"قوالی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، صوفیا، ہو گئے، پند و \1، سیاست داں، سے، علما، \1 رہا، اور، سے، غیر، ہو گئی، فرماں بردار، دیے، دیے، آج کل، یا
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 15:
‎ذکر” کی روایت ہزاروں برس پرانی ہے۔ یہ روایت اسلام سے پہلے بھی موجود رہی ہے۔ مگر”سماع” اپنے جوہری انداز میں خالصتاً اسلام سے منسلک ہے۔ امام غزالیؒ نے اس کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ انھوں نے “ذکر” اور “سماع” کے فرق کو بھی اجاگر کیا۔ برصغیر میں اسلام “صوفیا” کی بدولت عام لوگوں تک پہنچا۔ صوفیا کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے ہمارے دین کو لوگوں کے لیے آسان اور سہل بنا کر پیش کیا۔ ان صوفیا کے علم میں تھا کہ برصغیر میں لوگوں پر موسیقی کی گہری چھاپ ہے۔ چنانچہ ان عظیم لوگوں نے اس روایت کو بھی اپنے اندر سمونے کی بھر پور کوشش کی۔
قوالی کی تاریخ:
‎ لفظ’’قوالی‘‘عربی کے لفظ ’’قول‘‘سے مشتق ہے۔ قول کا مطلب ہوتا ہے ’’بات‘‘یا ’’بیان کرنا‘‘۔اسکرنا‘‘۔ اس طرح قوالی کا مطلب ہوا وہ بات جو بار بار دہرائی جائے۔حالانکہجائے۔ حالانکہ لفظ قوالی کو بھارت اور پورے برصغیر میں گانے کی ایک خاص صنف کے نام کے طور پر استعمال کیاجانے لگا۔ قوالی ایک خاص اسٹائل کے گانوں کو کہتے ہیں جن میں اللہ کی حمد وثنا ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہوتی ہے یا صوفیہ اور اللہ والوں کی منقبت بیان کی جاتی ہے۔ اس کے لیے موسیقی لازم ہے، بغیرآلات موسیقی کے قوالی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔قدیمجاسکتا۔ قدیم روایتوں ،صوفیہ کے تذکروںاورتذکروں اور تاریخی کتابوں کے مطابق اس خطے میں پرانے زمانے سے صوفیہ کی خانقاہوں میں قوالی کا رواج رہا ہے۔ اس کی ابتدا اگرچہ حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید ِ خاص حضرت امیر خسرو سے مانی جاتی ہے جو اپنے عہد کے ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے فن میں بھی مہارت رکھتے تھے مگر سماع کی محفلیں اس سے پہلے بھی رائج تھیں اور باوجود اس کے رائج تھیں کہ علما کا ایک طبقہ موسیقی کو غیر اسلامی مانتا تھا اور اس کی مخالفت کرتا تھا۔ محفل سماع کا ذکر برصغیر کے چشتی مشائخ کے تذکروں میں خاص طور پر ملتا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی خود اچھے شاعر تھے اور ان کی خانقاہ میں محفل سماع ہوتی تھی۔ ان کے مرید وخلیفہ حضرت قطب الدین بختیارکاکی کی خانقاہ دلی میں تھی اور انھیں سماع کا اس قدر شوق تھا کہ اسی حالت میں انھیں حال آ گیا اور وہ بے خودی کی کیفیت میں آ گئے اور اسی کیفیت میں کئی دن رہ کران کی موت واقع ہو گئی ۔گئی۔ بعض علما کی مخالفت کے باوجود چشتی مشائخ اس پر اصرار کرتے رہے اور لطف کی بات تو یہ تھی کہ انھوں نے بڑی حکمت عملی سے اس کا استعمال اسلام کی تبلیغ میں کیا کیونکہ یہاں کے باشندے موسیقی سے رغبت رکھتے تھے اور یہاں ہزاروں سال سے موسیقی کی روایت چلی آتی تھی۔ قدیم مذہبی گرنتھ ویدوں میں بھی اس پر بہت کچھ موجود ہے۔ یہاں بھجن میں موسیقی کا استعمال ہوتا تھا۔ ہندوستانی تاریخ میں موسیقی کے حوالے سے حیرت انگیز شہرت کے حامل اکبر کے نورتنوں میں سے ایک تان سین کی پرورش گوالیار کے معروف صوفی حضرت محمد غوث گوالیاری کی خانقاہ میں ہوئی تھی اور اسے موسیقی کی تعلیم بھی آپ نے ہی دی تھی۔ آج بھی تان سین کی قبر آپ کے پہلو میں موجود ہے۔ اس قسم کے واقعات اس بات کی گواہی کے لیے کافی ہیں کہ یہاں کے صوفیہ کو موسیقی سے خاص لگائو تھا اور انھوں نے اس ملک کے سنگیت کو بہت کچھ دیا ہے جس میں سے ایک قوالی بھی ہے۔ اس کی ایجاد اور مقبولیت صوفیہ کی مرہون منت ہے۔سنٹرلہے۔ سنٹرل ایشیا کے صوفیہ کا بھی موسیقی سے خاص لگائو رہا ہے اور ان کی بھارت آمد سے قبل بھی ان کا موسیقی سے تعلق خاطر تھا۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی مواقع پر موسیقی بجائی گئی اور آپ نے اسے منع نہیں کیا۔ لیکن اس میں بھی علما اکرام مختلف تفاسیر پیش کرتے ہیں کہ کون سے آلات موسیقی کی اسلام میں گنجائش ہے۔ عہد نبوی میں دف بجاکر گانے کا رواج عام تھا جس کا ثبوت احادیث میں موجود ہے۔
‎ قوالی کے موجدامیرخسرو
‎ قوالی کے موجد حضرت امیر خسرو مانے جاتے ہیں اور یہ ان کے فن کی سچائی کی دلیل ہے کہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی یہ فن زندہ ہے اور اسے پسند کرنے والوں کا ایک طبقہ موجود ہے۔کہاجاتاہے۔ کہاجاتا ہے کہ ایک مرتبہ امیرخسرو ،اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ ان کی شاعری میں وہ شیرینی آجائے جو بے مثال ہو۔ مرشد نے اپنے فرماں بردار مرید کی عرض داشت سنی اور ارشاد ہوا کہ کھاٹ کے نیچے شکر رکھی ہوئی ہے نکالو۔ اسے خود کھائو اور حاضرین میں تقسیم کردو۔ امیر خسرو نے ایسا ہی کیا اور پھر ان کی زبان میں وہ شیرینی آگئی کہ آج سات سو سال سے زیادہ کی مدت گزرنے کے بعد بھی اس کی مٹھاس میں کمی نہیں آئی۔ خسرو ؔ کو ان کے عہد کے ایک بادشاہ نے ’’ملک الشعرائ‘‘کے خطاب سے نوازا تھا مگروہ کشورِ سخنوری کے ایسے شہنشاہ ثابت ہوئے جس کی سلطنت کو آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا۔غالباًکیا۔ غالباً یہ اسی شکر کی برکت تھی جو خسروؔ کو بارگاہِ نظامی سے عطا ہوئی تھی۔ وہ باالاجماع برصغیر کی تمام زبانوںکےزبانوں کے سب سے بڑے شاعرتھے اور آج تک ہیں۔ ان کی برابری کا کوئی سخنور اس ملک نے پیدا نہیں کیا۔انکیا۔ ان کی عظمت کو دنیا نے تسلیم کیا ۔کیا۔ وہ شاعری ہی نہیں موسیقی کے فن میں بھی یکتا تھے اور کچھ نئی ایجادات و اختراعات کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔خسروؔہے۔ خسروؔ نے اپنی شاعری اور موسیقی کو خالص ہندوستانی رنگ دیا جسے کثرت میں وحدت کی مثال کہا جاسکتا ہے اور اسی کی تقلید بعد کے فنکاروں نے کی۔
‎ امیر خسرو کی ولادت اترپردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی،جو متھرا سے ایٹہ جانے والی شاہراہ پہ گنگا کنارے واقع ہے۔651ھ بمطابق 1252ء کو یہاں کے ایک امیر کبیرگھرانے میں انھوں نے جنم لیا۔ یہ سلطان ناصرالدین محمود کا دور سلطنت تھا۔والدتھا۔ والد کا نام امیر سیف الدین محمود اور والدہ کانام دولت ناز تھا۔ والد ایک مہاجر ترک تھے تو والدہ ایک(ہندو) نومسلم ،سیاہ فام ہندوستانی سیاست داں کی بیٹی تھیں۔ وہ اپنے تین بھائیوں اور ایک بہن میں منجھلے تھے۔ خسرو کا اصل نام یمین الدین محمود تھا مگر شہرت انھیں ان کے تخلص سے ملی۔امیر،ملی۔ امیر، ان کا موروثی خطاب تھا۔انھوںتھا۔ انھوں نے اپنی شاعری اور موسیقی میں خالص ہندوستانی انداز کو اپنایا اسی لیے وہ خوب مقبول ہوئے۔ ان کے فن میں اہل وطن نے اسی مٹی کی سوندھی خوشبو محسوس کی۔
