"تصوف" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر |
درستی املا |
||
سطر 2:
'''تصوف''' کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوب{{زیر}} عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی [[صوفی]] (جمع: صوفیاء) عمل پیرا ہو۔ [[اسلام]] سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس <ref>[http://www.irfan-ul-quran.com/quran/ur.php?contents=sura&ar=1&ur=1&en=1&sid=62#2 [[القرآن]]، [[سورۃ الجمعۃ]]، آیت 2]</ref> اور حدیث کی اصطلاح میں احسان <ref name=tazkiyah>صوفیوں کی جانب سے اکثر استعمال کی جانے والی [http://minhajbooks.com/books/index.php?mod=btext&cid=2&bid=35&btid=499&read=txt&lang=ur#ihsan لفظ احسان کے بارے میں حدیث]</ref> کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علماء کرام بھی اس ہی تصوف کی جانب مراد لیتے ہیں۔ پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر [[شریعت]] و [[فقہ]] پر قائم علماء نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔
{{اقتباس|مختصر یہ کہ وہ مسلم علماء جنہوں نے اپنی توانائیاں جسم کے لیے معیاری خطوط{{زیر}} راہنمائی کو سمجھنے پر مرکوز کیں وہ فقہی کہلائے ، اور وہ جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے اہم مہم (task)، درست فہم تک رسائی
ان مذکورہ بالا دو تعریفوں کے علاوہ بھی تصوف کی بے شمار تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔
{{Clear}}
سطر 37:
جیسا کہ قطعۂ تعریف میں بیان ہوا کہ لفظ تصوف تو اصل میں صوفی سے مشتق ایک اسم ہے جو نویں صدی عیسوی (قریبا{{دوزبر}} 286 ھجری) سے مروج ہونا شروع ہوا<ref name=Oxford>The Oxford Encyclopedia of the Islamic World: Sufism by Kazuo Ohtsuka [http://www.oxfordislamicstudies.com/article/opr/t236/e0759 روئے خط مضمون]</ref><ref name=Placeoftasawwuf/>۔ لفظ صوفی کے بارے میں محققین مختلف نظریات رکھتے ہیں جو کہ نیچے درج کیئےجارہے ہیں۔
===اصحابِ صُفّہ===
تصوف سے شغف رکھنے والے علماء اکرام ، لفظ صوفی کی [[اشتقاقیات|اصل الکلمہ]] ، [[اصحاب صفہ]] سے منسلک کرتے ہیں۔ صفۃ اصل میں عربی کا لفظ ہے جس میں ص پر زیر اور ف پر زبر {{جسامتعر|130%|(صِفَة)}} کے ساتھ صفت یا اہلیت کے اور ص پر پیش اور ف پر تشدید {{جسامتعر|130%|(صُفَّة)}} کے ساتھ چبوترے کے معنی آتے ہیں۔ یہ بعدالذکر معنی ہی اختیار کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ صوفی اسی صفہ سے اخذ ہے کہ [[مسجد نبوی]] کے شمال میں واقع صفہ (چبوترے یا سائبان) میں جو اصحاب رہا کرتے تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور اصحاب صفہ چونکہ ، فقراء ، تارک{{زیر}} دنیا اور بالکل صوفیوں کے حال میں ہوتے تھے اس لئے یہی لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ہے<ref name=wikiarticle>اردو ویکیپیڈیا پر ہی ایک مضمون [[تصوف لغوی مباحث]] ، (گو مضمون اصلاح طلب ہے)</ref>۔ [[امام ابن تیمیہ]] کے مطابق حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} نے اصحاب{{رض}} کو سوال کرنے سے بالکل منع
===صف الاول===
سطر 57:
===بلا ماخذ===
