"بپتسمہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 3:
'''بپتسمہ''' یا '''اصطباغ''' (Baptism) مسیحیوں کی ایک مذہبی رسم ہے جس میں [[مسیحیت]] میں داخل ہونے والے نئے آدمی یا نومولود پر مقدس پانی چھڑک کر باقاعدہ مسیحیت میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہ رسم گرجوں میں ادا کی جاتی ہے۔ بعض گرجوں میں مسیحیوں کو اس وقت بپتسمہ دیا جاتا ہے جب وہ جوان ہوجائیں۔
 
پانی سے بپتسمہ مسیحیوں کا گناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنے اور روحانی بحالی کا ایک طریقہ ہے۔ بپتسمہ دریا ،دریا، سمندر یا چشمہ جیسی کسی بہتے ہوئے پانی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بپتسمہ لینے والا جو پہلے ہی پانی اور مقدس روح کا بپتسمہ لے چکا ہو وہ مسیح کے نام سے اس طرح بپتسمہ لیتا ہے کہ اس کا پورا جسم پانی میں ڈوبا ہوا ہو اور سرنیچے کی طرف جھکا ہوا ہو۔ پیروں کا دھونا اس بات کی علامت ہے کہ بپتسمہ لینے والا مسیح کے ساتھ شریک ہے اور محبت، تقدیس، عاجزی، معاف کرنے کے جذبہ اور خدمت گذاریگزاری کی یاد دہانی ہے۔ مسیحی عقائد کے مطابق جو شخص بپتسمہ لے اسے مسیح کے نام پر اپنے پیروں کو دھونا چاہیے۔ اس طریقہ سے ایک دوسرے کے پیر دھونا ایک ایسا رواج ہے جس کو کسی بھی مناسب موقع پر عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
 
مسلمانوں کے مطابق '''اصطباغ''' (the way something is colored) کا مطلب وہ [[مسلمان]] جو [[ہسپانیہ]] میں رہتے تھے اور جنھیں زبردستی [[مسیحی]] بنایا گیا ہو اور بنانے کی کوشش کی گئی ہو۔<ref>دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل عام، محمد انور بن اختر، ص- 29 تا 31</ref>
 
دریائے یرون پر [[یسوع مسیح]] نے [[یوحنا اصطباغی]] کی شاگردی کی اور ان کے ہاتھ سے غوطہ لیا جس کو مسیحی بپتسمہ کہتے ہیں اور اصطباغ بھی۔<ref>تفسیر حقانی ابو محمد عبدالحقعبد الحق حقانی،البقرہ،52</ref>
"جب آفتاب اسلام دنیا میں طلوع ہوا تو اس وقت یہود ونصاریٰ میں ایک رسم اصطباغ کی جاری تھی پہلے اس رسم کا رواج یہود میں ہوا اور پھر مسیحیوں نے بھی اس رسم کو جاری رکھا اور اب تک مسیحیوں میں یہ رسم چلی آتی ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے یا کوئی مسیحی بنتا ہے تو اس کو زرد پانی کے حوض میں غوطہ دیتے ہیں یا اس کے سر پر اس حوض میں سے کچھ پانی ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب وہ سچا مسیحی ہو گیا (پرانے گناہ دھل گئے) اسی رسم کا نام اصطباغ ہے جس کو آج کل بپتسمہ دینا کہتے ہیں چونکہ یہودی اور مسیحی مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ یہودی یا مسیحی بن جاؤ اس لیے گویا وہ انہیں اصطباغ کی دعوت دیتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (صبغۃ اللہ) نازل فرمائی اور مسلمانوں کو یہود اور نصاریٰ کی دعوت اصطباغ کا یوں جواب بتایا کہ ان سے کہہ دو کہ ہم تمہارا اصطباغ لے کر کیا کریں گے ہمیں تو اللہ کے دین کا رنگ کافی ہے اس سے بڑھ کر اور بہتر اور کون سا رنگ ہو سکتا ہے اور تم لوگ حضرت عزیر اور حضرت مسیح کو ابن اللہ اور اپنا خداوند سمجھنے کی وجہ سے شرک کے ناپاک رنگ سے ملوث ہو تم اہل توحید اور اہل اخلاص کو کس رنگ کی دعوت دیتے ہو۔"<ref>تفسیر معارف القرآن مولاناادریس کاندہلوی،البقرہ،136</ref>