"المستنصر باللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 35:
مستنصر باللہ کے عہد خلافت کے ابتدائی واقعات کو مورخ اسلام امام [[ابن کثیر]] الدمشقی نے اپنی تصنیف البدایۃ والنہایۃ المعروف التاریخ ابن کثیر میں تفصیلی بیان کیا ہے جن میں چند واقعات یوں ہیں :
 
بروز [[جمعہ]] [[17]] [[رجب]] [[623ھ]] مطابق [[17 جولائی]] [[1226ء]] کو منبروں پر امام امیر المومنین المستنصر باللہ بن [[ظاہر باللہ بن ناصر الدین]] کے نام کا خطبہ پڑھا گیا اور اُس کا نام اور ذِکر آنے پر سونا اور چاندی نچھاور کیا گیا۔ شعرا نے اُس دِن اُس کے مدائح اور مراثی پڑھے، اِس کے بدلے میں اُنہیں خلعت اور اِنعاماتا دئیےدیے گئے۔ ماہِ شعبان المعظم [[623ھ]] مطابق [[اگست]] [[1226ء]] میں شاہِ موصل کی طرف سے وزیر ضیاء الدین ابو الفتح نصر اللہ بن الاثیر کی طرف سے ایک ایلچی [[بغداد]] آیا اور جس کے پاس ایک خط تھا جس میں فصیح و بلیغ عبارت میں تہنیت برائے تخت نشینی اور تعزیت خلیفہ سابق مرحوم کی پیش کی گئی تھی۔<ref name="ReferenceB"/>
 
== عہد خلافت کے واقعات ==
سطر 43:
== عادات و خصائل ==
 
مستنصر باللہ شریعت اِسلامیہ کو اُس کے اصل رنگ میں دوبارہ نافذ العمل کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اُس نے کافی کا رہائے نمایاں سر انجام دئیے۔دیے۔ دین کے حوالہ سے وہ خود سخت تھا اور کوئی گستاخی سننا پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک شاعر وجیہ قیروانی نے اُس کی مدح میں کچھ اشعار قصیدہ کی شکل میں نظم کیے جس میں یہ شعر تھا کہ :
 
'''"اگر تو سقیفہ کے روز ہوتا تو تجھے ہی پ رہی زگاروں کا پیشرو اور مقدم سمجھتے۔"'''
سطر 51:
== عہد خلافت میں کا رہائے نمایاں ==
مستنصر باللہ نے اپنے عہد خلافت میں [[خلافت عباسیہ]] کو دوبارہ عروج پر قائم کرنے کی کوشش کی اور اِس سعی کی خاطر کئی بہترین بندوسبت کروائے جس سے [[خلافت عباسیہ]] کی رونق [[ہارون الرشید]] کے زمانہ جیسی دکھائی دینے لگی تھی۔
مستنصر باللہ نے عوام میں انصاف کی فراہمی آسان کی، رعایا میں عدل پھیلا دیا۔ مقدمات میں فوری اِنصاف رائج العام کیا۔ اہل علم و دِین کو مقرب بنایا۔ بے شمار مساجد تعمیر کروائیں۔ شاہی سرائیں تعمیر کروائی گئیں تاکہ عوام دوران سفر پریشان نہ ہوں۔ شفاء خانے اور بیمارستان تعمیر ہوئے۔ اسلام کے دشمنوں کو غارت کیا۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوط کیا اور علما کو سنت نبوی کی ترویج کے لیے زور دیا۔ لوگوں کو سنت نبوی پر چلنے کی ہدایت کی۔ جہاد کا انتظام بہت اچھا کر دیا گیا۔ مددِ اسلام کی خاطر افواج جمع کی گئیں۔ عباسی سرحدوں کا بندوبست کیا گیا اور اُنہیں دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے افواج کی کثیر تعداد سرحدوں پر مقرر کی گئی۔ بیشتر قلعے فتح ہوئے۔