"آسٹریا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
م صفائی بذریعہ خوب, replaced: عیسائیت ← مسیحیت (2)
سطر 58:
'''آسٹریا''' (Austria) جسے سرکاری طور پر جمہوریہ آسٹریا بھی کہتے ہیں، برِ اعظم یورپ کے وسط میں واقع خشکی سے گھرا ہوا ایک ملک ہے۔ اس کی کل آبادی 83 لاکھ ہے۔ اس کے شمال میں جرمنی اور چیک ریپبلک، مشرق میں سلواکیا اور ہنگری، جنوب میں سلوانیا اور اٹلی جبکہ مغرب میں سوئٹزرلینڈ اور لیچٹنسٹائن کے ممالک واقع ہیں۔ آسٹریا کا کل رقبہ 83٫872 مربع کلومیٹر ہے۔ آسٹریا کی سرزمین بلند پہاڑوں پر مشتمل ہے اور یہاں ایلپس پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ ملک کا 32 فیصد رقبہ سطح سمندر سے 500 میٹر سے کم بلند ہے۔ اس کا بلند ترین مقام 3٫797 میٹر بلند ہے۔ آبادی کی اکثریت جرمن زبان بولتی ہے اور اسے ملک کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ دیگر مقامی زبانوں میں کروشین، ہنگری اور سلوین ہیں۔
 
آسٹریا کی بنیادیں ہمیں رومن دور سے ملتی ہیں۔ جب 15 ق م میں سیلٹک سلطنت پر رومنوں نے قبضہ کیا تو اسے ایک صوبہ بنا دیا۔ پہلی صدی عیسوی میں یہ سارا علاقہ آج کے آسٹریا کے زیادہ تر حصوں پر مشتمل تھا۔ 788 عیسوی میں یہاں عیسائیتمسیحیت متعارف کرائی گئی۔ ہپسبرگ شہنشاہیت کے دوران آسٹریا کو یورپ کی بڑی طاقتوں میں سے ایک شمار کیا جانے لگا۔ 1867ء میں آسٹرین سلطنت کی جگہ آسٹریا-ہنگری نے لے لی۔
 
پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں آسٹرو- ہنگرین سلطنت کا زوال ہوا۔ 1919ء میں پہلی آسٹرین جمہوریہ قائم ہوئی۔ 1938ء میں نازی جرمنی نے اس پر قبضہ کر کے اپنے اندر شامل کر لیا۔ یہ قبضہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام تک یعنی 1945 تک جاری رہا جس کے بعد آسٹریا پر اتحادیوں کا قبضہ ہو گیا اور انہوں نے آسٹریا کی خود مختار جمہوری حیثیت بحال کر دی۔ اسی سال آسٹریا کی پارلیمان نے ایک اعلان جاری کیا جس کے تحت آسٹریا کو مستقل طور پر غیر جانبدار ملک قرار دے دیا گیا۔
سطر 67:
 
== تاریخ ==
قدیم زمانےسے آباد وسطی یورپ کی سرزمین جو آج آسٹریا کہلاتی ہے، دراصل رومن دور سے قبل مقامی سیلٹک قبائل کی آماج گاہ تھی۔ سیلٹک سلطنت پر بعد ازاں رومنوں نے قبضہ کر لیا اور اسے اپنی سلطنت میں بطور صوبہ شامل کر لیا۔
 
رومن بادشاہت کے زوال پر اس علاقے پر باویری، سلاویس اور آوارس قبائل نے حملے جاری رکھے۔ سلاویک قبائل پہاڑوں میں منتقل ہو گئے جو مشرقی اور وسطی آسٹریا میں موجود ہیں۔ 788 عیسوی میں یہاں عیسائیتمسیحیت متعارف کرائی گئی۔
 
14ویں اور 15ویں صدی عیسوی میں ہیسپ برگ بادشاہوں نے آسٹریا میں آس پاس کے دیگر علاقے بھی شامل کرنا شروع کر دیئے۔ 1438ء میں نواب البرٹ پنجم آف آسٹریا کو ان کے سُسر کی جگہ بادشاہ بنا دیا گیا۔
 
