"تصوف" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، سے، رہیں، سے
سطر 29:
* [[دیوبند]] کے ایک عالم اور [[اشرف علی تھانوی]] صاحب کے خلیفہ کہلائے جانے والے [[محمد مسیح اللہ خان]]، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ ؛ [[باطنیت|اعمالِ باطنی (esoteric)]] سے متعلق [[شریعت]] کا شعبہ تصوف اور سلوک کہلاتا ہے اور، [[ظاہریت|اعمالِ ظاہری (exoteric)]] سے متعلق شریعت کا شعبہ [[فقہ]] کہلاتا ہے<ref name=batin>Shariat and Tasawwuf by ''Maseehullah Khan'' [http://books.themajlis.net/node/538 مجلس . نیٹ نامی موقع پر]</ref> ایک اور دیوبندی عالم قاری محمد طیب کے الفاظ میں؛ مذہبی طور پر علمائے دیوبند مسلم ہیں، تفرقاتی طور پر یہ [[اہل سنت|اہلسنت والجماعت]] سے تعلق رکھتے ہیں، بطور [[مقلد]] یہ [[حنفی]] ہیں، [[طریقت]] میں صوفی ہیں، مدرسی طور پر یہ [[ماتریدی]] اور سلوک میں چشتی ہیں<ref name=ahyahorg>The Jamaa'at Tableegh and the Deobandis; Chapter 1.6 [http://www.ahya.org/tjonline/eng/01/06chp1.html احیاء . آرگ نامی موقع]</ref>۔
* [[برصغیر]] میں دیوبندیوں کے ساتھ ساتھ [[بریلوی مسلک|بریلوی]] بھی تصوف میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور اس فرقے کے بانی [[احمد رضا خان]] کو، [[قادریہ]] سمیت تصوف کے تیرہ دیگر فرقہ جات کی جانب سے خلافت حاصل تھی۔<ref>Ahmad Raza as a devout Sufi [http://www.madanipropagation.com/main/page_sufi_books_imam_ahmad_raza.html مدنی پروپیگیشن . آرگ نامی موقع]</ref>
: یہاں ایک دلچسپ اور قابل{{زیر}} غور بات یہ ہے تصوف پر عمل پیرا دونوں (بریلوی اور دیوبندی) [[امام ابو حنیفہ]] کے [[مقلد]] ہیں اور تصوف میں بلند درجے پر تسلیم کیئےکیے جانے والے ایک صوفی [[مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی|جلال الدین رومی]] نے خود اس بات کا تذکرہ کیا کہ امام ابو حنیفہ اور [[امام شافعی]] کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں۔<ref>Mawlana Jalaluddin Rumi [http://www.dar-al-masnavi.org/n.a-III-3812.html انگریزی] اور [http://www.iptra.ir/vdcjuqxheem.html فارسی]</ref>
* تصوف سے نالاں علمائے اسلام اور [[سلفی]] حضرات کی تصوف کی تعریف دیکھی جائے تو ان کے مطابق؛ تصوف، [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} کے بعد اسلام میں پیدا ہونے والی ایک [[بدعت]] ہے اور یہ کہ تصوف، قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن ان میں ایسے علما بھی نظر آتے ہیں جو چند صوفیا (جیسے [[امام غزالی]]) کو تکفیر صوفیت کے دوران مُستثنٰی رکھتے ہیں۔<ref>The Necessity of a Measure of Proper Sufi education [http://www.sunnah.org/tasawwuf/scholr39.htm شيخ يوسف القرضاوی]</ref>
