمد، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ترمذی، بخاری فی التاریخ، ابن المنذر، حاکم، بیہقی)۔ ترمذی نے اسی مضمون کی ایک روایت ابو العالیہ سے نقل کی ہے جس میں حضرت اُبی بن کعبؓ کا حوالہ نہیں ہے اور اسے صحیح تر کہا ہے۔
۳3)۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی نے، اور بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے ) نبی صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابو یعلیٰ، ابن جریر، ابن المنذر، طَبرانی فی الاوسط، بیہقی، ابو نعیم فی الحلیہ)۔
۴4)۔ عکرمہ نے ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں کا گروہ رسول صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں کعب بن اشرف اور حُبی بن اخطب وغیرہ شامل تھے، اور انہوں نے کہا ’اے محمد (صلی اللہ و علیہ و سلم) ہمیں بتائیے کہ آپ کا وہ رب کیسا ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے۔‘ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابن ابی حاتم، ابن عدی، بیہقی فی الاسماء و الصفات)۔
۵5) ۔حضرت انس کا بیان ہے کہ خیبر کے کچھ یہودی رسول صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا ’اے ابو القاسمؐ! اللہ نے ملائکہ کو نورِ حجاب سے، آدم کو مٹی کے سڑے ہوئے گارے سے، ابلیس کو آگ کے شعلے ےسے، آسمان کو دھوئیں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے بنایا، اب ہمیں اپنے رب کے متعلق بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟‘ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر جبرئیلؑ آئے اور انہوں نے کہا ’ اے محمد صلی اللہ و علیہ و سلم، ان سے کہئے کہ ہو اللہ احد۔
۶6)۔ عامر بن امطفیل نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا ‘ اے محمد صلی اللہ و علیہ و سلم، آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلاتے ہیں؟‘۔ آپؐ نے فرمایا ’اللہ کی طرف‘۔ عامر نے کہا ’اچھا تو اس کی کیفیت مجھے بتائیے۔ وہ سونے سے بنا ہوا ہے یا چاندی سے یا لوہے سے؟‘ اس پر یہ سورہ نازل ہوئی۔
۷7)۔ ضحاک اور قتادہ اور مقاتل کا بیان ہے کہ یہودیوں کے کچھ علماء حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے پاس آۓ اور انہوں نے کہا ’اے محمد صلی اللہ و علیہ و سلم، اپنے رب کی کیفیت ہمیں بتائیے، شاید کہ ہم آپ صلی اللہ و علیہ و سلم پر ایمان لے آئیں۔ اللہ نے اپنی صفت تورات میں نازل کی ہے، آپ بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟، کس جنس سے ہے؟ سونے سے بنا ہے یا تانبے سے یا پیتل سے یا لوہے سے یا چاندی سے؟ اور کیا وہ کھاتا اور پیتا ہے؟ اور کس سے اس نے دنیا وراثت میں پائی ہے، اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہو گا؟‘ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
۸8)۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سات پادریوں کے ساتھ نبی صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا ’ہمیں بتائیے کہ آپ ؐ کا رب کیسا ہے؟ کس چیز سے بنا ہے؟ آپ صلی اللہ و علیہ و سلم نے فرمایا، ’میرا رب کسی چیز سے نہیں بنا ہے، وہ تمام اشیاء سے جدا ہے‘ ۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں نے رسول الہ صلی اللہ و علیہ و سلم سے اس معبود کی ماہیت اور کیفیت دریافت کی تھی جس کی بندگی و عبادت کی طرف آپ صلی اللہ و علیہ و سلم لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ اور ہر موقع پر آپ نے اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ان کو جواب میں یہی سورت نازل ہوئی۔ اس کے بعد مدینہ طیبہ میں یہودیوں نے کبھی عیسائیوں نے اور کبھی عرب کے دوسرے لوگوں نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے اسی نوعیت کے سوالات کئے، اور ہر مرتبہ اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا کہ جواب میں یہی سورت آپ ان کو سنا دیں۔
ان روایات میں سے ہر ایک میں یہ جو کہا گیا ہے کہ اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی تھی۔ اس سے کسی کو یہ خیال نہ ہونا چاہیے کہ یہ سب روایتیں باہم متضاد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں اگر پہلے سے کوئی آیت یا کوئی سورہ نازل شدہ ہوتی تھی، تو بعد میں جب کبھی حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے سامنے وہی مسئلہ پیش کیا جاتا، اللہ کی طرف سے ہدایت آ جاتی تھی کہ اس کا جواب فلاں آیت یا سورے میں ہے یا اس کے جواب میں وہ آیت یا سورہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دی جائے۔ احادیث کے راوی اس چیز کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ جب فلاں معاملہ پیش آیا یا فلاں سوال کیا گیا، تو یہ آیت یا سورہ نازل ہوئی۔ اس کو تکرارِ نزول سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک آیت یا سورہ کا کئی مرتبہ نازل ہونا۔
پس صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ در اصل مکی ہے، بلکہ اس کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکے کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالٰیٰ کی ذات و صفات کے بیان میں قرآن کی مفصل آیات ابھی نازل نہیں ہوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم کی دعوت الی اللہ کو سن کر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ آخر آپ کا وہ رب ہے کیسا کس کی بندگی و عبادت کی طرف آپؐ لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ اس کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورت ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مکے میں جب حضرت بلالؓ کا آقا امیہ بن خلف ان کو دھوپ میں تپتی ہوئی ریت میں لٹا کر ایک بڑا سا پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیتا تھا تو وہ ’احد احد‘ پکارتے تھے۔ یہ لفظ ’احد‘ اسی سورہ سے ماخوذ تھا۔
 