بعد ازاں آسٹریا نے فرانس کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔ نپولن کے ہاتھوں بتدریج شکستوں کے بعد 1806 میں رومن سلطنت زوال پزیر ہو گئی۔ دو سال قبل 1804ء میں آسٹریا کی سلطنت قائم ہوئی۔ 1814ء میں آسٹریا اتحادیوں کے ساتھ فرانس پر حملہ آور ہوا اور نپولن کو شکست دی۔
 
1815ء میں کانگریس آف ویانا کے بعد آسٹریا کو برِ اعظم کی چار بڑی طاقتوں میں شمار کیا جانے لگا۔ اسی سال آسٹریا کی سربراہی میں جرمنی کا الحاق ہوا۔
 
1864ء میں آسٹریا اور پروشیا نے مل کر ڈنمارک سے جنگ کی اور اس سے بعض علاقے آزاد کرا لیے۔ تاہم انہی علاقوں کی تقسیم میں اختلاف پر 1866ء میں آسٹریا اور پروشیا کی جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں شکست کے بعد آسٹریا جرمنی کی کنفیڈریشن سے نکل گیا۔
سطر 82:
سراجیو کے مقام پر 1914ء میں شہزادہ فرانز فریڈینڈ کے قتل کو آسٹریا کے سیاستدانوں اور جنرلوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے شہنشاہ کو سربیا کے خلاف جنگ چھیڑنے پر مجبور کیا۔ نتیجتاً پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی اور آسٹریا-ہنگری کی سلطنت ختم ہو گئی۔ آسٹریا-ہنگری کے 10 لاکھ سے زیادہ فوجی اس جنگ میں مارے گئے۔
 
21 اکتوبر 1918ء کو آسٹریا کی پارلیمان کے منتخب شدہ جرمن نمائندے ویانا میں جرمن آسٹریا کی صوبائی قومی اسمبلی کے طور پر اکٹھے ہوئے۔ 30 اکتوبر کو اسمبلی نے جرمن آسٹریا کی ریاست اور اس کی حکومت بنائی۔ شہنشاہ نے نئی حکومت کو دعوت دی کہ وہ اٹلی کے ساتھ معاہدے کے لیے فیصلہ کریں۔ تاہم حکومت نے یہ ذمہ داری شہنشاہ پر چھوڑ دی۔ 11 نومبر کو شہنشاہ نے پرانی اور نئی حکومت کے وزراء کی مدد سے اعلان کیا کہ شہنشاہ کا امورِ حکومت میں عمل دخل یکسر ختم ہو گیا ہے۔ 12 نومبر کو جرمن آسٹریا نے خود کو عوامی جمہوریہ قرار دے دیا۔
 
سینٹ جرمین کے معاہدے کے تحت 1919ء میں وسطی یورپ کی تشکیلِ نو کی گئی۔ اس کے نتیجے میں نئی ریاستیں بنیں جبکہ پہلے سے موجود ریاستوں کی شکل بدلی گئی۔ 30 لاکھ سے زیادہ جرمنوں نے خود کو آسٹریا کی حدود سے باہر دیگر نئی ریاستوں جیسا کہ چیکو سلاویکیا، یوگوسلاویا، ہنگری اور اٹلی کی اقلتیں پایا۔ 1918ء اور 1919ء کے دوران آسٹریا کو جرمن آسٹریا کہا جاتا تھا۔ تاہم بعد ازاں اتحادی طاقتوں نے جرمن آسٹریا کو جرمنی کا حصہ بننے سے روکا اور اسے جمہوریہ آسٹریا بنا دیا۔
سطر 90:
آسٹریا کی پہلی جمہوریہ 1933ء تک چلی جس کے بعد چانسلر نے پارلیمان کو برطرف کر دیا۔ نتیجتاً اٹلی کے فاشسٹوں کی حامی حکومت بنی۔ اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتیں کام کر رہی تھیں اور دونوں کی اپنی نیم فوجی ملیشیائیں تھیں۔ اس کے بعد خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
 