‎امیر خسرو کا نام آج تک علم موسیقی میں ان کے حیرت انگیز تجربات کی وجہ سے زندہ ہے۔ وہ نظام الدین اولیاءؒ کے مرید ہو چکے تھے۔ روایت کے مطابق “فنافی الشیخ” کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ قوالی کی صنف کو امیر خسرو نے اپنے مرشد کی اطاعت اور مرضی سے انمول بنا دیا۔ انھوں نے مختلف نئے راگ ترتیب دیے۔ آج کا ستار اور طبلہ، صرف اور صرف اس مردِ عظیم کی کاوش اور ایجاد ہے۔ انھوں نے اپنی اکثر قوالیاں بھاگیشری، سوہنی، بہار اور بسنت راگوں میں بنائیں۔ نظام الدین اولیاء کے حکم پر انھوں نے بارہ خوش الحان گائیکوں کی ایک ٹولی ترتیب دی۔ ان تمام کو سماع کی نازک جزئیات سکھائیں۔ اس میں سے آج صرف پانچ نام محفوظ ہیں۔ میاں سمات، حسن ساونت، بہلول، تاتر اور فغانی اس بارہ کی ٹولی میں شامل تھے۔
‎اس فن نے سلاطین دہلی سے لے کر مغلوں تک کا سفر بڑے آرام سے کیا۔ شاہ جہاں کے دور میں دو بہت مشہور قوال گزرے ہیں۔ ان کا نام “رضا اور
‎ر “کبیر” تھا۔
‎حضرت امیر خسروؔ کی طرف منسوب ’’چھاپ تلک سب چھینی رے‘‘ ’’اے ری سکھی ری مورے خواجہ گھر آئے‘‘ سے لے کر ’’بھردو جھولی مری یامحمد‘‘’’سجدے میں سر کٹادی محمد کے لعل نے‘‘تک ایسی قوالیاں بڑی تعداد میں ملتی ہیں جن کی مقبولیت زمان ومکان کی قید سے اوپر ہے۔برصغیرہے۔ برصغیر کا خطہ’’ قوالی‘‘کی جنم بھومی ہے۔ یہ ایک خالص ہندوستانی فن ہے جو اسی دھرتی سے اٹھا ہے۔ یہ خانقاہوں میں پیدا ہوا اور وہیں اس کی نشو نما ہوئی۔ البتہ وقت اور حالات نے اس پر اثر ڈالا اور اس میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں۔ابتدارہیں۔ ابتدا میں اس کی زبان فارسی ہوتی تھی مگر رفتہ رفتہ اس کی زبان ہندوی یا اردو ہو گئی۔’’محمد کے شہر میں‘‘’’دمادم مست قلندر‘‘عام لوگوں کے اندر بے حد مقبول ہوئیں۔ اس کے بعد یہاں کی علاقائی زبانوں میں بھی قوالیاں گائی جانے لگیں
‎قوالی میں تبدیلی کا دور
‎ قوالی کا فن اس قدر مقبول ہوا کہ وہ خانقاہوں سے نکل کر عوام الناس تک پہنچ گیا اور عوامی محفلوں میں اسے گایا جانے لگا۔ابلگا۔ اب یہ خانقاہوں اور درگاہوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عام لوگوں کی پسند بن چکا تھا۔ ایک ایک محفل میں ہزاروں اور لاکھوں کی بھیڑ جمع ہوجاتی اور قوالی گانے والے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ۔بھارت۔ بھارت میں سنیما کی آمد سے قبل عام لوگوں کی تفریح طبع کا سامان ہوا کرتی تھیں قوالی کی محفلیں اور جب یہاں سنیما متعارف ہوا تو قوالیوں کو بھی یہاں جگہ دی گئی۔ البتہ ایک بڑا بدلائو یہ ہوا کہ قوالی کے مضامین بدل گئے۔ جہاں خالص حمدونعت ،حمدونعت، منقبت اور پند و نصیحت کے مضامین اس کا حصہ ہوا کرتے تھے وہیں اب عاشقانہ مضامین اس میں شامل ہو گئے۔ غزل میں جس طرح حسن وعشق کا بیان ہوتا تھا،ا سمیں بھی ہونے لگا۔فلمیلگا۔ فلمی قوالیوں نے جہاں اس فن کو مقبول بنانے کا کام کیا وہیں اسے کمرشیلائز کرکے اس کی حرمت اور تقدس کو بھی پامال کیا۔ قوالی اخلاقیات سے دور ہوتی چلی گئی اور اس میں صوفیانہ مضامین کی جگہ سوقیانہ خیالات درآئے۔ مرد اور خواتین قوالوں کے بیچ مقابلے شروع ہو گئے ۔گئے۔ اسی قسم کی ایک فلمی قوالی جو بے حد مقبول ہوئی تھی وہ تھی ’’عشق عشق ہے‘‘ حالانکہ 80 19ء کی دہائی میں فلم ’’نکاح‘‘ کی قوالی’’ چہرہ چھپا لیا ہے‘‘ نے مقبولیت کے تمام رکارڈ توڑ دیے تھے۔ فلم مغل اعظم کی اس قوالی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جو انارکلی اور بہار کے بیچ مقابلے کی شکل میں ہوتی ہے’’تیری محفل میں قسمت آزماکے ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔علاوہگے‘‘۔ علاوہ ازیں ’’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے‘‘’’جھوم برابر جھوم شرابی‘‘جیسی قوالیوں کو مشہور ترین قوالیوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
‎ قوالی کے پرانے انداز کو زندہ کرنے کی ضرورت
 
‎جس زمانے میں قوالی کا فن اپنے رنگ روپ بدل رہا تھا اور اسے اکتساب زر کا اچھا ذریعہ سمجھا جا رہاتھا اسی دوران پاکستان کے صابری برداران کا ظہور ہوا جنھوں نے اس کے پرانے رنگ وروپ کو دوبارہ ابھارنے کی کوشش کی اور اسے ماضی کی طرف لے جانے میں اہم کردار نبھایا۔ یہ قوالی کے احیاء کا دور تھا۔ حالانکہ اسی دوران بھارت اور پاکستان میں بڑی تعداد میں قوال موجود تھے مگر کسی کا صابری بھائیوں سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔انتھا۔ ان بھائیوں کے بعد صوفیانہ قوالی کو رنگ وآہنگ عطا کیا
ان کی گائ ہوئ ایک ایک قوالی ماسٹر پیس ہے اوراب تک ہزاروں قوالوں کی دال روٹی یہی قوالیاں گا کر چل رہی ہے۔ یہ قوالیاں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں ری مکس اور بے شمار گلوکاروں نے گائی ہیں۔
لیکن ان میں سے کوئی صابری برادران کی گرد تک کو نہیں چھو سکا ہے۔ تاجدار حرم، میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا یا محمد ص نور مجسم یا حبیبی یا مولائی، اللہ کے حضور میں سر کو جھکا کے دیکھ، کوئی حد ہے ان کے عروج کی،
قوالی اتنی پر اثر کیوں؟
قوالی کی اثر انگیزی اور دل پزیری میں بڑا ہاتھ اس کے ساتھ زوردار آواز میں آیک خاص لے سے بجنے والے ڈھول ،ڈھول، طبلے، ہارمونیم اور تالیوں کی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق انسان ڈھول طبلے یا ڈرم کی بیٹ سن کر ایک خاص قسم کا وجد یا جسم کی دماغ کے ساتھ ہم آہنگی محسوس کرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس میں بڑا ہاتھ ماں کے دل کی دھڑکن کی دھک دھک ہے جو پیٹ میں موجود بچہ اپنی حس سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنی پیدائش تک مستقل سنتا ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ دھک دھک ایسی رچ بس جاتی ہے کہ اس دھمک اور ردھم کو سن کر وہ اسی خود فراموشی کی کیفیت میں جانا چاہتا ہے جو اس کی اس دنیا میں آمد سے پہلے اس کی کل کائنات تھی۔ بچوں کو جب تھپکا جاتا ہے تو وہ سو جاتے ہیں۔ یہاں بھی وہی وجہ کارفرما کے کی جب بچے کی کمر یا سینے یا کندھے پر ہاتھ سے تھپکی دی جاتی ہے تو وہی دھک دھک اس کو اپنے جسم اور کانوں میں محسوس ہوتی ہےجسہے جس کو سن کر دماغ اور جسم اس لے کے تحت ایک ردھم میں آکر پرسکون ہوجاتے ہیں۔ قوالی میں جب یہی زوردار ڈھول کی دھک دھک اور اس کے ساتھ ان ھستیوں کے نام یا ذات باری تعالی کا ذکر جن سے انسان روحانی و قلبی تعظیم اور تعلق رکھتا ہے لگا تار تکرار سے کیا جاتا ہے تو یہ انسان کے دل و دماغ پر دہرا اثر ڈالتی ہے اور سننے والے وجد میں آجاتے ہیں جب یہ کیفیت مکمل طور پر غالب آ جائے تو اسے حال آنا کہتے ہیں جس میں انسان مکمل طور پر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ ۔ہے۔۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اکثر ایسے افراد بھی قوالی سن کر وجد میں آجاتے ہیں جو قوالی کی زبان یا اس میں ادا کیے الفاظ کا مطلب نہیں جانتے۔ صابری برادران کے غیر ملکی دوروں کے دوران سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں غیر مسلم افراد نے قوالی سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔
قوالی میں اختراع :
‎ استاد نصرت فتح علی خاں نے قوالی میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اختراع کی مگر انھوں نے کم عمر پائی۔ وہ اکثر پی ٹی وی کے محفل سماع پروگرام میں روایتی انداز سے قوالی گاتے تھے لیکن کبھی بھی روام میں مقبولیت یا پزیرائ حاصل نہ کرسکے۔ لیکن جب سن 1988 میں ان کی جرمنی میں جدید آلات موسیقی اور ماڈرن اسٹوڈیو میں ریکارڈ شدہ قوالی دم مست قلندر مست مست کی تعریف عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں کی تو گویا استاد نصرت پر شہرت و بلندی کے دروازے کھل گئے۔ وہ اس قوالی کے بعد شاید آتھ نو سال کا عرصہ حیات رہے لیکن اس دوران انہوں نے وہ بین الاقوامی شہرت پائ کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
‎اس عرصے میں انہوں نے اتنی قوالیاں اور غزلیں ریکارڈ کروائیں جتنا انہوں نے شاید اپنی پوری زندگی نہ گایا تھا۔ سن 1997 میں وہ عارضہ جگر کے باعث لندن کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے۔ اب ان کے بھانجے
‎ استادراحت فتح علی خاں مقبول ہیں اور درگاہوں سے لے کر فلموں تک ان کی آواز سنائی دے رہی ہے۔لیکنہے۔ لیکن راحت فتح علی روایتی قوالی سے زیادہ غزلیں اور فلمی گانے گاتے ہیں۔ ان کی آواز اور گائیگی کی مقبولیت نے بڑے بڑے منجھے ہوئے اور مہا گلوکاروں کی چھٹی کردی ہے۔ ھندو انتہا پسندوں کی شدید ترین مخالفت کے باوجود بھارت میں ان کا طوطی بول رہا ہے۔ ان کے گائے ہوئے ہر گیت اور غزل نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ استاد راحت نے بھارت کے بڑے بڑے مقبول فلمی گلوکاروں کو مستقل طور پر گھر بٹھا دیا ہے۔
‎ بھارت اور پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آج بھی اس فن سے واقفیت رکھتے ہیں مگر بیشتر لوگ اسے پارٹ ٹائم جاب کی طرح دیکھتے ہیں کیونکہ سوائے چند حضرات کے اب یہ کسی کی مالی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے۔ درگاہوں کے آس پاس جو قوال نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر فن سے ناواقف ہوتے ہیں اور ان میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو دن بھر آس پاس کوئی معمولی قسم کے کام کرتے ہیں اور شام کو ڈھول ،ہارمونیم لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری طور پر اس فن کی سرپرستی کی جائے اور اس کے روایتی پرانے انداز کو دوبارہ عوام کے سامنے لایا جائے۔ یہ ہماری تہذیب سے جڑا ہوا فن ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے کلچر کی حفاظت کریں۔