"زرمبادلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
درستی املا
سطر 17:
Edgegeworth نے اپنے ایک مضمون ”بین الاقومی قیمتوں کا خالص نظریہ“ میں یہ خیال ظاہر کیا کہ جیون Jevon کے نظریہ مبادلہ Theory of Exchange اور مارشل کے پیش کردہ نظریہ ”رسد و طلب کی طاقتوں میں توازن“ سے بین الاقوامی تجارت کے بنیادی اصول وضع کئے جاسکتے ہیں۔ جو توازن کا نظریہ کہ بہت سے معاشیاتی مسائل کی تہہ میں موجود ہے۔ توازن رسد و طلب کے اس نظریہ نے برطانوی اور امریکی معاشین کے نظریات برائے بین الاقوامی تجارت میں رسوخ حاصل کر لیا۔ حتیٰ 1933 میں برطانیہ کی رائل اکنامک سوسائٹی Royal Ecnomice Sosity کے اجلاس کے میں ایڈون کینن Edwin Cannan نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ ریکارڈو Ricardo کے وقت سے اس وقت سے اس وقت تک خاص غلطی یہ ہوئی ہے، کہ وہ بین الاقوامی تجارت کے لیے جو نظریہ قائم کرتے ہیں وہ اس نظریہ سے بہت مختلف ہوتا ہے جو کوئی ملک اپنی اندرونی تجارت کے لیے اختیار کرتا ہے۔ اس نے اس کے بعد یہ مان لیا گیا کہ شرح زرمبادلہ کا دارو مدار کسی ملک کی کرنسی کی طلب و رسد یا اس کے توازن ادائیگی Balance of Payments پر ہوتا ہے۔ کسی ملک کی اندرونی تجارت کا نظریہ جو جیون Jevon اور مارشل نے پیش کیا تھا کہ اصول رسد و طلب یا مسابقت Competition ہی اشیاء کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔ 1933 مختلف ملکوں کی کرنسیوں کے شرح مبادلہ کے لیے بھی یہی نظریہ قبول کر لیا گیا۔ دنیا کے اقتصادی نظام میں اصول و رسد و طلب کی ایک اور بڑی فتح تھی۔
 
[[دوسری جنگ عظیم]] میں محاربہ ممالک نے جنگ کی تیاری کی وجہ سے پیداشدہ توازن ادائیگی Balance of Payments کی غیر متوازنیت کے مد نظر غیر ملکی زرمبادلہ پر کنٹرول نافذ کردیاکر دیا تھا اور وہ اپنے اپنے ملک کی شرح مبادلہ زر مقرر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ تاہم یہ بہت افسوس کی بات ہے لڑائی کے نو سال کے بعد بھی غیر ملکی زرمبادلہ پر کنٹرول ابھی (جب یہ تحریر لکھی گئی تھی) تک نافذ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک دنیا جنگ کے تباہ کن اثرات سے سنبھل نہیں سکی اور محاربہ ممالک کے توازن ہا ادائیگی موافق یا متوازن Payments Balance of نہیں ہوئے ہیں۔ شرح مبادکہ میں استحکام پیدا کرنے اور مبادلہ زر کے کنٹرول کو ختم کرنے کی غرض سے 1945 میں جنگ ختم ہونے کے بعد ایک بین الاقوامی ادارہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ International Monetary Fund کے نام سے قائم کیاگیا۔ اس بات کااحساس ہوا کہ مختلف کرنسیوں کا آزادانہ تبادلہ ڈالر کی قلت کی وجہ سے نہیں ہوسکتاہو سکتا ہے اور ڈالر کی قلت اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی، تا وقتیکہ امریکہ میں محصول درآمد کی گراں شرح کو کم کیا جائے۔ دوسرے ممالک امریکی ڈالر زیادہ مقدار میں اس وجہ سے حاصل نہیں کرسکتے ہیں کہ امریکی حکومت نے سامان درآمد پر بھاری محصول لگارکھا تھا اور یہ ان کے مال کی برآمد میں جس سے وہ ڈالر حاصل کرنے میں بڑی رکاوٹ تھی۔
امریکی حکومت نے اس ذیل میں ایک کمیشن مقرر کیا اور امریکی صدر آئرن ہاور کے سامنے کچھ تجاویز پیش کیں۔ جن پر امریکی حکومت دیگر ممالک کو ڈالر حاصل کرنے میں سہولتیں مہیا کرسکے۔ کمیشن نے مارچ [[1954ء]] میں اپنی تجاویز پیش کیں۔
 