* [[اہل تشیع]] کے مطابق تصوف، عملی [[معرفت|معرفت (gnosis)]] کا نام ہے اور عرفان سے مراد ایسے علوم کی لی جاتی ہے کہ جو [[حاسہ|حواس]] اور تجربات سے نہیں بلکہ باطنی کشف سے حاصل ہو۔<ref>Islamic Gnosis ('Irfan) and Wisdom (Hikmat) [http://www.al-islam.org/al-tawhid/islamic_gnosis_wisdom/ اہل بیت ڈیجیٹل اسلامک لائبریری]</ref> فی الحقیقت یہ esoteric اور exoteric والا فلسفہ ہی ہے جس کے لیے ایرانی علاقوں میں عرفان{{زیر}} نظری (theoretical gnosis) کی اصطلاح بھی مروج ملتی ہے، شیعہ اور سنی تصوف میں مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ان کو مدغم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔<ref>Theoretical Gnosis and Doctrinal Sufism and Their Significance Today [http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/review/apr06/03.htm آن لائن مقالہ]</ref>
سطر 35:
 
== صوفی کی اصل الکلمہ ==
جیسا کہ قطعۂ تعریف میں بیان ہوا کہ لفظ تصوف تو اصل میں صوفی سے مشتق ایک اسم ہے جو نویں صدی عیسوی (قریبا{{دوزبر}} 286 ھجری) سے مروج ہونا شروع ہوا<ref name=Oxford>The Oxford Encyclopedia of the Islamic World: Sufism by Kazuo Ohtsuka [http://www.oxfordislamicstudies.com/article/opr/t236/e0759 آن لائن مضمون]</ref><ref name=Placeoftasawwuf/>۔ لفظ صوفی کے بارے میں محققین مختلف نظریات رکھتے ہیں جو نیچے درج کیئےکیے جا رہے ہیں۔
=== اصحابِ صُفّہ ===
تصوف سے شغف رکھنے والے علما اکرام، لفظ صوفی کی [[اشتقاقیات|اصل الکلمہ]]، [[اصحاب صفہ]] سے منسلک کرتے ہیں۔ صفۃ اصل میں عربی کا لفظ ہے جس میں ص پر زیر اور ف پر زبر {{جسامتعر|130%|(صِفَة)}} کے ساتھ صفت یا اہلیت کے اور ص پر پیش اور ف پر تشدید {{جسامتعر|130%|(صُفَّة)}} کے ساتھ چبوترے کے معنی آتے ہیں۔ یہ بعدالذکر معنی ہی اختیار کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ صوفی اسی صفہ سے اخذ ہے کہ [[مسجد نبوی]] کے شمال میں واقع صفہ (چبوترے یا سائبان) میں جو اصحاب رہا کرتے تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور اصحاب صفہ چونکہ، فقراء، تارک{{زیر}} دنیا اور بالکل صوفیوں کے حال میں ہوتے تھے اس لیے یہی لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ہے<ref name=wikiarticle>اردو ویکیپیڈیا پر ہی ایک مضمون [[تصوف لغوی مباحث]]، (گو مضمون اصلاح طلب ہے)</ref>۔ [[امام ابن تیمیہ]] کے مطابق حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} نے اصحاب{{رض}} کو سوال کرنے سے بالکل منع کر دیا تھا یعنی اصحاب صفہ، عام فقراء کی مانند دست سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ نا ہی ان میں کوئی صوفیانہ کیفیات ([[حال]]، [[وجد]] وغیرہ) پائی جاتی تھیں اور نا ہی اصحاب صفہ نے خود کو تارک الدنیا کیا تھا بلکہ وہ دیگر اصحاب کی طرح [[جہاد]] میں بھی شریک ہوا کرتے تھے۔<ref>اصحابِ صُفّہ اور تصوف کی حقیقت از امام ابن تیمیہ ؛ ترجمہ عبد الرزاق ملیح آبادی : المکتبۃ السلفیۃ۔ شیش محل روڈ لاہور</ref> مزید یہ کہ [[لسانیات|علم لسانیات]] کے مطابق، لفظ صفہ سے صوفی مشتق کرنا قواعد کے لحاظ سے غلط ہے کہ اوپر بیان کردہ [[اعراب]] کے کی رو سے لفظ صفہ سے {{جسامتعر|130%|صُفّی}} (suffi) مشتق ہوگا نا کہ صوفی (soofi یا sufi) مشتق کر لیا جائے<ref name=saleh>Sufism, Origin and Development by Dr. Saleh As-Saleh [http://islamic-knowledge.com/Books_Articles/Deviant_Path__Sufism__Origin_and_Development__Dr_As-Saleh.pdf (آن لائن، پی ڈی ایف فائل)]</ref>
سطر 71:
 
== اسلام اور صوفیت ==
قرآن میں صوفی یا تصوف و صوفیت نام کی کوئی اصطلاح نہیں ملتی اور جیسا کہ ابتدائیہ میں مذکور ہوا کہ یہ تصور اسلام کی اولین نسل میں موجود ہی نہیں تھا اور ابن خلدون کے مطابق کوئی دوسری صدی سے دیکھنے میں آیا (حوالہ 1) ؛ ابن خلدون کے الفاظ میں اس سے مراد "خود کو اللہ کی مکمل سپردگی میں دینے کی ہے" (جو اسلام کا تصور بھی ہے) اور یہ لوگ مکمل روحانی پاکیزگی، انسان کی اندرونی کیفیات، وجود کی فطرت اور دنیاوی مسرتوں سے دور ہو کر عبادت اور اللہ کی بندگی پر زور دیتے تھے۔ جب تک یہ تمام طریقۂ کار حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} کی جانب سے لائے گئے اللہ کے پیغام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اختیار کیئےکیے جاتے رہی ںرہیں اس وقت تک لفظ صوفی اور تصوف کی بجائے ان کو شریعت ہی کہا جا
سکتا ہے کیونکہ جب سب کچھ قرآن اور سنت کے مطابق ہی ہے تو پھر اسے تصوف کیوں کہا جائے کہ اس کے لیے تو شریعت کی اصطلاح حضرت محمد{{ص}} کے قریب ترین زمانے سے موجود ہی تھی۔ لیکن پھر اس میں اسلام حکومت کی وسعت کے ساتھ قبل از اسلام کے ایرانی و یونانی فلسفیانہ خیالات شامل ہونے لگے؛ انسان اور کائنات کا تعلق، اللہ سے قربت، دنیا داری سے کنارہ کشی، انسان کی لاچارگی وغیرہ جیسے تصورات شامل ہونے کے بعد صوفیت اپنی شکل اختیار کرنے لگی؛ اس قسم کی روحانی پاکیزگی اور عبادت کے تصور کو قرآن کی سورت [[الحدید]] کی آیت 27 میں رہبانیت (monasticism) کا نام دیا گیا ہے اور اسے خود انسان کی تخلیق کہا گیا ہے<ref>ایک آن لائن قرآن [http://www.asanquran.com/ShowPage.cfm?locPage_ID=949 اردو ترجمے کے ساتھ]۔</ref> اور کہا گیا ہے کہ؛ نہیں فرض کیا تھا ہم (اللہ) نے اسے ان پر۔ <br/> اردو کے ایک مفکر اور شاعر، [[محمد اقبال|اقبال]] نے اسلام میں تصوف کے تصور کو اسلام کی زمین پر ایک بدیسی / اجنبی (alien) تصور قرار دیا ہے جو غیر عرب (اسلام کی وسعت کی وجہ سے ) اور (قبل از اسلام کے ) ایرانی عقلیت پسند ماحول میں پروان چڑھا، اقبال نے یہ تصوف کے بارے میں یہ رائے [[سید سلیمان ندوی]] کے نام تیرہ [[نومبر]] [[1917ء]] کو اپنے ایک مکتوب میں ان الفاظ میں تحریر کی۔۔۔۔۔
{{د}}Even th ہرconcept of tasawwuf is an alien plant on the soil of Islam, one which has been brought up in the intellectual climate of Ajamis (non-Arabs, specially Persians).<