[[ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری|امام قشیری]] کے مطابق یہ لفظ 822ء سے دیکھنے میں آیا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب دنیا پرستی سے نالاں اور زاہد عبادت گذار کسی متعبر نام (لقب / شناخت) سے محروم ہو چکے تھے؛ یعنی خود محمد{{ص}} کے زمانے میں تو سب سے معتبر لقب یا شناخت ، لفظ [[صحابی]] ہی کا تھا پھر ان کے بعد والی نسل نے [[تابعین]] کی شناخت اختیار کی اور ان کے بعد کی نسل نے [[تبع تابعین]] کے لفظ سے شناخت اختیار کی مگر پھر تبع تابعین کے بعد زاہدین اور مخلص عبادت گذاروں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں
==تفرقِ ظاہریت و باطنیت==
ایک لفظ جو کہ تصوف میں بکثرت استعمال ہوتا ہے وہ ہے باطنیت (esotericism) کا لفظ اور اس کو ظاہری زندگی یعنی ظاہریت (exotericism) سے اندرونی زندگی کو الگ شناخت دینے
==صوفیت اور اسلام==
سطر 130:
{{Clear}}
==برصغیر اور صوفیاء اکرام==
[[برصغیر]] پاک و ہند میں اشاعت اسلام کے لیے صوفیاء اکرام کا کردار بھی بہت اہم تسلیم کیا جاتا ہے۔ [[محمد بن قاسم]] کے سندھ کو فتح کرنے اور [[محمود غزنوی]] کے ہندوستان پر حملوں کے ساتھ ہی بزرگان دین اور صوفیاء اکرام کی آمد کا سلسلہ شروع
==کتب تصوف==
سطر 140:
==کائناتی تصوف==
[[کائناتی تصوف|کائناتی تصوف (universal sufism)]] کو ایک ایسا شعبۂ [[فلسفہ|فلسفۂ]] [[دماغ|دماغِ]] [[انسان|انسانی]] و [[نفس|نفسانی]] کہا جاسکتا ہے کہ جو مذہب اسلام کی تعلیمات کو انسانی خواہشات و تخیلات کے مطابق ڈھال کر اسلام کو اسلام سے نفرت کرنے والے اذہان کے لیے قابل قبول بنائے، اور ظاہر ہے کہ یہ تصور غیر مسلم افراد کے لیے زیادہ کشش رکھتا ہے<ref>Thelemapedia [http://www.thelemapedia.org/index.php/Sufism روئے خط ربط]</ref> اور اسلام کے خمیر سے اٹھنے والے اسلام سے متنفر اشخاص (مثال کے طور پر [[ادریس شاہ]] وغیرہ جیسے صوفیاء اکرام{{رح}}) کے لیے اپنے گرد ایک جم غفیر لگانے کا نہایت آسان طریقہ فراہم کرتا ہے۔ تصوف کی اس عالمی شاخ سے منسلک افراد
==مشہور صوفی شعرا==
سطر 180:
==بلا جواب ، سوال==
تمام تر تصوف سے متعلق کتب و موقع [[روئے خط|ہائے روئے خط]] میں کسی نا کسی الفاظ میں ایک بات کا تذکرہ لازمی شامل ہوتا ہے (حوالہ کے لیے حوالہ جات کی فہرست میں شامل کسی بھی حوالے سے رجوع کیا جاسکتا ہے) اور وہ یہ ہے کہ تصوف ، شریعت سے الگ نہیں ہے؛ یا یہ کہ تصوف ، شریعت کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا ؛ یا یہ کہ تصوف دراصل روح کی پاکیزگی کا نام ہے ؛ یا یہ کہ تصوف ، دل میں آنے والی برائیوں سے دل کو پاک کرنے کا نام ہے ؛ یا یہ کہ تصوف دل کو خوبصورت (احسان / پاک) بنانے کا طریقہ ہے۔ یہاں ایک سوال یہ ذہن میں ابھرتا ہے کیا مذکورہ بالا تمام باتیں اسلامی تعلیمات نہیں؟ پھر آخر اس تمام تر طریقۂ کار کو اسلام یا شریعت کے بجائے تصوف کا نام دینے کی کیا وجہ ہے؟ اب تک مختلف کتب و ذرائع سے اس بات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے لیکن تمام جگہ ہی بات شریعت سے اقرار اور تصوف کو شریعت کے مطابق ثابت کرنے پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس مضمون کا یہ آخری قطعہ ابھی کسی ایسے عالم کا منتظر ہے کہ جو اس بات کا جواب فراہم کرسکے کہ جب جھوٹے تصوف کی موجودگی اور اس کی معاشرتی برائیاں خود تصوف سے قربت رکھنے والے تسلیم کرتے ہیں اور ان کے مطابق سچی تصوف اصل میں شریعت ہی ہے تو پھر آخر وہ کون سی بات ہے کہ جس پر تصوف قائم ہے؟ اگر تصوف ، شریعت ہی ہے تو پھر اسکا الگ سے نام کیوں؟ اور اگر کوئی چیز تصوف میں ایسی ہے جو شریعت اور قرآن سے الگ ہے یعنی جس کی وجہ سے اس کو ایک الگ نام (تصوف) نہ دیا جائے تو بات واضح نہ ہوگی تو پھر ظاہر ہے کہ تصوف میں کچھ وہ بھی شامل ہے جو اسلام نہیں۔
