"عالمی بنک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 41:
 
== انتظامی ڈھانچہ ==
عالمی بنک گروپ کا سب سے بڑا ادارہ [[بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی]] ہے،جسے لوگ عموماً عالمی بنک کہتے۔ عالمی بنک کا صدر دفتر [[ریاستہائے متحدہ امریکا|امریکہ]] کے دارالحکومتدار الحکومت [[واشنگٹن]] (ضلع کولمبیا) میں ہے۔ اس کے مالک اس کے ارکان ممالک ہیں۔ عالمی بنک کا منافع اس کی اور اس کے ارکان ممالک کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ارکان ممالک کے شروع میں برابر ووٹ ہوتے ہیں مگر مختلف ممالک کے زائد ووٹ اس بنیاد پر ہوتے ہیں کہ اس کی عالمی بنک میں سرمایہ کاری کا حصہ کتنا مقرر ہوا ہے۔ چاہے وہ یہ حصہ دے یا نہ دے اور وقت پر دے یا نہ دے مثلاً امریکہامریکا اکثر عالمی بنک میں اپنا حصہ کم ادا کرتا ہے اور وقت پر مہیا نہیں کرتا اور یہ شکائت [[اقوام متحدہ]] کو بھی ہے۔
عالمی بنک کے فیصلے ووٹوں کی طاقت کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر عالمی بنک میں فیصلے ترقی یافتہ ممالک کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ نومبر 2006 میں [[ریاستہائے متحدہ امریکا|امریکہ]] کے ووٹ %16.4، [[جاپان]] کے %7.9 ، [[جرمنی]] کے %4.5 ، [[فرانس]] کے %4.3 اور [[برطانیہ]] کے %4.3 ووٹ تھے۔ اس حساب سے صرف اوپر دے گئے پانچ ممالک کے ووٹ %37.4 بنتے ہیں یعنی وہ جو چاہے کر سکتے ہیں۔ عالمی بنک میں بڑے فیصلوں کے لیے %85 ووٹ درکار ہوتے ہیں اور ان فیصلوں کو امریکہامریکا اکیلا کسی ملک کی مدد کے بغیرمسدود (بلاک) کر سکتا ہے۔
عالمی بنک کو ایک بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلایا جاتا ہے جس کا اجلاس سالانہ بنیادوں پر ہوتا ہے۔ ہر ملک کی طرف سے اس ملک کا وزیرِ مالیات گورنر ہوتا ہے۔ گورنروں نے اپنا اختیار 24 ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو سونپا ہوا ہے جن کا باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے (عالمی بنک کے ووٹوں کی تعداد ذہن میں رکھئیے)
== ارکان ==
سطر 49:
== صدارت ==
اگرچہ عالمی بنک کے صدر کا باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے مگر آج تک تمام صدر امریکی تھے۔ یہ ایک غیر تحریر کردہ معاہدہ ہے کہ عالمی بنک کا صدر امریکی اور [[بین الاقوامی مالیاتی فنڈ]] کا صدر ھمیشہ یورپی ہوگا۔ آج کل پال وولفووٹز اس کے صدر ہیں۔ ان کا تعلق [[ریاستہائے متحدہ امریکا|امریکہ]] سے ہے۔ ان کا انتخاب جون 2005 میں ہوا تھا۔ آج تک کے صدور کی فہرست کچھ یوں ہے:
* اوجین مئی۔ جون 1946 ۔1946۔ دسمبر 1946
* جان میکلائے۔ 1947 مارچ ۔مارچ۔ جون 1949
* اوجین بلیک۔ 1949۔ 1963
* جارج ووڈز۔ جنوری 1963۔ مارچ 1968
* رابرٹ میکنامارا۔اپریلمیکنامارا۔ اپریل 1968 ۔جون۔ جون 1981
* ایلڈن کلوسن۔ جولائی 1981۔جون1981۔ جون 1986
* باربر کونابیل۔جولائیکونابیل۔ جولائی 1986۔ اگست 1991
* لوئیس پریسٹن۔ ستمبر 1991۔ 1995مئی
* جیمز وولفنسن۔مئیوولفنسن۔ مئی 1995۔ جون 2005
* پال وولفووٹز۔ جون 2005۔ جون 2007
* رابرٹ بی زوئلک۔ جولائی 2007 تاحال
سطر 63:
== عالمی بنک کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ ==
عالمی بنک ایک بڑا اور بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا مقصد ترقی پزیر ممالک کی ترقی ہے۔ مگر عالمی بنک کے ووٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے اسے تمام ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں جو سرمایہ دار ممالک کے مفاد میں ہو چاہے وہ عالمی بنک کے اپنے منشور سے ھٹ کے ہو۔ بعض ناقدین کے خیال میں عالمی بنک کی اساسی تبدیلی کی پالیسی ( Structural Adjustment Policy ) کے ساتھ ملحقہ شرائط ترقی پزیر ممالک کو ترقی نہیں بلکہ زیادہ غربت عطا کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت [[افریقا]] کے بہت سے ممالک کی موجودہ حالت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ ممالک چاہتے ہیں کہ ان کی اشیاء ترقی پزیر ممالک کی منڈیوں میں بغیر کسی مشکل اور رکاوٹ کے فروخت ہوں اور ترقی پزیر ممالک صرف ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں جن سے ترقی یافتہ ممالک کے مفادات پر ضرب نہ پڑتی ہو۔
ہوتا یہ ہے کہ ترقی پزیر ممالک کے کرپٹ اور بدمعاش عہدادارانِ حکومت قرضے لے کر لٹا دیتے ہیں اور وہ ٹھیک جگہ پر خرچ نہیں ہوتے۔ ان قرضوں کے ساتھ جومبنی بر نا انصافی شرائط وہ قرض لینے کے لیے قبول کر لیتے ہیں جن کا خمیازہ اس ملک کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس ادارہ کو امریکہامریکا خصوصاً اور یورپی ممالک عموماً اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان وجوہات کی بناءبنا پر کئی ممالک میں عالمی بنک کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں اور اس کے چنگل سے آزادی کے لیے اپنی حکومتوں سے درخواست کی جاتی ہے مگر عالمی بنک ایک بہت بڑا قرض حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے غریب ممالک کی حکومتوں کو اس سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور قرض کے ساتھ ملحقہ شرمناک شرائط بھی ماننا پڑتی ہیں۔ اس میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی بنک غیر ملکی زرِمبادلہ میں قرض دیتا ہے جو اسی زرِمبادلہ میں واپس کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف [[بین الاقوامی مالیاتی فنڈ]] ترقی پزیر ممالک پر اثر ڈال کر ان کے روپے کی قیمت میں کمی کرواتی ہے۔ اس سے قرضوں کی مقدار قرض لیے بغیر ہی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جب عالمی بنک کوئی قرض دیتا ہے تو اس کی پہلی قسط دینے سے پہلے وہ پچھلے قرضوں کا سود اور قسط کاٹتا ہے۔ کچھ ممالک کو تو نئے قرض کا صرف دس فی صد سے بھی کم اصل میں ملتا ہے۔ [[پاکستان]] بھی ان ممالک میں شامل ہے۔
 
== بیرونی روابط ==