"سید علی ترمذی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م حوالہ جات/روابط کی درستی
م خودکار: خودکار درستی املا ← ہو گئے، سے، سے، علما، \1 رہا، \1 رہے
سطر 40:
آپ نے شیخ سالار رومی سے بیعت فرمائی تھی۔ انھوں نے مجاہده کے بعد آپ کو [[سلسلہ چشتیہ]]، [[سہروردیہ]]، '''شطاریہ''' اور '''جلاجیہ''' میں اجازت عطا فرمائی۔ '''سلسلہ کبرویہ''' میں آپ کو اپنے دادا جان سے اجازت حاصل تھی۔
آپ خود فرماتے ہیں: ''اذن سلسلہ کبرویہ فقیر از نجاست''
یہ سلسلہ کبرویہ نسل در نسل جنا ب شیخ جمال الدین کبریٰ سے چلا آرہاآ رہا ہے۔
تکمیل علوم کے بعد روحانی فیوض و برکات کے حصول کے لیے آپ پانی پت میں شاہ شرف الدین قلند ر کے مزار پر حاضرہوئے ،اور فیض باطنی سےشرفسے شرف الدین قلندرنے آپ کو نواز ا ۔
 
== اولاد و خلفاء ==
آپ کے دو بیٹے سید حبیب اور سید مصطفی تھے۔ اول الذکر جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئےہو گئے تھے۔ موخرالذکر سے آپ کا سلسلہ نسب چلا۔ ان کے ہاں فرزند سید حسن، سید قاسم اور سید عبداللہ پیدا ہوئے۔ سید حسن وادی سوات میں مرغزار کے مقام پر ابدی نیند سورہےسو رہے ہیں اور سید عبداللہ کا مزار ضلع بونیر کے گاؤں شل بانڈی کے مقام پر ہے۔ آپ کی اولاد کا سلسلہ صوبہ سرحد سے افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔
پیر بابا کے بے شمار مریدین تھے۔ خلفاءمیں سے [[آخوند درویزہ]] کو جو فضیلت وعظمت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی تھی۔ ان کا اصلی نام عبدالرشید تھا اور ننگر ہار افغانستان کے رہنے والے تھے۔ لیکن عمر کا زیادہ حصہ پشاور، اطراف پشاور اور سوات وبندیل میں بسر کیا تھا۔ بچپن سے ہی ان پر خوف الہٰی طاری رہتا تھا۔ حصول علم کے بعد ہی پیر بابا سے وابستہ ہوگئےہو گئے تھے۔
 
==وفات==
آپ نے [[991ھ]] میں وفات پائی. آپ کا مزار شریف [[مینگورہ]] ([[سوات]]) سے چالیس میل کے فاصلے پر ضلع [[بونیر]] کے موضع پاچہ کلے میں ہے۔<ref>تذکرہ علماءعلما ومشائخ سرحد ،جلد اول،صفحہ 1 تا15 محمد امیر شاہ قادری،مکتبہ الحسن یکہ توت پشاور</ref>
 
==ملفوظات==
*”اپنے ایمان اور بہت سے لوگوں کے ایمان کو زوال سے بچاؤ“۔
*”عام مسلمانوں کو سیدھا سادا دین بتاؤ کیونکہ آج کل لوگ علم پر گھمنڈ کرتے ہوئے گمراہ ہورہےہو رہے ہیں۔ طریقت کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ اس لیے مختلف نظریات کے شکار ہوجاتے ہیں“۔
*”میرے دوست اور مرید وہ ہیں جو مجھ سے روحانی فائدہ حاصل کرتے اور میرے احوال پر نظر رکھتے ہیں“۔