سطر 34:
 
== ''' پاکستان کا ایک فیصلہ''' ==
1049 میں برطانیہ اور بھارت نے اپنے سکے کی قیمت گھٹائی، لیکن پاکستان نے اپنے سکے کی قدر گھٹانے سے انکار کردیا۔کر دیا۔ یہ بہت اہم فیصلہ تھا، اس سے پاکستان کی خود مختاری ثابت ہوگئی۔ اس سے بڑا سیاسی
فائدہ ہوا پاکستان اپنے اس اقدام سے عالمی پریس کی شہ سرخی بن گیااور دنیا کو پتہ چل گیا کہ پاکستان ایک آزاداور خود مختارملک کا نام ہے۔
پاکستانی روپئے کی قیمت نہ گھٹانے کا جہاں سیاسی فائدہ ہوا، وہاں اسے اْقتصادی نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستانی روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کا فوری اثریہ ہوا کہ روئی اور جوٹ کی قیمتیں گر گئیں اور روئی کی قیمت کم ہو کر واپس اپنی سطح پر آگئی اور یہ بیرونی ممالک برآمد کی جانے لگی۔ لیکن جوٹ کے نرخ میں افراتفری پھیل گئی کیوں کہ پاکستان کے گھٹیا جوٹ کا واحد گاہک بھارت تھا۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کا تجارتی توازن شروع سے ہی موافقFavourable Balance of Trade تھا۔ اس لیے بھارت میں پاکستانی سکہ کی قیمت زیادہ رہی تھی۔ اس لیے اقتصادی نقطہ نگاہ سے پاکستانی سکہ کی قیمت بھارت کی کرنسی سے مہنگی ہونی چاہیے۔ لیکن اتنی مہنگی جتنی کہ پاکستان نے مقرر کی تھی۔ یعنی پاکستانی سو روپیہ ۴۴۱ بھارتی روپیہ۔ بین الا قوامی بازارِ زر میں پاکستان لین دین برطانیہ کی کرنسی اسٹرلنگ میں کرتا تھا، جس کی قدر گھٹ چکی تھی۔ اس لیے اقتصادی نقطہ سے پاکستانی سکے کی قیمت گرچکی تھی۔ لیکن پاکستانی روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کے سبب پاکستان اور بھارت کے تجارتی تعلقات منطقع ہوگئے اور بھارت نے پاکستانی جوٹ اٹھانے سے انکار کردیا۔کر دیا۔ اس کے نتیجے میں جوٹ کے نرخ گرنے لگے۔ جوٹ کے نرخوں کو گرنے سے روکنے کی خاطر جوٹ کا نرخ اس نرخ سے جو روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کے فیصلے سے قبل تھا نسبتأئ ۹۲ فیصد کم کردیا۔کر دیا۔ حالانکہ پاکستانی کرنسی کی قیمت شرح مبادلہ کی رو سے اسٹرلنگ ممالک اور بھاتی روپیہ کے مقابلے میں ۴۴ فیصد زیادہ تھی۔
 
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرکزی بینک ہونے کی حثییت سے حکومت کا خزانہ اس کی تحویل میں تھا اور یہ خزانہ بھارتی روپیہ اور اسٹرلنگ فاضلات کی شکل میں تھا۔ اسٹیٹ بینک ان فاضلات کو پاکستانی کرنسی نوٹوں کی کفالت کے طور پر استعمال کررہا تھا۔ پاکستانی روپیہ کی شرح نہ گھٹانے کے فیصلے سے ان فاضلات میں پاکستانی روپیہ کے حساب سے کمی آگئی تھی۔ اس لیے حکومت نے 1950 کے بجٹ میں ۴۵کروڑوپیہ فاضلات کی مد میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو دیے کہ کرنسی کی زر ضمانت اور زرمحفوظ کرے۔ اس وقت پاکستان کے وزیر خزانہ نے بیان دیا کہ سٹرلنگ اور بھارتی روپیہ کے لحاظ سے ان کی قوت خرید میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے مانا یہ سچ ہے لیکن روپیہ کی شرح کم نہ کر نے کے فیصلے سے ۴۵ کروڑ کا خصارہ ہوا تھا اور یہ رقم رفاء عامہ کے کسی بھی کام آسکتی تھی۔