"حاتم طائی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، ہو گئے، دیے، سے، بنا، سے، شعرا
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
{{صندوق معلومات شخص|}}
[[عرب]] کے جاہلی دور کا نامور [[شاعر]] ۔ غیر معمولی شجاعت و سخاوت کی وجہ سے مشہور ہے۔ [[عربی]] زبان میں کسی کی سخاوت و فیاضی بڑھا چڑھا کر بیان کرنی ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص حاتم سے بھی زیادہ سخی ہے۔ [[اردو]] میں بھی اسی طرح کہا جاتا ہے۔ عہد [[اسلام]] سے کچھ عرصہ قبل مرا۔ اس کی بیٹی [[سفانہ بنت حاتم|سفانہ]] عروج اسلام کے زمانے میں گرفتار ہو کر دربار نبوت میں پیش ہوئی۔ تو اس نے نبی اکرم کے سامنے اپنے باپ کی فیاضیوں اور جود و کرم کا تذکرہ کیا۔ رسول اللہ نے اس کو رہا کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ حاتم اسلامی اخلاق کا حامل تھا۔ حاتم کا دیوان پہلی بار رزق اللہ حسون نے [[لندن]] سے 1876ء میں شائع کیا۔ 1897ء میں دیوان کا ترجمہ جرمن زبان میں چھپا۔
حاتم کے بیٹے [[عدی بن حاتم]] نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
 
== حالات زندگی ==
 
حاتم ابن عبد اللہ بن سعد بن أخزم بن أبي أخزم الطائی کا والد بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا ۔تھا۔ اس کی ماں نے اس کی پرورش کی وہ بڑی دولتمند خاتون تھی اور نہایت فیاض تھی ۔تھی۔ اپنی تمام ملکیتی چیز سخاوت کردیتی تھی ۔تھی۔ ایک دفعہ اس کے بھائیوں نے اس کا تمام مال روک لیا اور اسے ایک سال تک قید رکھا ۔رکھا۔ انہوں نے سوچا کہ اسے فاقہ کا مزا چکھائیں اور مال و دولت کی قدر و قیمت بتائیں اور جب اسے چھوڑا تو اس کے مال میں سے تھوڑا سا حصہ دیا ۔دیا۔ اتنے میں بنو ہوازن کی ایک تنگ دست خاتون اس کے پاس فریاد لے کر آئی تو اس نے وہ سارا مال اسے دے دیا اور کہنے لگی جب میں نے بھوکا رہ کر اس کی تکلیف دیکھی ہے ،ہے، اس وقت سے میں نے قسم کھالی کہ کسی سائل سے کوئی چیز نہ چھپاؤں گی ۔
 
اس سخی ماں نے حاتم کی تربیت کی اور اس عادت کا اسے وارث بنایا اور اسے سخاوت کا دودھ پلایا ۔پلایا۔ وہ جوان ہو کر بڑا سخی بنا ۔بنا۔ وہ سخاوت سے ہی دل بہلاتا اور اس میں اس قدر مبالغہ کرنے لگا کہ جنون کی حد تک پہنچ گیا ۔گیا۔ یہ اپنے دادا کے پاس رہتا تھا ،تھا، چھوٹی سی عمر تھی ،تھی، اپنا کھانا لے کر باہر نکل جاتا ،جاتا، اگر کوئی کھانے والا ساتھ مل جاتا تو ساتھ مل کر کھالیتا ،کھالیتا، ورنہ اپنا کھانا پھینک آتا ۔آتا۔ حاتم کا دادا ایسی سخاوت کو ناپسند کرتا ۔کرتا۔ چنانچہ دادا نے اسے اونٹوں کی نگرانی پر لگا دیا ۔دیا۔ ایک دن عبید بن الا برص ،برص، بشیر بن ابی حازم اور نابغہ ذبیانی نعمان کے پاس جاتے ہوئے اس کے پاس سے گزرے اور اس سے مہمانی کا مطالبہ کیا ۔کیا۔ اس نے ہر ایک کے لیے ایک ایک اونٹ ذبح کیا ،کیا، حالانکہ وہ انہیں جانتا بھی نہیں تھا ۔تھا۔ جب انہوں نے اپنے نام بتائے تو سارے اونٹ ان میں تقسیم کر دیے ،دیے، وہ تقریباً تین سو تھے اور خوشی خوشی گھر آیا دادا کو مبارک باد دی کہنے لگا میں نے دائمی عزت و مجد کا ہار آپ کے گلے میں ڈال دیا ہے ،ہے، پھر جو کچھ ہوا پورا قصہ سنایا اور دادا نے یہ معاملہ سن کر کہا ’اب تو میرے ساتھ نہیں رہ سکتا‘ حاتم نے کہا مجھے اس کی کوئی پروا نہیں پھر یہ اشعار کہے ۔
میں تنگ دستی و ناداری میں لوگوں سے اجتناب کرتا ہوں اور مالداری کی حالت میں ان کے ساتھ مل جل کر سکتا ہوں اور اپنے سے غیر آہنگ شکل ترک کردیتا ہوں ۔
 
سطر 14:
مجھے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا کہ سعد (دادا) اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا گیا اور مجھے گھر تنہا چھوڑ دیا کہ میرے ساتھ میرے گھر والے نہیں ہیں ۔
 