جواب:صوفیت کی بنیاد اس باطنی علم پر ہے جو کو یہ باطنی کہتے ہیں مگر منصور حلاج اور بلھے شاہ جیسے صوفیوں نے اسے کئی بار طشت از بام کر کے ساری دنیا کے سامنے ثابت
دوسری بات اسلام کی بنیاد توحید پر ہے ۔ یعنی خالق سب ایک ہے باقی ساری مخلوق اسی کی محتاج ہے اور اس کے حضور شاہ و گدا ، آقا و غلام سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسلام کے اسی عقیدہ سے نظریہ مساوات، اخوت اور بھائی چارہ جنم لیتا ہے ۔ جس سے متاثر ہوکر ہندوستان میں برہمن کے خود ساختہ اور ذات پات ، اونچ نیچ اور چھوت چھات پر مبنی استحصالی نظام کے ستائے ہوئے عام ہندو جوق در جوق اسلام کے دائرہ میں داخل ہونا شروع ہوئے ۔ جن کو روکنے کے لیے برہمن نے ایک چال چلی اور ظالم و جابر برہمن سے بے ضر اور پرامن بھگت بن کر ان شودروں اور ویشوں کو بھی گلے لگانا شروع کیاجن کا چھو لینا بھی ان برہمنوں کو گوارا نہ تھا ۔ اسلام کی آمد سے یہ برہمن خود کو ایشور کا روپ کہتے تھے اور اپنے آپ کو اعلیٰ ذات منواتے تھے مگر اسلام کی اشاعت سے برہمن سامراج کو ختم ہوتا دیکھ کر برہمنوں نے بھگت کا لبادہ اوڑھ لیا اور عام ہندوؤں کو بھی ایشور کا روپ بتا کر انہیں عزت دینا شروع کی ۔ یہ ابلیسی حربہ عام ہندوؤں کو اسلام کی طرف جانے سے روکنے کے لیے اتنی شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا کہ پورے ہندوستان میں بھگت تحریک چلائی گئی ۔ ہندوستان میں بحث مباحثے کا دور عروج پر پہنچ گیا اور جس کے نتیجے میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے بدنام زمامہ دین اکبری ایجاد کیا ۔ یہی دور ہندوستان میں صوفی ازم کے عروج کا دور ہے اور اسی دور میں سکھ مذہب بھی پروان چڑھا ۔ گرو گرنتھ لکھی گئی ۔ اور ایسے صوفی پیدا ہوئے جو ہندو ، سکھوں اور مسلمانوں میں یکساں طور پر مقبول تھے مگر نہ تو انہوں نے خود کو کبھی مسلمان کہا اور نہ ہی اپنے چیلوں کو مسلمان ہونے دیا ۔ جیسے گرو نانک جی وغیرہ ۔ نتیجہ یہ نکلا کے ہندوستان میں صوفی ازم عام انسانوں کو اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید سے دور کرکے انہیں گمراہ کیا ۔ دین اکبری جیسی خرافات کے نتیجے میں قادیانی ، احمدی ،جیسے درجنوں نئے فرقے وجود میں آئے ۔ مسلمانوں میں بھی شرک اور بدعات پھیلیں ۔ جن کے خلاف مجدد الف ثانی ، شاولی اللہ جیسے سچے مسلمانوں نے تحریک چلائی اور اسلام میں سے ہندو اثرات اور رسوم ورواج خارج کرکے مسلمانوں کا علٰیحدہ قومی تشخص از سرنو بحال کیا۔<br />
صوفیت کی بنیاد اس باطنی علم پر ہے جو کو یہ باطنی کہتے ہیں مگر منصور حلاج اور بلھے شاہ جیسے صوفیوں نے اسے کئی بار طشت از بام کر کے ساری دنیا کے سامنے ثابت