== موضوع اور مضمون ==
شان نزول کے بارے میں جو روایات اوپر درج کی گئی ہیں، ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جب رسول الہ صلی اللہ و علیہ و سلم توحید کی دعوت لے کر اٹھے تھے، اُس وقت دنیا کے مذہبی تصورات کیا تھے۔ بت پرست مشرکین ایسے خداؤں کو پوج رہے تھے جو لکڑی، پتھر، سونے، چاندی وغیرہ مختلف چیزوں کے بنے ہوئے تھے۔ شکل صورت اور جسم رکھتے تھے۔ دیویوں اور دیوتاؤں کی با قاعدہ نسل چلتی تھی۔ کوئی دیوی بے شوہر نہ تھی اور کوئی دیوتا بے زوجہ نہ تھا۔ ان کو کھانے پینے کی ضرورت بھی لاحق ہوتی تھی اور ان کے پرستار ان کے لیے اس کا انتظام کرتے تھے۔ مشرکین کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل تھی کہ خدا انسانی شکل میں ظہور کرتا ہے اور کچھ لوگ اس کے اوتار ہوتے ہیں۔ عیسائی اگرچہ ایک خدا کو ماننے کے مدعی تھے مگر ان کا خدا بھی کم از کم ایک بیٹا تو رکھتا ہی تھا اور باپ بیٹے کے ساتھ خدائی میں روح القدس کو بھی حصے دار ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حتیٰ کہ خدا کی ماں بھی ہوتی تھی اور اس کی ساس بھی۔ یہودی بھی ایک خدا کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے مگر ان کا خدا بھی مادیت اور جسمانیت اور دوسری انسانی صفات سے خالی نہ تھا۔ وہ ٹہلتا تھا، انسانی شکل میں نمودار ہوتا تھا۔ اپنے کسی بندے سے کشتی بھی لڑ لیتا تھا اور ایک عدد بیٹے (عزیر) کا باپ بھی تھا۔ ان مذہبی گروہوں کے علاوہ مجوسی آتش پرست تھے اور صابئی ستارہ پرست۔ اس حالت میں جب اللہ وحدہٗ لا شریک کو ماننے کی دعوت لوگوں کو دی گئی تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا کہ وہ رب ہے کس قسم کا؟ جسے تمام ارباب اور معبودوں کو چھوڑ کر تنہا ایک ہی رب اور معبود تسلیم کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ان سوالات کا جواب چند الفاظ میں دے کر اللہ کی ہستی کا ایسا واضح تصور پیش کر دیا جو تمام مشرکانہ تصورات کا قلع قمع کر دیتا ہے اور اس کی ذات کے ساتھ مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کی آلودگی کے لیے کوئئ گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔
 
== فضیلت اور اہمیت ==
 
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم کی نگاہ میں اس سورت کی بڑی عظمت تھی اور آپؐ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اس کی اہمیت محسوس کراتے تھے تا کہ وہ کثرت سے اس کو پڑھیں اور عوام الناس اسے پھیلائیں کیوں کہ یہ اسلام کے اولین بنیادی عقیدے (توحید) کو چار ایسے مختصر فقروں میں بیان کر دیتی ہے جو فوراً انسان کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں اور آسانی سے زبانوں پر چڑھ جاتے ہیں۔
سطر 48:
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
 
{{سورت
سطر 56 ⟵ 55:
}}
 
[[زمرہ:توحید]]
[[زمرہ:سورتیں]]
[[زمرہ:توحید]]