<ref name="ReferenceA"/> [[632ھ]] مطابق [[1235ء]] میں مستنصر باللہ نے حکم جاری کیا کہ چاندی کے درہم تیار کیے جائیں تاکہ وہ اُن سونے کے چھوٹے ٹکڑوں کا بدل ہو جائیں جو اُس وقت رائج تھے۔ چنانچہ چمڑے کے دستر خوان پر درہم پھیلا دئیےدیے گئے تاکہ خلیفہ بغور ملاحظہ فرماسکے۔ عباسی وزیر نے حکام، تاجروں اور صرافوں کو بلا کر کہا: امیر المومنین نے تمہارے لیے یہ چاندی کے درہم تیار کروائے ہیں تاکہ سونے کے چھوٹے ٹکڑوں کی وجہ سے تم کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ رفع ہو جائے اور اُن کی وجہ سے جو تم حرام کے مرتکب ہوتے تھے، اُس سے بچ سکو۔ یہ سن کر لوگوں نے مستنصر باللہ کو دعائیں دیں کیونکہ درہم کے باعث اُنہیں آسانی پیدا ہو گئی تھی۔<ref name="حوالہ 2">جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، تذکره المستنصر باللہ جعفر، صفحہ 501۔</ref>
==مدرسہ مستنصریہ کا قیام==
مورخ اسلام امام [[ذہبی]] بیان کرتے ہیں کہ مدرسہ مستنصریہ کے وقف کا میزان ہی صرف 70 ہزار مثقال سے زائد تھا۔ اِس مدرسہ کی بنیاد [[625ھ]] مطابق [[1228ء]] میں رکھی گئی اور یہ عمارت [[631ھ]] مطابق [[1234ء]] میں مکمل ہوئی۔ تعمیر پر سات سال صرف ہوئے۔ اِس مدرسہ میں ایک کتب خانہ قائم کیا گیا تھا جس میں 160 اونٹوں پر کتب لاد کر لائی گئی تھیں جو نہایت نفیس و عمدہ تھیں۔ 248 فقہا چاروں مذاہب کے اِس مدرسہ میں طالب علم تھے اور اِس میں 4 مدرس تھے۔ [[حدیث]]، [[نحو]] اور [[طب]]، فرائض کے علاحدہ علاحدہ اُساتذہ مقرر تھے۔ اِن سب کے طعام و قیام اورخوراک اعلیٰ کا بندوبست کا پورا پورا اِنتظام کیا جاتا تھا۔ 300 یتیم بچے اِس مدرسہ میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے اور اُن کی پرورش و تعلیم کی خاطر بے اِنتہاء مال وقف کیا جاتا تھا۔ امام [[ذہبی]] نے اُن گاوں اور زمینوں کی فہرست بھی دی ہے جن کی آمدن صرف اِس مدرسہ کے لیے وقف تھی۔<ref name="حوالہ 2" />
سطر 58:
'''[[623ھ]] مطابق [[1226ء]]/[[1227ء]]''' :
* '''یونس بن بدران بن فیروز جمال الدین المصری''' : مصر کے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے اور علم میں یگانہ روزگار تھے۔ امام [[شافعی]] کی کتاب " الام " کا اختصار کیا اور فرائض میں ایک طویل کتاب تصنیف کی۔ [[دمشق]] میں بیت المال کا کام بھی اِنہیں سونپ دیا گیا تھا۔ شاہان [[دمشق]] کی جانب سے خلفاء اور ملوک کو مراسلے اِرسال بھی آپ ہی کیا کرتے تھے۔ حاکم [[دمشق]] المعظم نے الزکی ابن الزکی کو معزول کر دیا اور اِنہیں [[دمشق]] کا قاضی القضاۃ مقرر کر دیا۔ [[دمشق]] کے مدرسہ عادلہ کبیرہ میں درس دینے والے پہلے امام ہیں۔ تفسیر اور فقہ کا درس دیا کرتے تھے۔ سامعین کو روایت کرنے اور لکھ لینے کے متعلق دفتروں میں نقل کرنے کو اچھا خیال کیا کرتے تھے۔ ہر [[جمعہ]] اور [[منگل]] کے دن کی صبح کو عدل و اِنصاف کے واسطے بیٹھا کرتے اور ایوان عادلیہ میں شہر کے تمام گواہوں کو بلوا لیا کرتے اور جس نے کوئی خط اِنصاف کے لیے لکھا ہوتا، وہ حاضر ہو جاتا اور اپنے گواہان کو بھی بلوا لیتا اور وہ حاکم کے سامنے گواہی دیتے اور یہ سب جلدی میں تحریر کر لیا جاتا۔ جمال الدین مصری ہر جمعہ کو وقت عصر کے بعد مزار عثمان پر کمالی کھڑکی میں نشست کرتے اور فیصلہ کرتے حتیٰ کہ نماز مغرب اداء کرلیتے۔ بسا اوقات عشاء کی نماز اداء کرنے تک وہیں رکے رہتے۔ اِن کا علم کا مذاکرہ بہت خوب تھا۔ اگر کسی شے کو لے لیا کرتے تو لوگ برا نہیں مناتے تھے۔ ماہِ [[ربیع الاول]] [[623ھ]] مطابق [[مارچ]] [[1226ء]] میں فوت ہوئے اور اِنہیں جامع مسجد [[دمشق]] کے قریب دفن کیا گیا۔<ref>ابن کثیر الدمشقی: البدایۃ والنہایۃ، جلد 13 صفحہ 148، تذکرہ سال ہجری 623ھ۔ طبع لاہور۔</ref>
* '''ابو القاسم ھبۃ اللہ ابن الرواحہ''' : یہ شخص مشہور مالدار تاجر اور [[دمشق]] کے معتبرین میں سے ایک تھا۔ دراز قد تھا اور داڑھی ندارد تھی۔ باب الفرادیس [[دمشق]] میں اِس نے مدرسہ رواحیہ تعمیر کروایا اور مذہب شافعیہ کے لیے وقف کر دیا۔ اِس کی نگرانی اور تدریس کا فریضہ شیخ تقی الدین بن الصلاح الشہرزوری کے سپرد کیا گیا ۔گیا۔ [[حلب]] میں بھی اِس کا ایک مدرسہ تھا اور اُسی مدرسہ میں ابن الرواحہ آخری عمر میں گوشہ نشیں ہو گیا تھا۔ اِسے [[دمشق]] میں صوفیا کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ [[623ھ]] مطابق [[1226ء]] میں فوت ہوا۔<ref name="حوالہ 1">ابن کثیر الدمشقی: البدایۃ والنہایۃ، جلد 13 صفحہ 150، تذکرہ سال ہجری 623ھ۔ طبع لاہور۔</ref>
* '''ابو محمد محمود بن مودود بن محمود البلاجی الحنفی الموصلی''' : موصل شہر میں اِن کا ایک مدرسہ تھا جو اِن کے نام سے مشہور تھا۔ یہ نسلاً ترک تھے بعد ازاں علمائے مشائخ میں شمار ہونے لگے۔ دین میں راسخ الاعتقاد اور پختہ تھے۔ 16 [[جمادی الثانی]] [[623ھ]] مطابق [[15 اپریل]] [[1226ء]] کو 80 سال کی عمر میں [[موصل(شہر)]] میں فوت ہوئے اور وہیں دفن کیے گئے۔<ref name="حوالہ 1" />
* '''نجیب الدین یاقوت یعقوب ابن عبد اللہ متولی شیخ تاج الدین الکندی''' : اِنہیں ادب و شعر میں خاصا کمال حاصل تھا۔ جامع [[دمشق]] کے شمال مشرقی زاویہ کے کتب خانہ کی کتابیں اِن کے لیے وقف کردی گئی تھیں اور وہ تعداد میں 761 جلدیں تھیں۔ اِن کے بعد اِن کے بیٹے کو وقف کردی گئیں۔ بعد ازاں وہ کتب علما کو وقف کی گئیں اور سقوط بغداد میں یہ کتب ضائع ہوگئیں اور بیشتر فروخت کردی گئیں۔ ماہ [[رجب]] [[623ھ]] مطابق [[جولائی]] [[1226ء]] میں [[بغداد]] میں فوت ہوئے اور امام [[ابوحنیفہ]] کے مزار کے پاس مقبرہ خیزران والے قبرستان میں دفن کیے گئے۔<ref>ابن کثیر الدمشقی: البدایۃ والنہایۃ، جلد 13 صفحہ 150/151، تذکرہ سال ہجری 623ھ۔ طبع لاہور۔</ref>