بعد میں آسٹریا کی آزاد حیثیت ختم ہو گئی۔ آسٹریا کے یہودیوں کے خلاف قانون بنا دیا گیا جس کے تحت ان کے تمام اثاثے چھین لیے گئے۔ 13 اپریل 1945ء میں ویانا روس کے قبضے میں چلا گیا۔
 
27 اپریل 1945ء کو چند سیاست دانوں نے آسٹریا کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کو کامیاب روسی فوج اور سٹالن کی حمایت حاصل تھی۔ اپریل کے اختتام تک مغربی اور جنوبی آسٹریا نازی جرمنی کے قبضے میں تھا۔ یکم مئی 1945 میں 1929ء کا آئین بحال کر دیا گیا۔
سطر 96:
1939ء تا 1945ء تک ہونے والی فوجی اموات کا اندازہ 2٫60٫000 لگایا گیا ہے۔ یہودی ہولوکاسٹ کے شکار افراد کی تعداد 65٫000 تھی۔ تقریباً 1٫40٫000 یہودی آسٹریا چھوڑ گئے تھے۔ 1992 میں آسٹریا کے چانسلر نے تسلیم کیا کہ ہزاروں آسٹریائی نازی جرمنی کے جرائم میں شریک تھے۔
 
جرمنی ہی کی طرح آسٹریا کے مختلف حصوں پر مختلف اتحادی ممالک قابض تھے۔
 
15 مئی 1955ء کو برسوں کی گفت و شنید کے بعد آسٹریا کو آزادی مل گئی۔ 26 اکتوبر 1955ء کو ساری غیر ملکی افواج ملکی سرزمین سے نکل گئی تھیں۔ اس کے بعد پارلیمان کے ایکٹ کے تحت ملک کو ہمیشہ کے لیے غیر جانبدار بنا دیا۔
سطر 102:
 
== سیاست ==
آسٹریا کی پارلیمان ویانا میں ہے۔ یہ شہر ملک کا دارلحکومت اور سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ 1920ء کے ائین کے مطابق آسٹریا وفاقی، پارلیمانی، جمہوری ریاست ہے۔ ریاستی سربراہ وفاقی صدر ہوتا ہے جسے براہ راست منتخب کیا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کا سربراہ وفاقی چانسلر ہوتا ہے جسے صدر مقرر کرتا ہے۔ حکومت کو صدارتی حکم یا عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد ختم کیا جا سکتا ہے۔
 
آسٹریا کی پارلیمان دو چیمبروں پر مشتمل ہے۔ نینشلارٹ کی کل 183 نشستیں ہوتی ہیں اور عام طور پر ہر 5 سال بعد ان کا انتخاب ہوتا ہے۔ 2007ء سے قانونی طور پر ووٹر کی کم سے کم عمر 16 سال مقرر کی گئی ہے۔
 
نیشنلارٹ کو مقننہ کی حیثیت حاصل ہے تاہم ایوانِ بالا جسے بنڈسریٹ کہتے ہیں، کے پاس کسی قانون کو مسترد کرنے کا کسی حد تک اختیار ہوتا ہے۔
 
قانون ساز، ایگزیکٹو کے بعد ریاستی طاقت کا تیسرا ستون عدالت ہے۔ آئینی عدالت قوانین پر بڑی حد تک اثر انداز ہو سکتی ہے یا انہیں مسترد کر سکتی ہے۔ 1995ء کے بعد سے یورپی عدالتِ انصاف اس عدالت کے احکامات کو یورپی یونین کے قوانین کی روشنی میں بدل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریا میں یورپی یونین کے انسانی حقوق کی عدالت کا فیصلہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
سطر 133:
 
