"سورہ کوثر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← کی بجائے، سے، اور، سے
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 48:
تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو (۲)
 
کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولادبے اولاد رہے گا (۳)
 
==نام==
انآ اعطینٰک '''الکوثر''' کے لفظر الکوثر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
ابن مردویہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن الزبیر اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے کہ یہ سورت مکی ہے، کلبی اور مقاتل بھی اسے مکی کہتے ہیں اور جمہور مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔ لیکن حضرت حسن بصری، عکرمہ، مجاہد اور قتادہ اس کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ امام سیوطی نے اتقان میں اسی قول کو صحیح ٹھیرایا ہے اور امام نووی نے شرح مسلم میں اسی کو ترجیح دی ہے۔ وجہ اس کی وہ روایت ہے جو امام احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ابی شیبہ، ابن المنذر، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ محدثین نے حضرت انس بھی مالک سے نقل کی ہے کہ حضور {{درود}} ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔ اتنے میں آپ پر کچھ اونگھ سی طاری ہو ہوئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سرِ مبارک اٹھایا۔ بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا آپ کس بات پر تبسم فرما رہے ہیں؟ اور بعض میں ہے کہ آپ نے خود لوگوں سے فرمایا اِس وقت میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر آپ نے سورۂ کوثر پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے۔ فرمایا وہ ایک نہر ہے جو میرے رب نے مجھے جنت میں عطا کی ہے ۔ہے۔ اس روایت سے اس سورہ کے مدنی ہونے پر اس وجہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ مکہ میں نہیں بلکہ مدینے میں تھے اور ان کا یہ کہنا کہ ہماری موجودگی میں یہ سورت نازل ہوئی، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مدنی ہے۔
مگر اول تو انہی حضرت انس سے امام احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور ابن جریر نے یہ روایات نقل کی ہیں کہ جنت کی یہ نہر (کوثر) رسول اللہ {{درود}} کو معراج میں دکھائی جا چکی تھی اور سب کو معلوم ہے کہ معراج ہجرت سے پہلے مکہ میں ہوئی تھی۔ دوسرے، جب معراج میں آپ کو اللہ تعالٰی کے اِس عطیہ کی نہ صرف خبر دی جا چکی تھی بلکہ اس کا مشاہدہ بھی کرا دیا گیا تھا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ حضور کو اُس کی خوشخبری دینے کے لیے مدینۂ طیبہ میں سورۂ کوثر نازل کی جاتی۔ تیسرے، اگر صحابہ ایک مجمع میں حضور {{درود}} نے خود سورۂ کوثر کے نزول کی خبر دی ہوتی جو حضرت انس {{رض مذ}} کی مذکورۂ بالا روایت میں بیان ہوئی ہے اور اُس کا مطلب یہ ہوتا کہ پہلی مرتبہ یہ سورت اِسی وقت نازل ہوئی ہے، تو کس طرح ممکن تھا کہ حضرت عائشہ، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے باخبر صحابہ اس سورت کو مکی قرار دیتے اور جمہور مفسرین اس کے مکی ہونے کے قائل ہو جاتے؟ اس معاملہ پر غور کیا جائے تو حضرت انس کی روایت میں خلا صاف محسوس ہوتا ہے کہ اُس میں یہ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے کہ جس مجلس میں حضور {{درود}} نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی اُس میں پہلے سے کیا گفتگو چل رہی تھی۔ ممکن ہے کہ اُس وقت حضور {{درود}} کسی مسئلے پر کچھ ارشاد فرما رہے ہوں، اُس کے دوران میں وحی کے ذریعہ آپ کو مطلع کیا گیا ہو کہ اِس مسئلے پر سورۂ کوثر سے روشنی پڑتی ہے اور آپ نے اِسی بات کا ذکر یوں فرمایا ہو کہ مجھ پر یہ سورۃ نازل ہوئی ہے۔ اِس قسم کے واقعات متعدد مواقع پر پیش آئے ہیں جن کی بنا پر مفسرین نے بعض آیات کے متعلق کہا ہے کہ وہ دو مرتبہ نازل ہوئی ہیں۔ اس دوسرے نزول کا مطلب دراصل یہ ہوتا ہے کہ آیت تو پہلے نازل ہوچکی تھی، مگر دوسری بار کسی موقع پر حضور {{درود}} کو بذریعۂ وحی اُسی آیت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ایسی روایات میں کسی آیت کے نزول کا ذکر یہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا کہ وہ مکی ہے یا مدنی اور اس کا اصل نزول فی الواقع کسی زمانے میں ہوا تھا۔
حضرت انس {{رض مذ}} کی یہ روایت اگر شک پیدا کرنے کی موجب نہ ہو تو سورۂ کوثر کا پورا مضمون بجائے خود اِس امر کی شہادت دیتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ میں نازل ہوئی تھی اور اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب حضور {{درود}} کو انتہائی دل شکن حالات سے سابقہ درپیش تھا۔