حاتم کی سخاوت کے چرچے گھر گھر عام ہو گئے اور اس کی سخاوت و فیاضی کی داستانیں ضرب المثل بن گئیں اور اس ضمن میں بڑے بڑے عجیب و غریب قصے بیان کیے جاتے ہیں ۔ہیں۔ جن میں اکثر صرف زیب داستان کے لیے بڑھا چڑھا دیے گئے ہیں ۔ہیں۔ حاتم کی سخاوت کے قصے اسی طرح بنائے گئے ہیں ،ہیں، جس طرح امیہ کے اشعار دین کے بارے میں ،میں، عنترہ کے فخر و حماسہ میں ابو العتاہیہ کے زہد میں اور ابو نواس کے فحش و بے حیائی میں گھڑ لیے گئے ہیں ۔ہیں۔ پہلے وہ کسی مقصد کے لیے شعر کہتے ہیں پھر وہ جس کے مضامین اور اسلوب سے مطابقت رکھتے ہوئے اس شاعر سے منسوب کر دیتے ہیں ۔
 
ابن اعرابی کے مطابق حاتم ہر میدان میں کامیاب ہوتا ہے ،ہے، جب جنگ کرتا تو وہ غالب آجاتا ہے ،ہے، جب وہ مقابلہ کرتا ہے تو سبقت لے جاتا ہے ،ہے، جب وہ جوا کھیلتا ہے تو وہی جیتا ہے ،ہے، جب ماہ رجب کا چاند نظر آتا (زمانہ جاہلیت میں خاندان مضر رجب کے مہینہ کو بہت باعزت اور محترم گردانے تھے) حاتم ہر روز دس اونٹ ذبح کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا اور لوگ اس کے پاس جمع ہوجاتے تھے ۔
 
حاتم نے نوار نامی عورت سے شادی کی پھر یمن کے بادشاہ کی بیٹی ماویہ بنت عفرز سے نکاح کیا ۔کیا۔ ان دونوں بیویوں سے اس کے تین بچے عبداللہعبد ،اللہ، سفانہ اور عدی پیدا ہوئے ۔ہوئے۔ آخری دونوں نے اسلام کا زمانہ پایا اور اسلام سے فیض یاب ہوئے ۔
 
حاتم اس طرح لوگوں کو کھانا کھلاتا رہا اور مال لٹاتا رہا اور وہ 578 عیسوی میں اس دار فانی سے رخصت ہو گیا ۔
سطر 24:
== اخلاق و عادات ==
 
حاتم ایسے اعلیٰ اخلاق کا مالک تھا ،تھا، جس کی نظیر زمانہ جاہلیت میں نہیں ملتی ہے ،ہے، وہ نہایت خاموش طبع ،طبع، نرم دل اور حد درجہ بامروت تھا ،تھا، اس سلسلے میں وہ کہتا ہے ۔
 
میری عمر کی قسم ؛ میں نے کتنے اکلوتے بیٹے کو پناہ سی پھر نہ اسے قتل کیا اور نہ قید کیا اور میں نے کبھی اپنے چچا زاد پر ظلم کیا کہ میرے بھائی موجود ہوں اور اس کے بھائیوں کو زمانے نے ختم کر دیا ہو ۔
 
حاتم کی بیٹی سفانہ جب قیدیوں میں قید ہو کر آئی تو رسول اکرام ﷺ کے سامنے کھڑی ہو کر رہائی درخواست کرتے ہوئے کہنے لگی ’میرا باپ قیدیوں کو آزاد کراتا تھا ،تھا، حقوق کی حفاظت کرتا تھا ،تھا، مہمان نواز تھا اور مصیبت زدہ کی پریشانیوں کو دور کرتا تھا ،تھا، کھانا کھلاتا تھا ،تھا، اس نے ضرورت مند کو کبھی خالی نہ لوٹایا‘ تو رسول اللہ نے فرمایا یہ صفات مومن کی ہیں ’تیرا باپ اگر مسلمان ہوتا تو ہم ضرور اس پر رحمت بھیجتے‘ اور فرمایا اس کو چھوڑ دو کیوں کہ اس کا باپ مکارم اخلاق کو پسند کرتا تھا ۔
 
== شاعری ==
 
یقیناً زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے اور شاعری احساسات کا آئینہ ہوتی ہے ۔ہے۔ مذکورہ تفصیل میں حاتم کے جو اخلاق و عادات کا ذکر کیا ہے وہی اس کی شاعری میں اثر انداز اور رواں دواں نظر آتے ہیں ۔ہیں۔ اس کے الفاظ آسان و نرم ،نرم، اس کا اسلوب پختہ و محکم اور اس کا موضع اعلیٰ اور برتر ہے ،ہے، جس کی مثال بدوی شعرا میں بھی نہیں ملتی ہے ۔ہے۔ اس بنا پر ابن اعرابی نے کہا تھا ’اس کی سخاوت اس کی شاعری کے مشابہ ہے‘ اس کے کہنے کا مطلب ہے کہ اس کی شاعری ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے ،ہے، جس میں جود و سخاوت اور اس کے متعلق ملامت کرنے کے موضوعات پر امثال و حکم کا بیش بہا خزانہ جوش مارتا رہا ہے ،ہے، اس میں لافانی شہرت اور دائمی ذکر کا تذکرہ بہت خوبصورت انداز میں اختلاف اور تضاد نظر آتا ہے ،ہے، وہ اس لیے کہ اس کے کلام میں بہت سا ایسا کلام داخل کر دیا گیا جو غلط طور پر اس سے منسوب کر دیا گیا ہے ۔ہے۔ یہ دوسرے طبقہ کا شاعر ہے ۔ہے۔ اس کا مجموعہ کلام دیوان کی شکل لندن اور بیروت سے شائع ہوچکا ہے ۔<ref>احمد حسن زیات ۔زیات۔ تاریخ ادب عربیعربی۔ ۔ ترجمہ ،ترجمہ، محمد نعیم صدیقی ۔صدیقی۔ شیخ محمد بشیر اینڈ سنز سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور</ref>
نمونہ شاعری
{{نمونہ کلام آغاز}}