== جغرافیہ ==
آسٹریا کا زیادہ تر حصہ پہاڑی ہے۔ ان پہاڑوں میں سینٹرل ایسٹرن ایلپس، ناردرن لائم سٹون ایلپس ارو سدرن لائم سٹون ایلپس وغیرہ جزوی طور پر آسٹریا میں واقع ہیں۔ آسٹریا کا تقریباً چوتھائی حصہ ہی نسبتاً کم بلند ہے۔ پورے ملک کا تقریباً 32 فیصد حصہ ہی 500 میٹر سے کم بلند ہے۔ آسٹریا کے مغربی حصے کے پہاڑ بتدریج چھوٹے ہوتے ہوتے ملک کے مشرقی حصے میں میدان بن جاتے ہیں۔
 
آسٹریا کو پانچ بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑا حصہ مشرقی ایلپس کا ہے جو ملک کے 62 فیصد حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ بلندی اور سطح مرتفع کے اعتبار سے دیگر حصے منقسم ہیں۔
سطر 146:
 
=== کرنسی ===
یکم جنوری 1999ء سے آسٹریا میں یورو کو اپنایا گیا ہے اور یکم جنوری 2002ء سے یہاں یورو کے سکے اور کاغذی نوٹ رائج ہیں۔ عام طور پر جب یورو کے سکے بنائے جاتے ہیں تو وہی سال ان پر لکھا جاتا ہے تاہم آسٹریا میں یورو کے سکے 1999ء میں بننے لگے اور 2002ء میں ان کو استعمال میں لایا گیا اور سکوں پر 2002ء ہی درج تھا۔ آٹھ مختلف سکوں کے لیے الگ الگ نمونے تیار کیے گئے ہیں۔
 
یورو سے قبل آسٹریا میں شلنگ رائج تھا۔
سطر 156:
 
== آبادی ==
جنوری 2009 میں آسٹریا کی کل آبادی 83٫56٫707 افراد تھی۔ دارلحکومت ویانا کی آبادی 16 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
 
ویانا کے بعد گراز نامی شہر دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں 2٫50٫099 افراد رہتے ہین۔ تیسرا بڑا شہر لنز ہے جہاں 1٫88٫968 افراد رہتے ہیں۔ سالزبرگ میں 1٫50٫000جبکہ انسبروک میں 1٫17٫346 افراد رہتے ہیں۔ دیگر تمام شہروں کی انفرادی آبادی ایک لاکھ سے کم ہے۔
سطر 182:
جرمنی کی طرح یہاں بھی ثانوی تعلیم کے لیے دو طرح کے مدرسے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے مدرسوں میں زیادہ ذہین بچوں کو یونیورسٹی کی اعلٰی تعلیم کے لیے تیار کیا جاتا ہے جبکہ دوسری قسم کے مدرسوں میں بچوں کو ووکیشنل تعلیم کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ تاہم دونوں مدرسوں کے اختتام پر امتحان ہوتا ہے جس میں کامیابی کی صورت میں یونیورسٹی میں داخلہ مل جاتا ہے۔
 
پرائمری سکول کی طرح ثانوی سکولوں میں بھی 8 بجے صبح پڑھائی شروع ہوتی ہے اور دوپہر تک جاری رہتی ہے۔ زیادہ بڑے طلباء کے لیے روز مدرسے کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہر سال کے اختتام پر اگر طالبعلم کی کارکردگی اگر تسلی بخش ہو تو وہ اگلی جماعت میں چلے جاتے ہیں۔ اگر ان کی کارکردگی تسلی بخش نہ ہو تو وہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد دوبارہ امتحان دیتے ہیں۔ دوبارہ ناکامی کی صورت میں انہیں تعلیمی سال دوبارہ پڑھنا پڑتا ہے۔
 
طلباء کے لیے ایک جماعت میں ایک سے زیادہ سال گذارنا عجیب بات نہیں۔ دو سال کی تعلیم کے بعد انہیں کسی ایک تعلیمی دھارے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک دھارے میں فنونِ لطیفہ جبکہ دوسرے میں سائنس پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