"حسین احمد مدنی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← طلبہ، اس ک\1، زیادہ، ہو گئے، سے، سے، ابتدا، صبر و شکر، جو، ہو گئی، دار العلوم
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 16:
 
== تعارف ==
پورا نام شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی ،مدنی، آپ مولانا محمود الحسن کے جانشین تھے۔
 
=== ولادت ===
سطر 22:
 
=== شجرہ نسب ===
حسین احمد مدنی سید ہیں۔ آپکا شجرہ [[حسین بن علی]] سے جا ملتا ہے۔آپکاہے۔ آپکا شجرہ کچھ یوں ہے:
 
حسین احمد بن سید حبیب اللہ بن سید پیر علی بن سید جہانگیر بخش بن شاہ انور اشرف بن شاہ مدن الیٰ شاہ نور الحق۔
سطر 29:
 
=== خاندان ===
سید حسین احمد مدنی کے 4 بھائی تھے۔سیدمحمدتھے۔ سیدمحمد صدیق،سید احمد،سید جمیل احمد،سیدمحمود، بھائیوں میں آپ درمیانے تھے۔
 
آپکی تین بہنیں تھیں۔
سطر 42:
 
== ابتدائی تعلیم ==
آپ کے والد اسکول ہیڈ ماسٹر تھے۔ جب آپ کی عمر 3 سال کو پہنچی تو والد کی تبدیلی قصبہ ٹانڈہ میں ہو گئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم یہاں حاصل کی۔قاعدہکی۔ قاعدہ بغدادی اور پانچویں سیپارے تک والدہ سے پھر پانچ سے اخیر تک والد سے ناظرہ قرآن پڑھا۔
 
=== عصری بنیادی نصابی کتب ===
سطر 52:
حسین احمد مدنی کی زبانی:
 
دیوبند پہنچنے کے بعد وہ ضعیف سی کھیل کود کی آزادی جو مکان پر تھی۔ وہ بھی جاتی رہی۔دونوںرہی۔ دونوں بھائی صاحبان بالخصوص بڑے بھائی صاحب سب سے زیادہ سخت تھے۔ خوب مارا کرتے تھے۔ اس تقید اور نگرانی نے مجھ میں علمی شغف زیادہ سے زیادہ اور لہو لعب کا شغف کم سے کم کر دیا۔<ref>(تخلیص نقش حیات، صفحہ 54 تا 55)</ref>
 
== اساتذہ سے حصول علم ==
سطر 74:
|-
|3
|مولانا عبدالعالیعبد العالی
|مولانا قاسم نانوتوی کے شاگردوں میں سے تھے، دارلعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کرکے دورالعلوم میں مدرس مقرر ہوئے
|مسلم شریف، نسائی شریف، ابن ماجہ، سبعہ معلقہ، صدرا، شمس بازغہ،توضیع تلویح
سطر 118:
علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے مدینہ منورہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔
 
[[شوال]] [[1318ھ]] تک آپکا درس امتیازی مگر ابتدائی پیمانے پر رہا۔ 1318ھ میں ہندوستان آئے۔ ماہ [[محرم (مہینہ)|محرم]] [[1320ھ]] واپس دوبارہ مدینہ حاضری ہو گئے۔ اس کے بعد آپکا حلقہ درس بہت وسیع ہو گیا۔ آپکے گرد طلبہ کا جم غفیر جمع ہو گیا۔اسوقتگیا۔ اسوقت آپکی عمر 24 سال تھی آپکے حلقہ درس میں اس قدر توسیع ہوئی کہ [[مشرق وسطی|مشرق وسطیٰ]] ، [[افریقا]]، [[چین]]، [[الجزائر]]، [[مشرقی ہند|مشرق الہند]] تک کے تشنگان علم آپکی طرف کھینچے کھینچے چلے آنے لگے اور آپکے زیر درس و درسیات [[ہندوستان|ہند]] کے علاوہ [[مدینہ منورہ]]، [[مصر]]، [[استنبول]] کی کتابیں رہیں۔
 
=== عرب کے چند ممتاز شاگرد ===
آپکے شاگردوں میں بہت سے تعلیم و تدریس [[قاضی|قضا]] اور انتظامی محکموں کے بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوئے۔ چند ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں:
* عبدالحفیظعبد الحفیظ کردی جو مدینہ منورہ میں محکمہ کبریٰ (ہائی کمانڈ) کے رکن تھے۔
* احمد بساطی جو مدینہ طیبہ میں نائب [[قاضی]] رہے۔
* محمود عبدالجوادعبد الجواد مدینہ میونسپلٹی کے چیئر مین۔
* مشہورالجزائری عالم شیخ بشیر ابراہیمی۔
 
=== درس حدیث کے لیے تکالیف کا تحمل ===
شدید گرمیں دوپہر 12 بجے کا زمانہ ہو چھتری پیش کی جائے تو لینے سے انکار کر دیتے۔ بارش کے زمانہ میں راستہ کیچڑ آلود ہوتا لیکن حضرت دارالحدیث کی جانب محو سفر ہوتے۔ ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں چھتری ہوتی۔ کپڑے کیچڑ آلود ہوتے تو سواری پیش کی جاتی تو انکار کردیتے۔ شاگرد تانگے والے کو لے آتے بار بار اصرار کرنے پر ایک دفعہ کہنے لگے کہ کیچڑ سے ہم پیدا ہوئے، اگر اسمیں جا ملیں تو کیا ڈر ہے۔ ایک مرتبہ طلبہ کے اصرار پر تیار ہو گئے۔ دوسرے دن کہیں دور جانا تھا تو تانگہ والا حاضر ہوا تو اس کے تانگہ پر اسوقت سوار ہو گئے جبکہ یہ شرط تسلیم کرالی کہ وہ درس گاہ تک لے جانے کے لیے آئندہ کبھی نہ آئے گا۔ <ref name=":0"/>
 