دوسری بات اسلام کی بنیاد توحید پر ہے ۔ یعنی خالق سب ایک ہے باقی ساری مخلوق اسی کی محتاج ہے اور اس کے حضور شاہ و گدا ، آقا و غلام سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسلام کے اسی عقیدہ سے نظریہ مساوات، اخوت اور بھائی چارہ جنم لیتا ہے ۔ جس سے متاثر ہوکر ہندوستان میں برہمن کے خود ساختہ اور ذات پات ، اونچ نیچ اور چھوت چھات پر مبنی استحصالی نظام کے ستائے ہوئے عام ہندو جوق در جوق اسلام کے دائرہ میں داخل ہونا شروع ہوئے ۔ جن کو روکنے کے لیے برہمن نے ایک چال چلی اور ظالم و جابر برہمن سے بے ضر اور پرامن بھگت بن کر ان شودروں اور ویشوں کو بھی گلے لگانا شروع کیاجن کا چھو لینا بھی ان برہمنوں کو گوارا نہ تھا ۔ اسلام کی آمد سے یہ برہمن خود کو ایشور کا روپ کہتے تھے اور اپنے آپ کو اعلیٰ ذات منواتے تھے مگر اسلام کی اشاعت سے برہمن سامراج کو ختم ہوتا دیکھ کر برہمنوں نے بھگت کا لبادہ اوڑھ لیا اور عام ہندوؤں کو بھی ایشور کا روپ بتا کر انہیں عزت دینا شروع کی ۔ یہ ابلیسی حربہ عام ہندوؤں کو اسلام کی طرف جانے سے روکنے کے لیے اتنی شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا کہ پورے ہندوستان میں بھگت تحریک چلائی گئی ۔ ہندوستان میں بحث مباحثے کا دور عروج پر پہنچ گیا اور جس کے نتیجے میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے بدنام زمانہ دین اکبری ایجاد کیا ۔ یہی دور ہندوستان میں صوفی ازم کے عروج کا دور ہے اور اسی دور میں سکھ مذہب بھی پروان چڑھا ۔ گرو گرنتھ لکھی گئی ۔ اور ایسے صوفی پیدا ہوئے جو ہندو ، سکھوں اور مسلمانوں میں یکساں طور پر مقبول تھے مگر نہ تو انہوں نے خود کو کبھی مسلمان کہا اور نہ ہی اپنے چیلوں کو مسلمان ہونے دیا ۔ جیسے گرو نانک جی وغیرہ ۔ نتیجہ یہ نکلا کے ہندوستان میں صوفی ازم عام انسانوں کو اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید سے دور کرکے انہیں گمراہ کیا ۔ دین اکبری جیسی خرافات کے نتیجے میں قادیانی ، احمدی ،جیسے درجنوں نئے فرقے وجود میں آئے ۔ مسلمانوں میں بھی شرک اور بدعات پھیلیں ۔ جن کے خلاف مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ جیسے سچے مسلمانوں نے تحریک چلائی اور اسلام میں سے ہندو اثرات اور رسوم ورواج خارج کرکے مسلمانوں کا علٰیحدہ قومی تشخص از سرنو بحال کیا ۔۔
تصوف پرچند اعتراضات کے جوابات:مشہور حدیث ، حدیث ِجبرائیل میں دین کے شعبے بتائے گئے ہیں۔ جس میں پہلا شعبہ عقائد ، دوسرا اعمال اور تیسرا احسان ہے۔ یہ تینوں چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں بھی موجود تھیں۔ لیکن بعد میں علومِ عقائد کے ماہرین کا نام متکلمین، اعمال کے طریقہء کار کے ماہرین کا نام فقہاء اور اور احسان کے فن کو تصوف کہا جانے لگا۔ لیکن نام جو بھی رکھ لیا جائے ،ہمیں تو کام سے غرض ہونی چاہیے۔ اور تصوف کاکام خلوصِ دل کے ساتھ شریعت پر عمل کرانا ہے۔ تصوف کا یہ مقصد شروع سے ہی یہی رہا ہے اور آئندہ بھی یہی رہے گا چاہے اس کا نام جو بھی رکھ لیا جائے۔ ہاں ایک بات جو تصوف میں تغیر پزیر ہے اس کو ذرائع تصوف کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ،صوفیاء اصلی مقصد کے حصول کے لیے اپنے طریقے تبدیل کرتے رہتے ہیں اور یہ بات بھی خلافِ شریعت نہیں ،کیونکہ شریعت میں مقاصد پر جمود ہے نہ کہ ذرائع پر۔ تمام بڑے فقہاء ، حضرت امام ابو حنیفہ رح، حضرت امام شافعی رح، امام حنبل رح اور امام مالک رح آئمہ فقہ ہونے کے ساتھ، صوفیاء بھی تھے۔ مجدد الف ثانی اور شاولی اللہ رح بھی صوفی تھے۔ مزید تفصیلات اور اعتراضات و سوالات کے جوابات ، اس ویب سائٹ پر دیکھے جا سکتےہیں۔
|