== اہلیہ کی تدفین سے فراغت کے بعد درس بخاری ==
سطر 153:
جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد ٹوٹل ساڑھے تین سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد حضرت شیخ الہند اور انکے تمام ساتھیوں کو جن میں حسین احمد مدنی بھی شامل تھے آخر کار رہائی مل گئی۔ جب گھر سے چلے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گئے تھے مگر رہائی کے بعد جب اپنے علاقہ پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ خاندان کے افراد کی اموات اور 40 یا 42 برس کی عمر تھی۔ صدمے پہ صدمہ خاندان تھا نہ گھر۔<ref>چراغ محمد، از مولانا زید الحسینی</ref><br/>
== سیرت و اخلاق ==
ڈاکٹر عبدالرّحمانعبد الرّحمان شاجہان پوری فرماتے ہیں کہ:
{{اقتباس|علم عمل کی دنیا میں عظیم الشان شخصیات کے ناموں کے ساتھ مختلف خصائل و کمالات کی تصویریں ذہن کے پردے پر نمایاں ہوتی ہیں، لیکن مولانا محمود الحسن سیّد حسین احمد مدنی کا نام زبان پر آتا ہے تو ایک کامل درجے کی اسلامی زندگی اپنے ذہن و فکر ، علم اور اخلاق و سیرت کے تمام خصائل و کمالات اور محاسن و مھامد کے ساتھ تصویر میں ابھرتی اور ذہن کے پردوں پر نقش ہوجاتی ہے۔اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ اسلامی زندگی کیا ہوتی ہے؟ تو میں پورے یقین اور قلب کے کامل اطمینان کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ حسین احمد مدنی کی زندگی کو دیکھ لیجئے، اگر چہ یہ ایک قطعی اور آخری جواب ہے ، لیکن میں جانتا ہون کہ اس جواب کو عملی جواب تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ان حضرات کا قلب اس جواب سے مطمئن نہیں ہو سکتا جنہوں نے اپنی دور افتادگی و عدم مطالعہ کی وجہ سے یا قریب ہوکر بھی اپنی غفلت کی وجہ سے ،یا اس وجہ سے کہ کسی خاص ذوق و مسلک کے شغف و انہماک ، یا بعض تعصبات نے انکی نظروں کے آگے پردے ڈال دیئے تھے اور وہ حسین احمد مدنی کے فکر کی رفعتوں ، سیرت کی دل ربائیوں اور علم و عمل کی جامعیت کبریٰ کو محسوس نہ کرسکے تھے اور انکے مقام کی بلندیوں کا اندازہ نہ لگا سکے تھے۔<ref>ایک سیاسی مطالعہ ، از ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری</ref>}}
 
سطر 159:
مولانا فرید الوحیدی ؒ خود راوی ہیں کہ حضرت مدنیؒ یتیموں اور بیواؤن کی عموما امداد فرماتے تھے۔ ایسے افراد میری نظر میں ہیں جنہیں بے روزگاری کے دور میں مستقل امداد دیتے رہے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم کی قید نہ تھی۔ جو لوگ مفلوک الحال ہوتے انکی امداد باضابطہ طور پر فرماتے۔ عید کے مواقع پر اگر آبائی وطن ہوتے تو خود رشتہ داروں کے ہاں عید سے پہلے جاتے اور عیدی تقسیم فرماتے۔
 
مولانا مدنیؒ اپنے یتیم بھتیجے کی شادی کے لیے 25،000 پچیس ہزار روپے جیب کی مالیت سے عالی شن گھر تعمیر کروایا۔بھتیجےکروایا۔ بھتیجے کی وفات کے بعد انکی اولاد کا کہنا ہے کہ گرفتاری و قید تک ہمیں احساس بھی نہ ہونے دیا کہ ہم یتیم ہیں۔ غرض یہ کہ اس دور نفسا نفسی میں حقیقی پوتوں کے ساتھ پرخلوص مہرو محبت عنقا ہے۔ بھتیجے اور اس کی اولاد کے ساتھ غیر معمولی مہرو محبت کے برتاؤ کی مثال بھی شاید مشکل سے نظر آئے۔<ref name=":0">شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ،مدنیؒ، از مولانا عبدالقیومعبد القیوم حقانی</ref>
 
=== مستحقین کی خبر گیری ===
سطر 169:
 
=== میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا ===
مولانا عبدالحقعبد الحق مدنی کا بیان ہے:
{{اقتباس|مدینہ منورہ والے سید حسین احمد مدنی کی اتنی عزت کرتے تھے کہ دوسرے کسی عالم کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا لیکن حضرت مدنی رمضان شریف میں روزہ پر روزہ رکھتے اور کسی کو خبر نہ ہوتی۔ چنانچہ میں نے افطار کا پروگرام رکھا۔ کھانا لے آیا اصرار پر حضرت نے تھوڑا سا کھایا۔ میں سمجتا رہا کہ حضرت کے گھر سے بھی کھانا آئے گا مگر افطاری تو کجا سحر کو بھی نہ آیا۔ حضرت کے پاس چند کھجوریں تھیں جن سے روزہ افطار اور سحر کرلیا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا آنجناب کے گھر سے نہ افطار میں کھانا آیا اور نہ سحر کے لیے کوئی خبر آئی؟